کئی باتیں اکٹھی ہو گئی ہیں جنہیں میں لکھنا چاہتا ہوں۔ کرونا وائرس کے خطرات، ملک کی معیشت اور سیاست کے اتار چڑھائو سے ہٹ کر بہت ساری باتیں اور ہیں جو کرنا چاہتا ہوں مگر یہاں سب سے پہلے اپنی ایک کوتاہی کا اعتراف کروں گا حالانکہ اس سے فرق تو پڑتا نہیں کوئی۔ ڈاکٹر مبشر حسن پر لکھتے ہوئے میں نے ان کے مجید نظامی کے بارے میں نظریات کا تقابل کرتے ہوئے کرنل عابد حسین کا ذکر کیا تھا یہ کوئی ایسی بات نہ تھی جو مجھے غلط یاد رہی ہو، مگر روا روی اور روانی میں یوں لکھتا چلا گیا حالانکہ میں جن کرنل صاحب کا ذکر کر رہا تھا اور جو مشاہد حسین، مواحد حسین اور مجاہد حسین کے والد ہیں۔ وہ کرنل امجد حسین ہیں۔ وہ مجید نظامی کے برادر بزرگ حمید نظامی کے اس وقت دوست بنے جب نظامی صاحب سانگلہ ہل سے کالج میں داخلہ لینے کے لیے لاہور آئے۔ کرنل صاحب کو رومی ٹوپی پہنے یہ نوجوان اچھا لگا۔ دن میں کالج میں انٹرویو سے انتظار میں دیکھا تو شام کو شاید مزنگ کے پاس کسی سواری کے انتظار میں۔ نوجوان امجد نے اسے اپنی سائیکل پر لفٹ دی اور گھر لے گئے۔ پھر جو دوستی شروع ہوئی تو یہ دوستی تحریک پاکستان بن گئی۔ یہ واقعہ 1940ء کی قرار داد سے پہلے کا ہے۔ قائد اعظمؒ سے ملاقات درمیان میں آتی ہے۔ اس زندگی بھر کی کہانی کو ریکارڈ کرنے کے لیے میں نے کم از کم دو بار ان کا انٹرویو کیا یا شاید تین بار۔ وقت چینل کے لیے جن کے کرنٹ افیئر اور نیوز کا میں پہلا سربراہ تھا اور جس کی خاطر میں کراچی چھوڑ کر واپس لاہور آیا تھا۔ ایک انٹرویو نیوز ون کے لیے، اخبار کی ایڈیٹری چھوڑ کر نجی الیکٹرانک میڈیا میں اس گروپ کی خاطر آیا تھا۔ کرنل امجد حسین کی داستان نے مجھے بہت مسحور کیا تھا۔ ان کے علاوہ ایک سلیم صاحب ہیں جو شاید کرنل تھے یا میجر، وہ دوسرے آدمی ہیں جو ان دنوں کے لاہور کے نوجوان کی ہمت کی داستانیں سناتے تھے، جنہوں نے قائد اعظمؒ سے ملاقات کی تھی۔ ان کے حافظے میں بھی ایسی داستانیں تھیں جو حیران کر دیتی ہیں۔ میں روانی میں کرنل امجد حسین کو کرنل عابد حسین لکھ گیا۔ کرنل عابد حسین بھی ہماری تاریخ ہیں۔ اس زمانے کی قدیمی سیاست میں پنجاب کا ایک مستند نام تھا۔ یہ سیدہ عابدہ حسین کے والد ہیں۔ اس زمانے میں پنجاب کی اشرافیہ کی نشانی جب ممتاز دولتانہ آکسفورڈ سے پڑھ کر آئے تو انہوں نے مسلم لیگ کو مشورہ دیا کہ ملک میں زرعی اصلاحات نافذ کی جائیں۔ اس پر پنجاب کے روایتی جاگیردار خانوادے بھڑک اٹھے۔ نواب آف کالا باغ، نوابزادہ نصراللہ خان، نوبہار شاہ، کرنل عابد حسین نے مل کر اس کے خلاف ایک تنظیم بنائی جس کا نام انجمن حقوق زمینداران تحت الشریعہ رکھا۔ ذرا غور کیجیے، وہ کیا زمانہ ہو گا۔ ان سے ملاقات کا مجھے شرف حاصل نہیں ہے، مگر ان کی داستان حیات سے کئی پہلو پاکستان کی تحریک کے پہلو پہ پہلو مجھے یاد ہیں۔ چلیے اس کوتاہی کے صدقے بہت سی باتیں کرنے کا موقع ملی گیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب پاکستان بن رہا تھا یا بن چکا تھا۔ اس زمانے کی اپنی تاریخ ہے اور ایک آج کا زمانہ ہے جب وقت کے پلوں کے نیچے بہت سا پانی گزر چکا ہے۔ حالات بالکل بدل چکے ہیں۔ درمیان میں کئی مرحلے آئے۔ ایک طرف ممتاز دولتانہ جیسا زمیندار زرعی اصلاحات کی بات کر رہے تھے، دوسری طرف نوابزادہ نصراللہ خان جیسا بابائے جمہوریت زمینداری کے حقوق کی خاطر شریعت کو ڈھال بنائے ہوئے ہے۔ اسمبلی میں ایک آزاد گروپ بن گیا تھا جس میں ترقی پسندی کی باتیں ہوتی تھیں۔ میاں افتخار الدین کے ساتھ سردار شوکت حیات بھی تھے۔ بنیادی طور پر یہ سب مسلم لیگی تھے۔ غالباً یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے پہلے پہل نظریہ پاکستان کا لفظ سیاسی طور پر استعمال کرنا چاہا۔ مجھے شک ہے ایسا اس لیے تھا کہ یہ لوگ اسلام کے لفظ سے ہٹ کر ایک ایسا نیوٹرل لفظ لانا چاہتے تھے جس پر کوئی اعتراض نہ کرے۔ اس وقت دانشوری میں ترقی پسندی کا زمانہ تھا جب کہ سیاست میں اس کی ممانعت تھی۔ لطیفہ مشہور ہے کہ کسی کو گرفتار کیا گیا۔اس نے پوچھا، میرا قصور؟ جواب آیا، تم کمیونسٹ ہو۔ اس نے کہا، بھئی میں تو اینٹی کمیونسٹ ہوں۔ جواب ملا کچھ بھی ہو، کیسے بھی ہو، مگر ہو تو کمیونسٹ۔ پھر ہم نے کمیونزم کو بھٹو کی آڑ میں آگے بڑھتے دیکھا۔ ایک ایسا کمیونزم جو لبرل طبقے کو بھی قابل قبول ہو مگر دونوں میں اتنا بھی فرق تھا جتنا مثال کے طور پر اسلام اور کفر میں ہو سکتا ہے۔ لبرل کا مطلب امریکی ہونا لیا جاتا تھا جبکہ کمیونزم روس اور چین سے عبارت تھا۔ جانے کیوں ہماری سیاست میں یہ روس کا نام تھا۔ چین کا ظہور اور طرح سے ہوا تھا یہ الگ کہانی ہے۔ یہ ہماری حب الوطنی اور قوم پرستی کے ساتھ گڈمڈ میں ہو گئی ہے۔ 70ء کا زمانہ بھی کیا زمانہ تھا۔ ایک طرف قوم نظریاتی جنگ لڑ رہی تھی، دوسری طرف ملک ٹوٹ رہا تھا۔ ٹوٹنے کی وجہ یہ نظریاتی تصادم نہ تھا، کچھ اور تھا۔ پھر روس ٹوٹا اور برلن کی دیوار گری تو ملک کا پورا رنگ روپ ہی بدل گیا۔ دراصل میں آج کی نظریاتی بحث تک آنا چاہتا ہوں۔ وہ زمانہ بھی دیکھا جب کوئی کمیونسٹ یا ترقی پسند بھی لبرل کہلوانا پسند نہ کرتا تھا۔ اسے اس میں امریکہ کی بو آتی تھی اور امریکہ تو روس کا دشمن تھا۔ اب الگ طبقہ پیدا ہو رہا ہے جو خود پر ڈیموکریٹک، لبرل، سیکولر کا لیبل لگاتا ہے اور بڑے مزے کی باتیں کرتا ہے۔ میں بار بار کہہ رہا ہوں کہ ہمارے ہاں جو این جی اوز سول سوسائٹی کے نام پر پھریرے اڑا رہی ہیں، یہ ایک خاص سوچ اور مخصوص کلچر کی نمائندہ ہیں۔ ان میں بعض ایسے ہی ہیں جن کی گفتگو کا لغو پن ان کی باتوں سے صاف جھلکتا ہے۔ مگر یہ ڈٹے ہوئے ہیں۔ اکثر اوقات ان کے خیال میں -1پاکستان غلط بنا ہوا ہے۔ -2اب اسے اگر چلنا ہے تو صرف سیکولرزم کی بنیاد پر چل سکتا ہے۔ -3قائد اعظمؒ جو پاکستان بنانا چاہتے تھے اس کا نظریہ پاکستان سے کوئی تعلق نہ تھا۔ -4نظریہ پاکستان ایک ڈھکوسلہ تھا۔ یہ جوشہروں، شہروں مختلف تقاریب ہوتی ہیں اس ایجنڈے کو لے کر چلتی ہیں۔ یہ فیض میلہ ہو، عاصمہ جہانگیر کانفرنس ہو۔ یوم خواتین ہو حتیٰ کہ ادب کا جشن سب حیرت انگیز طور پر ایک ہی طرح کا کلچر اور مزاج ہے جو فروغ دیا جا رہا ہے۔ ابھی گزشتہ دنوں کراچی کے ایک ادبی میلے میں پرویزہود بھائی کی ایک تقریر سوشل میڈیا پر سنی۔ موصوف ان لوگوں میں ہیں جن کے بارے میں یہ تو معلوم نہیں کہ اپنے سیبجیکٹ کے بارے میں ان کا کیا مقام ہے۔ مگر دنیا جہاں کی احمقانہ اور لغو باتیں کرتے رہتے ہیں۔ پاکستان اور قومی نظریے کے بارے میں ان کے فرمودات سنے۔ دس گیارہ نکات میں محترم جاوید جبار نے ان کے جوابات دیئے ہیں۔ سب کچھ انگریزی میں ہے۔ اس وقت اس حماقت کے جواب دینا نہیں چاہتا۔ سچ پوچھیے تو جاوید جبار نے دندان شکن کا حق ادا کر دیا۔ وہ کسی ہود بھائی سے کم پاکستان اور علوم جدید کو نہیں جانتے، دل باغ باغ ہو گیا۔ جو آدمی عقل سے بالکل پیدل ہو اس کے منہ کیا آتا، مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایسے لوگوں کا ادب سے کیا تعلق۔ انہیں کیوں اہمیت دی جاتی ہے۔ میں نے عرض کیا کہ معلوم نہیں اس نے فزکس میں کیا کیا ہے، مگر بیٹھے ہیں نظریہ پاکستان پڑھانے۔ میرا تو ایک بار پالا پڑتے پڑتے بچا تھا۔ یہ آج کل جدید ترین رجحان ہے۔ سچ پوچھیے تو میں اسے جدید ترین فتنہ لکھنا چاہتا ہوں۔ اللہ اپنی پناہ میں رکھے، کرونا سے بھی خطرناک وبا جو ایک عرصے سے پھیلتی جا رہی ہے۔ ایک افواہ یہ گرم ہے کہ کرونا بھی ایک بائیولوجیکل وار کا حصہ ہے جو دشمن نے اپنی طرف سے چین پر مسلط کی۔ اس پر تو یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا، مگر یہ بات طے ہے کہ عہد جدید کا یہ تہذیبی فتنہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کسی تجربہ گاہ میں تیار کیا گیا ہے اور اب ہم پر مسلط کیا جا رہا ہے۔ کیا خیال ہے ہم اس فتنے کو پھیلنے دیں گے، اس وبا کو سر اٹھانے دیں گے جب کہ ہمارے پاس اس کی ویکسین بھی ہو، اس کا تریاق بھی ہو، اس کا توڑ بھی ہو۔کرنل امجد حسین سے ہود بھائی کے سفر میں ہم اکیلے نہیں۔ صرف مشاہد حسین ہی ہمارے ساتھ نہ ہوں گے جاوید جبار بھی ہوں گے۔ مطلب یہ ہے کہ اسے کوئی قدیم و جدید کا سفر نہ سمجھے۔ یہ مغرب کی کسی تجربہ گاہ میں تیار کی گئی وائرس کے خلاف ہماری جنگ ہے۔ این جی او کے ذمے یہی کام ہے جس کے خلاف ہمیں لڑنا ہے۔ ملک دشمنی کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ چلیے، یوں سہی، عقلی دشمنی ہمیں قبول نہیں ہے۔