فرانس میںمسلمانوں کے معاشرتی انضمام کے نام پر مسلمانوں کے خلاف کریک ڈائون جاری ہے جس پراحتجاج کرتے ہوئے فرانس میں مسلمانوں نے اسلاموفوبیا کے خلاف احتجاجی ریلیاں نکالی ہیں۔یورپی ممالک بیلجیئم، برطانیہ، پرتگال وغیرہ کی طرح فرانس بھی 19ویں اور 20ویں صدی میں ایک بڑی سامراجی طاقت تھا جس نے مشرق وسطی اور بالخصوص مسلمان اکثریتی شمالی افریقی ممالک پر حکمرانی کی تھی۔ان میں سے زیادہ تر ممالک تو بطور استعمار کے زیر اثر ریاست کے طور پر جانے گئے مگر الجزائر پر 1830ء میں حملے اور 1848ء میں اسے فرانس کی مملکت کا باضابطہ طور پر حصہ بنا دیا گیا۔اسکے باوجود الجزائر کے شہریوں کو فرانسیسی شہریت بہت مشکلوں سے دی جاتی تھی اور فرانسیسی افواج اور الجزائر کی آزادی کے لیے لڑنے والوں کے مابین1830ء کے بعد متعدد بار سخت جھڑپیں ہوتی رہی۔مختلف تاریخی اندازوں کے مطابق اس قبضے کیلئے ہونے والی جنگ میں پانچ سے دس لاکھ الجزائری شہریوں کی ہلاکت ہوئی تھی۔فرانس کے زیر استبداد ممالک کے شہریوں نے، جن کی واضح اکثریت مسلمانوں کی تھی، نے پہلی جنگ عظیم سے کافی پہلے ہی فرانس منتقل ہونا شروع کر دیا تھا، تاہم ان کی بڑی تعداد 1950ء اور 1960ء کی دہائیوں میں منتقل ہونا شروع ہوئی۔جب الجزائر نے بالآخر 1962ء میں آزادی حاصل کر لی تو ہارکیز کے نام سے معروف وہ الجزائری جو فرانس کی جانب سے لڑ رہے تھے، انھیں فرانسیسی حکومت نے پناہ دے دی جن کی تعداد لگ بھگ 90ہزار بتائی جاتی ہے۔ دوسری جانب فرانس میں مسلمان تارکین وطن میں اضافے کی ایک اور وجہ بنی تھی فرانس کی معاشی ترقی، جس کی وجہ سے حکومت نے 1960ء میں ملک میں تیزی سے پھیلتی ہوئی صنعتوں کو دیکھتے ہوئے بیرون ملک سے آنے والے نوکری پیشہ افراد کیلئے دروازے کھول دیے۔اگلی ایک دہائی تک یہ سلسلہ جاری رہا اور اس معاشی ترقی کی رفتار بتدریج کم ہوئی تو یہ پتہ چلا کہ بڑی تعداد میں مسلمان تارکین وطن کی موجودگی کی بعد فرانسیسی معاشرے کی ساخت اور ہئیت میں تبدیلی کا عنصر آ گیا ہے۔فرانس کے قوانین کے تحت ملک میں مردم شماری کے دوران لوگوں سے ان کے مذہب کے بارے میں نہیں پوچھا جاتا اور اس کی مذہب کی بنیاد پر گنتی نہیں کی جاتی۔ تاہم رائے شماری کرنے والی تنظیمیں اور غیر سرکاری ادارے جیسے بروکنگز انسٹٹیوٹ اور پیئو ریسرچ کے مطابق فرانس میں 57 لاکھ سے زیادہ مسلمان آباد ہیں جن میں سے 30 سے 35 لاکھ افراد الجزائر یا مراکش نژاد شہری ہیں۔جبکہ کئی دوسرے سروے کے اعداوشمار کے مطابق فرانس میں تارکین وطن کی تعداد70 لاکھ کے قریب ہے ۔6 کروڑ سے زیادہ کی آبادی والے ملک میں اس اعتبار سے مسلمان ملک کی دوسری سب سے بڑی مذہبی اقلیت ہیں۔ 2014ء میں ایک غیر سرکاری ادارے سوشل ریسرچ انسٹیٹیوٹ نے مختلف یورپی ممالک میں اپنے سروے میں ایک سوال کیا کہ آپ کے خیال میں آپ کے ملک میں کتنے مسلمان رہتے ہیں۔ اس کے جواب میں فرانس سے جواب دینے والوں نے کہا کہ وہاں 31فیصد مسلمان رہتے ہیں۔ لیکن ان حقائق کے باوجود فرانس میں مسلمانوں کو مسلسل تعصب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ فرانس کے ایک معتبر تحقیقی اور رائے شماری کے ادارے فرنچ انسٹیٹیوٹ فار پبلک ریسرچ یعنی آئی ایف او پی نے 2019ء میں ایک سروے کیا جس کے مطابق فرانس میں رہنے والے 42فیصد مسلمانوں نے کہا کہ کم از کم زندگی میں ایک بار انھیں مذہبی منافرت کا سامنا کرنا پڑا۔