اسلام آباد(خبر نگار)صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسٰی اور دیگر کی آئینی درخواستوں کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے آبزرویشن دی ہے کہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے خلاف ریفرنس میں صدر کی بدنیتی واضح تھی،پورے معاملے میں صدر مملکت کا اپنا مفاد تھا لیکن زیر غور معاملے میں صدر مملکت کے پاس شکایت حکومت پاکستان کی طرف سے آئی ہے ۔دس رکنی فل کورٹ بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریما رکس دیے کہ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے خلاف شکایت کے حوالے سے حکومت کے استحقاق کو دیکھنا ہوگا،اگر شکایت حکومت کی طرف سے آئے تو پھر بھی صدر اس بارے میں آزادانہ رائے قائم کرے گا؟۔سندھ بار کونسل کے وکیل رشید اے رضوی نے دوسرے دن دلائل دیتے ہوئے موقف اپنایا کہ جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے خلاف ریفرنس میں سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کیس کے فیصلے کی خلاف ورزی کی گئی ہے ۔رشید اے رضوی نے آئین میں درج بنیادی حقوق کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ریفرنس میں آئین کے آرٹیکل چار اور دس اے کی خلاف ورزی کی گئی ہے جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریما رکس دیے کہ یہ نکتہ سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے اٹھایا جاسکتا ہے جبکہ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ مذکورہ آرٹیکلز تو آئین کی بنیاد ہے ۔وکیل رشید اے رضوی نے کسٹم اور سیلز ٹیکس سے متعلق عدالت کے مختلف فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ یہ طے کر چکی ہیں کہ کسٹم یا سیلز ٹیکس حکام کے پاس مواد ہو لیکن وہ مال غیر قانونی طور پر ضبط کرے توان کی کارروائی غیر قانونی ہوگی۔جسٹس عمر بندیال نے کہا کہ اعلٰی عدلیہ کے ججوں کے مس کنڈکٹ کے معاملے میں آئین نے دو اتھارٹیز کو اختیار دیا ہوا ہے اور اعلٰی عدلیہ کے ججوں کے مس کنڈکٹ کے معاملے میں ہر چیز صدر مملکت یا سپریم جوڈیشل کو نسل سے نکلنی چاہیے ۔رشید اے رضوی نے کہا کہ اگر جج کے خلاف غیر قانونی انکوائری کا اختیار تسلیم کیا گیا تو کل ایس ایچ او اعلٰی عدلیہ کے ججوں کے خلاف ایف آئی آر کاٹ کر اپنے طور پر تفتیش شروع کردے گا۔ جسٹس فیصل عرب نے سوال اٹھایا کہ اگر میڈیا میں جج کے بارے کوئی رپورٹ آئے تو کیا صدر مملکت یا سپریم جوڈیشل کونسل اس کا نوٹس لے سکتی ہے جس کے جواب میں رشید اے رضوی نے کہا کہ نوٹس لیا جاسکتا ہے لیکن یہ درست طریقہ نہیں۔ دوران دلائل جسٹس بندیال نے کہا کہ چیف الیکشن کمشنر کی حلف برداری تقریب کی وجہ سے ہمیں جلدی اٹھنا پڑھ رہا ہے ، منگل کو رشید اے رضوی کے بعد سلمان اکرم راجہ اور بلال منٹو کے دلائل سنیں گے ۔