آفتاب ِولایت، حضرت خواجہ شاہ محمد سلیمان تونسوی غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ اُن پاکیزہ اور مقدس ہستیوں میں سے ہیں جن کو اللہ تعالی نے قرآن و سنت کی ترویج، خلق خدا کی ہدایت اور گم کردہ راہ کو راہِ حق دکھانے کے لئے منتخب فرمایا۔ انہوں نے اپنی زندگی کا تمام حصہ پرچم ِاسلام کی سربلندی اور مخلوق خدا کے قلوب و اذہان کو عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شمع سے روشن رکھنے کے لئے صَرف کیا۔آپ کا شمار سلسلہ عالیہ چشتیہ کے کِبار بزرگانِ دین میں ہوتا ہے ۔ انتہائی برگزیدہ اور مادر زاد ولی تھے ۔ولادت باسعادت 1184 بمطابق177ء میں کوہ سلیمان کی دلکش و سرسبز وادی گڑگوجی تحصیل موسی خیل ( ضلع لورالائی )میں ہوئی۔ والد گرامی ’’ حضرت زکریا بن عبدالوہاب‘‘ علم و فضل کے مالک تھے ،آپ کی کم سنی میں والد گرامی کا وصال ہوگیا ،والدہ ماجدہ ایک نیک سیرت اور عبادت گزار خاتون تھیں جنہیں آپ کی عظمت کا بچپن ہی میں علم ہوگیا تھا،آپ فرماتی ہیں کہ میں نے دیکھا کہ آفتاب آسمان سے اتر کر میری گود میں آ گیا ہے جس سے میرا سارا گھر منور ہوچکا ہے ۔ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں ہی میں حاصل کرنے کے بعد تونسہ شریف تشریف لائے اور فارسی کی ابتدائی تعلیم حاصل کی ، اُس وقت علم وحکمت کے عظیم مرکز کوٹ مٹھن شریف میں داخل ہو کر علوم ِدین میں مہارت تامہ حاصل کی ۔ علوم باطنی اور روحانی تربیت اپنے پیرومرشد حضرت قبلہ عالم خواجہ نور محمد مہاروی رحمۃ اللہ علیہ کے زیر سایہ حاصل کی۔آپ کی بیعت کا واقعہ کچھ اس طرح ہے ۔کوٹ مٹھن میں قیام کے دوران آپ کو خبر ملی کہ حضرت خواجہ نور محمد مہاروی رحمۃ اللہ علیہ اوچ شریف میں تشریف لائے ہیں آپ ان سے مسئلہ سماع پر مباحثہ کے لیے اوچ شریف روانہ ہوئے لیکن جب ان کی خدمت میں پہنچے تو آپ کی دنیا ہی بدل گئی بحث مباحثہ بھول گئے اور فورا ًمرید ہونے کی درخواست پیش کی اور حضرت قبلہ عالم رحمۃ اللہ علیہ نے نگاہ اُلفت فرمائی اور حلقہ ارادت میں شامل فرمالیا ۔ قبلہ عالم علیہ الرحمۃ کے پیر ومرشد نے انہیں بشارت دی تھی کہ ایک ایسا شہباز آپ کے قابو میں آئے گا جس سے سلسلہ چشتیہ نظامیہ کی شان کو چار چاند لگ جائیں گے چنانچہ حضرت خواجہ نور محمد مہاروی اوچ شریف اور کوٹ مٹھن کے اطراف و جوانب کا سفر ہی اسی شہباز کی تلاش میں اختیار کرتے اس مرتبہ جونہی حضرت خواجہ نور محمد مہاروی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت خواجہ شاہ سلیمان تونسوی رحمۃ اللہ علیہ کو دیکھا تو تبسم فرمایا کہ ہمیں وہ شہباز مل گیا جس کی ہمیں تلاش تھی۔اس طرح حضرت خواجہ شاہ فخرالدین علیہ الرحمۃ کی نعمت باطنی جو حضرت قبلہ عالم علیہ الرحمۃ کے ذریعے پنجاب میں منتقل ہوئی تھی اور آپ نے اسے دنیا کے کونے کونے میں پہنچایا اور آپ نے چھ سال اپنے مرشد کی صحبت میں گزارنے کے بعد خلافت حاصل کی ۔حضرت خواجہ نور محمد مہاروی رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کو خلافت عطا کرنے کے بعد تونسہ شریف میں قیام کا حکم فرمایا۔آپ نے تونسہ شریف میں ایسی خانقاہ کی بنیاد رکھی جو ظاہری اور باطنی علوم کا عالمی مرکز بن گئی ۔آپکی درس گاہ سے ہزاروں نفوس فیض یاب ہوئے ۔آپ نے ظاہری و باطنی علوم سے اس خطے کی حالت بدل دی اور اپنی کاوشوں سے تونسہ شریف کو علم و ادب ،تصوف و معرفت اور عرفان الٰہی کی تجلیات کا مرکزبنا دیا۔