اس حوالے سے کہا جاتا ہے کہ فرانس میں مسلمان اپنی مذہبی شناخت سے بہت جڑے ہوئے ہیں۔فرانس کا قومی مقولہ آزادی، برابری اور اخوت ہے جو کہ انقلاب فرانس کے موقع پر پہلی بار سامنے آیا اور1848ء کے انقلاب کے موقع پر اسے باضابطہ طور پر سرکاری سطح پر تسلیم کیا گیا۔یہ مقولہ یا ماٹو فرانسیسی سیکولرازم کا اہم جزو تھا اور اسی پر چلتے ہوئے 1905ء میں ملک میں لئی ستے یعنی( سیکولرازم ( کا تصور ایک نئے قانون کے ذریعے پیش کیا گیا جس کے تحت ریاست کو مذہب سے مکمل طور پر الگ کر دیا گیا لیکن یہ زبان و بیان کی کہہ مکرنیوں کے سواکچھ بھی نہیں۔ بروکنگز انسٹٹیوٹ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ اس قانون کا مقصد تھا کہ ملک میں برابری ہو اور کوئی بھی شخص اپنی مذہبی تشخص کو برقرار رکھے اور اس پر عمل پیرا ہو، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس قانون کو مسلمانوں کے اظہار مذہب کی آزادی کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔ چار سال قبل امریکی تھنک ٹینک اور جریدے فارن پالیسی ان فوکس میں شائع ہونیوالے ایک مضمون میں تجزیہ کیا گیا کہ فرانس میں لئی ستے کے تصور کو اسلام کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے مگر اس کے پیچھے حقیقت یہ ہے کہ اس کے ذریعے فرانس کی قومی شناخت اور اس کے تشخص، ان کی ماضی میں سامراجی طرز حکمرانی، سفید فام بالادستی اور سب سے بڑھ کر مسیحیت کی شناخت کا دفاع کیا جاتا ہے۔ اس مضمون میں مزید کہا گیا کہ فرانس میں تصور یہ ہے کہ اس قومی شناخت کی ہئیت تبدیل کیے جانے کا خدشہ ہے اور یہ خیال پیش کیا جاتا ہے کہ پورے ملک میں مسلمان تارکین وطن پھیل جائیں گے۔ اس حوالے سے 2015 ء میں لکھے گئے ایک مضمون میں سٹمسن سینٹر سے منسلک اور بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر گورڈن ایڈمز لکھتے ہیں کہ فرانس 50لاکھ مسلمانوں کو اپنی آبادی میں مکمل طور پر شامل کرنے میں کامیاب نہیں ہوا ہے اور اس کے نتیجے میں ملک میں تنائو کی کیفیت ہے۔پروفیسر گورڈن ایڈمز نے مزید لکھا کہ فرانس میں مسلمان اب شدید احساس کمتری کا شکار ہیں اور انھیں معاشرے میں عزت نہیں دی جاتی۔ آج فرانس کے معاشرے میں مسلمان خاندان معاشی طور پر الگ تھلگ کر دیے گئے ہیں۔ حکام اور پیرس کے شمال میں موجود علاقوں میں رہنے والے مسلمان نوجوانوں کے درمیان مسلسل جھگڑا ہوتا ہے۔ فرانس کے مسلمان اور سیکولر مسیحی آپس میں نہیں ملتے اور جب ملتے ہیں تو بڑا ہنگامہ ہو جاتا ہے۔پروفیسر گورڈن ایڈمز نے مزید تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ فرانس کو خود احتسابی کی سخت ضرورت ہے تاکہ ملک میں موجود مسلمانوں کی اتنی بڑی تعداد کو علیحدہ کرنے سے روکا جا سکے۔بیلجئیم کی کیتھولک یونیورسٹی سے منسلک پروفیسر بچارا خادر نے اپنے ایک مضمون میں لکھا کہ فرانس میں ایک نوجوان تارکِ وطن کو سب سے زیادہ اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ فرانسیسی معاشرے میں اس کو برابری نہیں ملتی اور اسے حقیر اور کم درجے کا شہری تصور کیا جاتا ہے۔