ماہ مبارک ربیع الاول خوشیوں‘مسرتوں‘محبتوں‘رحمتوں اور عنایتوں کے گلشن آراستہ کرتا،عقیدتوں و ارادتوں کی خوشبوئیں بکھیرتا …رواں دواں ہے۔گزشتہ ہفتہ صوبہ بھر میں سرکاری طور پر محافل میلاد اور تحصیل سطح تک سیرت کانفرنسز کا اہتمام اور پھر اسکا نقطہ عروج صوبائی دارالحکومت میں صوبائی سیرت کانفرنس کا شاندار انعقاد تھا،جس میں سال1441ھ کے مقابلہ کتب سیرت طیبہ و مجموہائے نعت میں کامیابی پانے والوں میں اعزازات کی تقسیم بھی بطور خاص شامل تھی۔سردار عثمان خان بزدار نے بارہویں شب مبارکہ یعنی11 ربیع الاول کی شام،ایوان وزیراعلیٰ میں میلاد کی انتہائی خوبصورت،روح پرور اور عقیدت آفرین فرشی نشست کا اہتمام کیا،جس میں وزیراعلیٰ پنجاب سمیت انکے سیکرٹریٹ کے افسر و ماتحت‘سیکرٹری و اردلی‘اعلیٰ وادنیٰ سب ایک ہی صف‘ ایک ہی ماحول اور ایک ہی کیفیت میں رچ بس بلکہ ڈھل گئے۔اسم محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اجالے اور روشنیاں پھیلیں اور فضائیں درود و سلام کی روح پرور کیفیات سے آراستہ ہو گئیں۔ نور محمد جرال نے سوزوگداز میں ڈوب کر خواجہ غلام فرید اور شاکر شجاع آبادی کا نعتیہ کلام اور کافیاں سنائیں اور سماں باندھ دیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ منظر اس سے اگلا بھی دیدنی تھا،جب پنجاب اور بالخصوص لاہور کی تمام پناہ گاہوں میں انہی لمحوں اور ساعتوں میں محافل میلاد کے اہتمامات ہوئے اور وزیراعلیٰ پنجاب ازخود ٹھوکر نیاز بیگ میں قائم پناہ گاہ پہنچے اور دن کے تھکے ماندے‘ محنت،مزدوری کر کے آنے والے محنت کشوں اور مزدوروں کے ساتھ بیٹھ کر انکے دستر خوان پر انہی کے برتنوں میں کھانا کھایا۔پنجاب کے مختلف پسماندہ علاقوں کے یہ مفلوک الحال اپنی نشست و برخاست میں اس امر سے بالکل بے نیاز تھے کہ وہ صوبے کے چیف ایگزیکٹو کے ساتھ محو کلام و طعام ہیں۔میں سوچتا چلا جارہا تھا کہ دنیا کا سب سے بڑا سماجی انقلاب،جہاں بندہ و صاحب و محتاج و غنی ایک ہوئے تھے،کی بنیادی سپرٹ اور روح بھی یہی تھی کہ نسلی اور نسبی تفاخر‘خاندانی غرور و گمنڈ‘ کمزور کا استحصال‘غریب و مسکین کے حقوق کی پامالی‘عورتوں کی زبوں حالی اور بالخصوص سوسائٹی کے پسے ہوئے طبقے کو اچھوت سمجھ کران سے اس حد تک نفرت کہ انکے ساتھ بیٹھنے یا کلام کرنے کا بھی تصور جس معاشرے اور سوسائٹی میں موجود نہ تھا۔جہاں نبی اکرمﷺ نے ان گرے پڑے انسانوں کو گلے لگا کر عزت و شرف سے سرفراز کیا۔ محبت و عشقِ رسولﷺ کے یہ مظاہرے صرف سرکاری سطح تک ہی موقوف نہیں،پاکستان،بلاداسلامیہ بلکہ پوری دنیا میں آپﷺکی ولادت کی خوشی منائے جانے کے جلوس اور اجتماعات اور درود و سلام کی محافل جاری ہیں۔