مصرکے ایک مفتی صاحب نے فتویٰ دیا ہے کہ ناراض بیوی کا شوہر جنت میں نہ جا سکے گا۔یہ پڑھ کر ہمارے تو ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ اخبار لیے دوڑے دوڑے اہلیہ محترمہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ تھرتھراتے کانپتے عرض کیا: ’’ملکہ عالیہ! نصیب دشمناں آپ مجھ سے خفا تو نہیں۔ کوئی بات ہماری آپ کی طبیعت پر گراں گزری ہو تو ہم دست بستہ آپ سے معافی کے طلب گار ہیں‘‘۔ ہم نے اخبار ایک طرف رکھ کر سچ مچ ان کے آگے اپنے ہاتھ جوڑ دیے۔ اہلیہ نے جو بچوں کیلئے ناشتہ تیار کر رہی تھی، پلٹ کر ہمیں دیکھا اور لاپرواہی سے بولیں: ’’ اسی لئے کہتی ہوں زیادہ پڑھنے اور سوچنے سے آدمی تھوڑا بہت دماغی توازن کھونے لگتا ہے: اس جواب پہ ہم چکرا گئے۔ سوچنے لگے یہ خاتون تو واقعی ناراض لگتی ہیں۔ سمجھ میں نہ آیا کہ کیسے منائیں۔ ’’کیا آملیٹ بنا دوں؟‘‘ ہم نے پیشکش کی۔ ’’کہا ناں اپنے دماغ کا علاج کرائیے‘‘ اب کے ان کا لہجہ سخت تھا۔ ہمارے تو پاؤں تلے زمین نکل گئی۔ اب ان کی ناراضگی میں کوئی شعبہ نہ رہا تھا۔ انہیں مزید ناراض یا مشتعل کرنا مناسب نہ تھا۔ اخبار اٹھایا اور واپس بستر پہ دراز ہو کر سوچنے لگے کہ مفتی صاحب کا فتویٰ غلط تو نہ ہو گا، آخر ایک مشہور دار العلوم کے فارغ التحصیل اور اسی سے وابستہ ہیں۔ دن سارا دینی مسائل پہ غورو فکر میں گزرتا ہو گا تو ایسا کیسے بھلا ممکن ہے کہ انہوں نے فتویٰ دیتے ہوئے ہم شوہروں کی پریشانیوں اور الجھنوں پہ غور نہ کیا ہو۔ چنانچہ ہم نے ان تمام واقعات کو یاد کیا جس میں ہم کسی نہ کسی سبب سے گھر میں گرجے برسے تھے۔ بچوں کے سامنے اہلیہ کو سخت سست کہا تھا۔ ان واقعوں کو جب ہم نے یاد کیا تو اپنی زیادتیوں کاسوچ کے خود ہماری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔دل سے ایک آہ نکلی کہ اگر ہم جنت کے مستحق نہیں تو ٹھیک ہی مستحق نہیں۔ ناگاہ خیال آیا کہ اگر ہم جنت میں نہیں تو کیا آگ میں کھولتی اور چنگھاڑتی جہنم میں جھونک دیے جائیں گے۔ مفتی صاحب کے فتوے سے تو کچھ ایسا ہی گماں ہوتا ہے۔ یہ سوچتے ہی ہماری نظروں کے سامنے وہ سارے گھرانے ناچنے لگے جن میں شوہر حضرات بیویوں پر یہ کہہ کر گرجتے ہیں کہ ’’تم نے تو گھر کو جہنم بنا رکھا ہے‘‘۔ جب یہ خیال آیا تو ساتھ ہی یہ بھی آیا کہ شوہر حضرات اگر ایسا الزام بیویوں پر دھرتے ہیں تو بے وجہ، بے سبب تو نہ دھرتے ہوں گے۔ تو کیا پھر یہ سارے شوہر جو دنیا میں جہنمی گھروں میں رہتے آئے ہیں، آسمان پہ ان کا مقدر بھی جہنم ہی بنے گا۔ اس خیال نے ہمیں اور پریشان کر دیا۔ چنانچہ ہم نے ذہن کو جھٹکا اور توجہ بٹانے کیلئے اخبار اٹھا لیا۔ یہ کیا؟ ہم چونکے۔ آج ہی کے اخبار میں سعودی عرب کے ایک اور مفتی صاحب کا فتویٰ چھپا تھا کہ جو شوہر حضرات دوسری شادی کر سکتے ہوں اور اس کی استطاعت رکھتے ہوں، اگر وہ پھر بھی دوسری شادی کے ارادے سے خود کو باز رکھتے ہیں تو سخت گنہہ گار ہوں گے اور قیامت کے دن خدا ان سے باز پرس کرے گا۔ یہ پڑھ کر ہمارے اندر تو ایک سنسنی سی دوڑگئی۔ دوسری شادی کا پرکشش خیال کس شادی شدہ آدمی کو نہ بھاتا ہو گا۔ لیکن مفتی صاحب نے دوسری شادی یعنی نکاح ثانی کیلئے بری کڑی شرط لگائی تھی۔ استطاعت کی شرط۔ ہم نے قلم کاغذ سنبھالا اور اپنی جملہ آمدنی اور منقولہ و غیر منقولہ جائیداد اور ان کی مالیت کا حساب کتاب کرنے بیٹھ گئے۔ محض یہ اندازہ کرنے کہ ہم دوسری شادی کیلئے کوالیفائی کرتے ہیں یا نہیں۔ ابھی یہ حساب کتاب کر ہی رہے تھے کہ اہلیہ نے کچن سے آواز دی۔ ’’ناشتے کیلئے آ جائیے‘‘ہم نے فوراً قلم رکھ دیا لیکن پھر خیال آیا کہ ایک شرعی فریضے کی مصروفیت ہمیں لاحق ہے۔ لہٰذا فوری تعمیل اہلیہ کے حکم کی ضروری تو نہیں۔ لیکن پھر پہلے مفتی کا فتویٰ یاد آیا کہ کسی حال میں بیوی کو رنجیدہ یا ناراض نہیں کرنا۔ سوال جنت کا آپڑا تو ہم نے بستر سے چھلانگ لگائی اور تقریباً دوڑتے ہوئے کچن پہنچے۔ وہاں میز پہ گرما گرم ناشتہ سجا تھا۔ خیال آیا اگر ہم نے نکاح ثانی کر لیا تو ہو نہ ہو اس ناشتے سے تو ضرور محروم ہو جائیں گے۔ تو پھر مفتی صاحب نے فتویٰ دیتے ہوئے ہم شوہروں کی ان مشکلوں پہ کیوں غور نہ کیا۔ چونکہ ہم مفتیان کرام کا دل سے احترام کرے ہیں اس لئے فوراً ہی یہ کہہ کے دل کو تسلی دی کہ مفتی صاحب چونکہ سعودی عرب کے ٹھہرے اور ممکن ہے کہ وہاں بیویاں شوہروں کیلئے آملیٹ نہ تلتی ہوں، توس نہ گرم کرتی ہوں۔ شیخوں کے پاس ملازموں کی کیا کمی۔ تب اطمینان سا ہوا کہ یہ فتویٰ ضرور عرب کے شیخ حضرات کیلئے ہو گا جو فتووں کے بغیر ہی ایک سے زائد شادیاں کرکے خدا کو راضی کر چکے ہیں۔ مزید خلجان سے بچنے کیلئے ہم نے فتویٰ پھر پڑھا۔ لکھا تھا دوسری شادی نہ کرنے سے مسلم خواتین کفارو مشرکین کے ہوس کا نشانہ بن جاتی ہیں اس لئے مسلمانوں کا شرعی فریضہ ہے کہ وہ انہیں اپنے نکاح میں لے آئیں تاکہ کفار و مشرکین کی ہوسناک سازشیں ناکام ہوں۔ ہاں تو اس فتوے کا ہم جیسے مسلمان ملکوں سے کوئی لینا دینا نہیں کہ یہاں کفار و مشرکین اوّل تو ہیں کہاں اور ہیں بھی تو آٹے میں نمک کے برابر اور یہ جو آٹے میں نمک کے برابر ہیں وہ بھی اتنے بے ضرر بلکہ نیک اور متقی ہیں کہ اسمبلی میں شراب پر پابندی کا بل پیش کرتے ہیں کہ جناب! ہمارے مذہب میں بھی شراب حرام ہے لہٰذا ہمارے نام پر شرابوں کا پرمٹ جاری نہ کریں۔ صاحبو، ان دو فتووں نے ہمارے دن کا چین اور رات کا سکون لوٹ لیا ہے۔ اطمینان اگر ہے تو فقط اس قدر کہ ایسے فتوے جو ہم جیسوں کو مبتلائے تشویش کر دیں، ہمارے علما نہیں دیتے اور بھئی ہم تو اپنے مفتیوں کے فتووں کے پابند ہیں۔ پیارے مفتیان کرام! ہم آپ کے شکر گزار ہیں۔ ہاں چلتے چلتے ایک اور بات یاد آگئی۔ ہم سعودی عرب کو اپنے لئے محترم سمجھتے ہیں ان کے مفتیوں کے فتوے بھی ایسے نہیں جنہیں آسانی سے نظرانداز کر دیا جائے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ان فتووں کے بارے میں ہمارے علما کرام کی رائے بھی سامنے آ جائے۔ اس لئے کہ ہم جیسوں کو آسانی ہو جائے گی۔ کیونکہ ناشتے کے بعد ہماری اہلیہ جو خود بھی اخبار پڑھ کر ہمارے پاس آئیں…بولیں: ’’اب سمجھ میں آیا کہ ہماری ناراضگی دور کرنے کا خیال آپ کو کیوں آیا۔ ضرور آپ نے مفتی صاحب کا فتویٰ اخبار میں پڑھ لیا ہو گا‘‘۔ ہم جواب میں کیا کہتے۔ کوئی دل شکنی والا جواب دیتے تو ناراضگی اور جنت کے ہاتھ سے نکلنے کا جو اندیشہ تھا۔