کسی شاعر نے کیا خوب فرمایا: بسوئے ملک سنگھڑ رو اگر دنیا ؤ دیں خواہی غلام شہِ تونسہ شو اگر حق الیقین خواہی آپ کی برکت سے یہ شہر علم و فضل کا گہوارہ بن گیا یہاں ایران ،عراق،افغانستان،روم، ترکی،شام اور حرمین شریفین سے لوگ حاضر ہوکر فیض یاب ہوئے اور تائب ہوکر عارف باللہ بننے لگے عوام کے علاوہ شاہانِ وقت بھی آپکے مرید ہوئے ۔ آپ کا سلسلہ براعظم افریقہ تک پھیلا ہوا ہے ۔ آپ کے تمام اقوال و افعال سیرت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سچا نمونہ اور مشکوٰۃ نبوت سے ماخوذ تھے ۔اتباعِ خاتم النبیین رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم پر خاص زور دیا کرتے حضرت فخر الاولیاء کے تمام اوصاف عالیہ میں غریب پروری اور درویش نوازی کی صفت بہت بڑھ کر تھی۔ لنگرخانے سے ہزاروں مساکین، و فقراء دونوں وقت کا کھاناتناول فرماتے تھے لنگر کے خرچ کے علاوہ جو کچھ روپیہ پیسہ آپ کے پاس ہوتا تھا وہ علماء فقرا اور غرباء میں تقسیم فرما دیتے ۔اپنے خاص خلفاء و مریدین کو سلوک و احسان کی کتابوں کا درس دیتے تھے آپ کا مطالعہ بہت وسیع تھا ۔قرآن شریف اور فقہ پر مکمل عبور تھا۔آپ رحمۃ اللہ علیہ کی مقبولیت کا اندازہ صرف ایک واقعہ سے ہوسکتا ہے جو تمام تذکروں میں موجود ہے کہ ایک دن آپ رحمۃ اللہ علیہ حجرہ مبارکہ میں محو عبادت تھے کہ یکایک تونسہ شریف میں مخلوق خدا کا ایک انبوہ کثیر جمع ہوگیا ۔تمام گلی کوچے لوگوں سے بھر گئے ۔دریافت کرنے پر لوگوں نے بتایا کہ کل شام جو شخص جہاں تھا اس نے ایک آواز سنی کہ جو شخص کل حضرت خواجہ شاہ محمد سلیمان صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی زیارت سے مشرف ہو گا وہ جنتی ہوگا۔ چنانچہ لوگ ساٹھ ساٹھ ستر ستر میل کی مسافت طے کر کے حاضرِ آستان ہوئے ۔جوق در جوق ایک دروازے سے آتے اور زیارت کرکے دوسرے سے نکل جاتے آپ رحمۃ اللہ علیہ کو معلوم ہوا تو فرمایا:’’ اعتقادکم ینفعکم‘‘ یعنی تمہارا اعتقاد تمہیں نفع دے گا۔ خاتم سلیمانی میں آپ رحمۃ اللہ علیہ کی آخری عمر کا ایک واقعہ درج ہے کہ ایک عورت نے سوال کیا غریب نواز آپ رحمۃ اللہ علیہ کے دست مبارک پر کئی مرد و عورتیں بیعت ہوتی ہیں اور آپ کسی کو زیادہ دیر بیٹھنے نہیں دیتے اور ہر ایک کا بھروسہ ہے کہ قیامت کے دن ہر ایک کے کام آئیں گے حیرانی ہے کہ کروڑوں مخلوق میں سے آپ رحمۃ اللہ علیہ اپنے مریدین کو کس طرح پہچان سکیں گے جواب میں آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا’’ رات کا وقت ہوتا ہے اور چھ سات چرواہے اپنی اپنی بھیڑیں ملا دیتے ہیں پھر جب چاہتے ہیں ہر ایک اپنے ریوڑ کو جدا کر لیتا ہے حالانکہ بھیڑیں ہم رنگ ہوتی ہیں اور سب لوگ چرواہوں کو احمق اور بیوقوف کہا کرتے ہیں تو کیا میں اپنے مریدوں کی شناخت نہ کر سکوں گا‘‘ اللہ تعالیٰ نے آپ کوتین فرزند عطا فرمائے خواجہ گل محمد صاحب ،خواجہ درویش محمد صاحب اور خواجہ عبد اللہ ، یہ تینوں آپ کی حیات مبارکہ ہی میں وصال فرما گئے ۔ اسی لیے آپ کے پوتے خواجہ شاہ اللہ بخش تونسوی بن خواجہ گل محمد (المعروف حضور کریم غریب نواز ) مسند نشین ہوئے ۔ ماہ صفر 1267 ہجری کا چاند دیکھ کر فرمایا :’’ ہمارے سفرکامہینہ ہے خدا خیر کرے ‘‘ کچھ دن زکام کی شکایت رہی اور 7 صفر کو آپ رحمۃاللہ علیہ نے جان ،جان آفرین کے سپرد کردی۔ نواب آف بہاولپور نے ستر ہزار روپیہ کے خرچ سے آپ رحمۃ اللہ علیہ کاعالیشان روضہ مبارک سنگ مرمر کا تیار کرایا۔جو آج بھی مرجع مخلوق خدا ہے اور جہاں سے آج بھی مخلوق خدا فیض یاب ہورہی ہے اور ان شاء اللہ قیامت تک یہ فیض جاری ر ہے گا۔