چند سال قبل امریکہ کی مختلف ریاستوں بالخصوص نیویارک کا مرکزی جلوس،اجتماعات اور وہاں کی مسلم کمیونٹی کے ایمانی جذبے دیکھ کر مجھے یقین ہو گیا کہ یہی وہ وابستگی اور وارفتگی ہے،جو مسلمانوں کو شاہراہِ حیات اور تاریخ کے صفحات میں زندہ و پائندہ رکھے ہوئے ہے۔لاہور میں الحمراء آرٹس کونسل کی طرف سے ’’اسم محمدؐ‘‘ کی عقیدت آفریں نمائش،اس عمدہ اور شاندار اہتمام پر مجھے ڈاکٹر ظفر اقبال نوری کے خوبصورت اشعار یاد آئے۔ زمانے بھر کی حلاوتوں کی مٹھاس ساری نچوڑ لیجئے جہان بھر کی برودتوں کی تمام ٹھنڈک بھی! جوڑ لیجئے جو ہو سکے تو… فلک کے تاروں کی‘ مہرِتاباں کی‘ماہِ کامل کی روشنی بھی زمین بھر کی فروزاں شمعوں کی،شب چراغوں کی ساری لَو بھی چمکتے ہیروں کی‘سب نگینوں کی‘موتیوں کی‘کمال چھَب بھی گلاب و چمپا کی، یاسمن کی‘تمام قسموں کی ہر مہک بھی حریر و دیبا و پرنیاں کی ملائمت بھی سمیٹ لیجئے پھر ان کی ساری نفاستوں سے‘نظافتوں سے‘لطافتوں سے جوکوئی نقشِ جمیل اُبھرے جو کوئی عکسِ حسین چمکے جو کائناتِ جمال ٹھہرے وہی ہے احمد،وہی محمد صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم ماہِ ربیع الاول کی ان ساعتوں میں،جہاں عشقِ رسالتمآب ﷺ کے جذبے فراواں ہیں،وہیں فرانس میں نبی اکرمؐ کی شانِ اقدس میں ہونے والی ناپاک جسارت پر،پوری اُمّتِ مسلمہ بے چین اور ہر کلمہ گو کا دل زخمی اور روح بیتاب ہے۔12ربیع الاول کو اسلام آباد میں منعقدہ رحمتہ اللعالمین قومی سیرت کانفرنس میں وزیر اعظم پاکستان سمیت تمام شرکاء اس امر کو بطور خاص زیرِ بحث لائے کہ دنیا آخر اس بات کو سمجھنے کی کوشش کیوں نہیں کرتی کہ ایک مسلمان اپنے عمل میں خواہ کتنا ہی کمزور کیوں نہ ہو،لیکن وہ نبی اکرمؐ کے حوالے سے کسی ادنیٰ سی خلاف ادب بات سننے کا تصور نہیں کر سکتا۔اور پھر مسلمان صرف اپنے پیغمبر یا رسول ہی کے ادب واحترام کی بات نہیں کرتے بلکہ ہادیانِ مذاہب بالخصوص وہ مقدس ہستیاں جو وحی سے سرفراز ہوئیں اور ان پر اللہ کی طرف سے’’الھامی کتب‘‘ نازل ہوئیں، جن کو یہود اور نصاریٰ بھی مانتے ہیں،مسلمان انکا بھی احترام کرتے،ان پر ایمان انکے دین کا حصہ ہے۔ہم ان سے یہ تقاضہ نہیں کرتے کہ وہ پیغمبرِ آخرالزماں پر ضرور ایمان لائیں،اس لیے کہ ماننا،یا نہ ماننا،انکا حق ہے اور یہ حق خود اسلام بھی ان کو دیتا ہے کہ’’لا اِکرہ فی الدِّین‘‘مانے نہ پر احترام تو ضرور کریں۔اسی طرح جس طرح مسلمان تورات، زبور اور انجیل کا احترام کرتے ہیں۔اگر احترام نہیں کر سکتے،تو کم از کم توہین تو نہ کریں۔یورپ میں سالہا سال سے آزادی اظہار کے نام پر ایسی گستاخیوں کے سلسلے جاری ہیں۔