اسلام اور مسلمانوں کی توہین کرنا فرانسیسی معاشرہ کا صرف ایک منفی پہلو ہے۔آج بظاہر انسانی حقوق کا علمبردار ملک فرانس چار سو برس سے انسانیت کے خلاف سنگین جرائم کا ارتکاب کرتا آرہا ہے۔ چونکہ امریکہ اور یورپ کے مغربی سامراج کا دنیا پر تسلط ہے اور فرانس اسکا اہم حصّہ ہے اسلیے عالمی برادری اسکے مظالم کا کبھی حساب نہیں لیتی۔فرانس کی تاریخ لاکھوں معصوم انسانوں کے قتل ِعام ‘ غلاموں کی خرید و فروخت اور ظلم و بربریت سے بھری ہوئی ہے۔اسکا تازہ ترین ثبوت امریکہ کی ایک قانونی فرم کی رپورٹ میںہے جسے مؤقر امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے چند روز پہلے شائع کیا ہے۔ چھ سو صفحات پرمشتمل یہ رپور ٹ وسطی افریقی ملک رَوانڈا میں 1994میںساڑھے تین ماہ تک جاری رہنے والے قتل ِعام سے متعلق ہے۔ اس المناک واقعہ میں روانڈا کی حکومت نے بلاروک ٹوک تُتسی قبائل کے آٹھ لاکھ مردوں‘ عورتوں اور بچوں کا خون بہایا۔ حکومت پر ہُوتُو قبیلہ کا غلبہ تھا۔ اس رپورٹ میں دستاویزات اور گواہوں کے بیانات سے ثابت کیا گیا ہے کہ اس ملک میں معصوم انسانوں کا قتل فرانس کی حکومت کی مدد سے ہُوا تھا۔ محققین کا کہنا ہے کہ فرانس میںسوشلسٹ صدر متراں کی حکومت کوپہلے سے علم تھا کہ قتل وغارت گری ہونے والی تھی لیکن انہوں نے اسے روکنے کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا بلکہ رَوانڈا حکومت کی مسلسل حمایت جاری رکھی ۔ متراں روانڈا میں فرانس کے اثر و رسوخ اور مفادات کو مضبوط کرنا اور فروغ دینا چاہتے تھے۔رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کے امن مشن کے طور پر فرانس کی فوج افریقی ملک میں موجود تھی۔ فرانسیسی افسروں نے روانڈا کی حکومت کو اسلحہ اور دیگر ساز و سامان فراہم کیا‘ اسکے مشیر کے طور پر کام کیا‘ حکومت کی حفاظت کی اور حکومتی فوج کو تربیت دی جس نے مخالف قبیلہ کے لوگوں کو بے دردی سے قتل کیا۔ اگر کسی ایسے ملک کے بارے میں یہ حقائق سامنے آتے جسکا تعلق مغربی سامراج سے نہیں تو اب تک اقوام متحدہ اور عالمی برادری اس پر متعدد پابندیاں لگاچکے ہوتے۔ اسکے برعکس فرانس کو سلامتی کونسل میں ویٹو پاور کا حق حاصل ہے۔ فرانس کا عروج اور خوشحالی انسانیت کے خلاف سنگین جرائم کے مرہونِ منت ہیں۔ تصویر کا ایک رُخ یہ ہے کہ فرانس میں عقل پسندی اور روشن خیالی کی تحریک شروع ہوئی۔دوسرا رُخ یہ ہے کہ سولھویں صدی سے فرانس کے بحری جہازوں نے افریقی ممالک جانا شروع کردیا تھا ۔ فرانسیسی قزاق اور حملہ آور افریقی ممالک سے انسانوں کو غلام بنا کر اپنے جہازوں پر لادتے اور انہیں فروخت کے لیے ویسٹ انڈیز ‘ کیربین جزائر‘امریکہ اور یورپ کے ملکوں میں فروخت کرتے۔ یہ سلسلہ 1905تک دو سو سال سے زیادہ تک جاری رہا۔ جن بحری جہازوں پر افریقی غلاموں کوانتہائی تکلیف دہ حالات میں بھر کر دنیا کے ایک سرے سے دوسرے لیجایا جاتا تھا، ان پر تفصیلی تحقیقی کتابیں موجود ہیں ۔افریقی غلام جہازوں میں گندے‘ غلیظ ماحول میں رکھے جاتے جہاں وہ پیشاب پاخانہ بھی کرتے اورانہیں کھانے کو بہت معمولی خوراک دی جاتی۔ وہ بیمار پڑ جاتے تو علاج کا انتظام نہ تھا۔ کئی غلام بیماری سے راستے میں مر جاتے۔ اُسوقت غلاموں کی تجارت کرنے والے فرانسیسی کہا کرتے تھے کہ وہ یہ تجارت اسلیے کررہے ہیں تاکہ افریقیوں کو انکی جہالت سے نجات دلاسکیں۔ جیسے ابھی وہ مسلمانوں کو’ شدت پسندی‘ سے نجات دلانا چاہتے ہیں اور انہیں اظہارِرائے کی ’آزادی‘ سکھانا چاہتے ہیں۔ یورپی اقوام کو ان غلاموں کی جبری مشقت کی ضرورت تھی تاکہ وہ کافی کے پودے‘ گنے‘ تمباکو اور نیل کی کاشت کرسکیں۔ صنعتی انقلاب سے پہلے فرانس کی خوشحالی کا انحصار ان افریقی غلاموں پر تھا۔انہی کے باعث اٹھارویں صدی میں فرانس دنیا میں چینی‘ کافی اور کپاس برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک بن گیا۔اس رقم سے فرانس دنیا میں بڑی معاشی طاقت بنا۔غلاموں کے ذریعے کمائی گئی فاضل دولت نے فرانس میں سائنس اور صنعتی انقلاب لانے میں اہم کردار ادا کیا۔ درحقیقت‘ کئی یورپی ممالک نے سولھویں صدی سے شروع ہوکر چار سو سال تک ڈیڑھ کروڑ افریقی غلاموں کی تجارت سے بہت فائدہ اٹھایا۔ اس دولت سے انکی بحری اور فوجی طاقت بڑھتی گئی اور انھوں نے دنیا بھر کے ممالک پرحملے کرکے ان پر قبضہ کیا ۔انہیں اپنی نو آبادیات بنا لیا۔ فرانس نے 1830 میں الجیریا پرحملہ کیا ۔ سترہ سالہ جنگ میں آٹھ لاکھ الجیریوں کو قتل کرکے وہاں اپنی حکومت قائم کرلی اور اُسے اپنی نوآبادی بنا لیا۔ یُوں افریقہ میں فرانس کا باقاعدہ نوآبادیاتی قبضہ شروع ہوگیا۔ اسکے بعدایک سو سال تک فرانس افریقہ میں آگے بڑھتا رہا اور اس نے تمام شمال مغربی افریقہ پر قبضہ کرلیا۔مستند مورخین کے مطابق افریقی ممالک پر قبضہ کرنے کیلیے فرانس نے بیس لاکھ افریقیوں کا خون بہایا۔ افریقہ کے موجود چودہ پندرہ ممالک ماضی میںفرانس کے قبضہ میں رہے۔ فرانسیسی کہا کرتے تھے کہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان لوگوں کو مہذب بنائیں۔ اصل تہذیب یہ تھی کہ فرانس وہاں سے لوہا‘ ٹن‘یورینیم‘ سونا‘ ہیرے ایسی معدنیات اور پیٹرولیم لُوٹ کر لیجاتا رہا۔ اسی طرح مشرقی ایشیا میں ویت نام‘ لاؤس اور کمبوڈیا پر بھی فرانس کاتقریباً ایک سو سال قبضہ رہا۔ان ممالک کو ملا کر ’ فرانسیسی انڈو چائنا ‘کا نام دیا گیا۔شام‘ لبنان‘ انڈیا کے جنوب مشرق کے کچھ علاقے اور بحر ہند کے چند جزائر بھی فرانس کی کالونی تھے۔ انیس سو پچاس اور ساٹھ کی دہائیوں میں ان ملکوں کے لاکھوں انسانوں نے اپنی جان دیکر فرانس کے تسلط سے آزادی حاصل کی۔لیکن اب بھی فرانس کی ریاست نے ان افریقی ملکوں کی اشرافیہ کے ساتھ اتحاد قائم کیا ہوا ہے جن کے ذریعے بالواسطہ طور پر ان ممالک کو کنٹرول کرتا ہے۔کئی افریقی ملکوں میں فرانس کی فوج بھی تعینات ہے۔ گزشتہ ہفتہ افریقی ملک چاڈ میں فرانس کی پشت پناہی سے فوج نے اقتدار پر قبضہ کیا ہے۔چودہ افریقی ملکوں کی کرنسی فرانس چھاپتا ہے۔ وہ اپنے پچاس فیصد زرمبادلہ کے ذخائربینک آف فرانس میں رکھنے پر مجبور ہیں۔یوں انکی تجارت پر فرانس کا کنٹرول ہے۔ ان ملکوں میں جس چیز کا ٹھیکہ ہوبولی دینے کا پہلا حق فرانسیسی کمپنیوں کا ہے۔ اگر وہ انکار کریں تب کسی اور ملک کی کمپنی کو ٹھیکہ لینے کی اجازت ملتی ہے۔ادب‘ آرٹس اور روشن خیالی کے پیچھے فرانس کا ایک گھناؤنا‘ خونخواررُوپ ہے۔