قبل ازیں ایسی حرکات مختلف گروہوں کی طرف سے ہوتی تھیں لیکن اس طرح ایک ریاست اور وہ بھی متمدن ترین دنیا کی۔جس کے صدر نے سرکاری اور ریاستی سطح پر ان گستاخانہ خاکوں کو سرکاری عمارتوں پر آویزاں کرنے کا اعلان کیا ہے۔جس سے مسلم دنیا میں ایک بھونچال آ گیا ہے ،جوایک لازمی اور فطری بات ہے۔ اس پر ایک مرتبہ پھر وزیر اعظم عمران خان اور ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے بھرپور جذبہ ایمانی کا ثبوت دیتے ہوئے۔ امّتِ مسلمہ کے جذبات کی ترجمانی کی ہے بلکہ مطالبہ کیا ہے کہ میکرون کے دماغ کا معائنہ کروایا جائے۔ وزیر اعظم عمران خان نے رحمتوں بھرے اس مہینے کے،رواں ایام کو ’’ہفتۂ عشقِ رسولؐ‘‘ کے طور پر منانے کا اعلان کیا ہے۔ اس کے ساتھ انہوں نے قومی سیرت کانفرنس کے موقع پر جو اعلان کیا جس کی میرے نزدیک بہت زیادہ اہمیت ہے۔ وہ سکول کی سطح پر سیرتِ طیبہؐ کی لازمی مضمون کے طور پر تدریس۔جس کے بارے میں وزیر اعظم نے کہا ہے کہ وہ ساتویں،آٹھویں اور نویں جماعت کے طلبہ کیلیے ایک نیا مضمون متعارف کروا کے سیرت طیبہؐ کی ترویج کا اہتمام کریں گے۔مطالعۂ سیرت کے حوالے سے انکا جذباتی ہونا سمجھ میں آتا ہے۔اس لیے کہ جو بھی اس ذوق سے آشنا ہو گا اس کے جذبے اور جذبات ایسے ہی ہوں گے۔انکی یہ بات درست ہے کہ ہماری اکثریت صرف قرآن ہی سے بے بحرہ نہیں بلکہ سیرت طیبہ کے حوالے سے بھی ہماری معلومات نہایت سطحی اور عام درجے کی ہیں۔میں سمجھتا ہوں کہ یہ قدم ہماری سوسائٹی میں جہاں اسوہ رسولؐ کے حوالے سے شعور اور آگہی کاباعث بنے گا،وہیں معاشرے میں رواداری، اخوت، مساوات، انسان روشنی جیسے جذبوں کی بھی اس سے نمو ہو گی۔طبیعت میں گداز اور ذوق میں جمالیات کے آثارہویداہونگے۔انتہا پسندی،تشدد پرستی اور فرقہ وارانہ تضادات میں کمی واقع ہو گی۔ہمیں اندازہ ہو گا کہ آپؐ نے ایک انسان کو مذہب و ملت سے بالاتر کر کے کس طرح عزت و توقیر عطا کی۔ہم نہیں جانتے کہ آپؐ نے دیگر مذاہب کے لوگوں سے کس طرح معاملات فرمائے؟ مدینہ میں آپؐ تشریف فرما ہوئے تو یہاں پر علمی اور معاشی طور پر یہود کا غلبہ تھا۔آپؐ نے میثاقِ مدینہ پر دستخط کر کے، انکے حقوق کو تسلیم کیا اور اپنے حقوق ان سے منوائے۔ حضورؐ کو یہودیوں کی بستی میں تشریف آوری کے موقع پر، ازراہِ ادب تکیہ پیش کیا گیا لیکن یہی تکیہ آپؐ نے تورات پیش کیے جانے کے موقع پر،آگے بڑھا کر دنیا کو دوسرے کے دینی اور مذہبی جذبات ملحوظ کرنے کی تلقین کی۔مدینہ منورہ میں ایک جنازہ دیکھ کر،آپؐ احتراماً کھڑے ہو گئے، صحابی ؓنے عرض کی یارسول اللہﷺیہ تو ایک یہودی کا جنازہ ہے۔ آپؐ نے فرمایا کیا یہ انسان نہیں ہے…؟