معزز قارئین!۔ کل ( 26 اور 27 رجب اُلمرجب کی درمیانی شب) پاکستان سمیت دُنیا بھر کے مسلمانوں نے شبِ معراج عقیدت و احترام اور جوش و خروش سے منائی۔ مساجد اور اہم عمارتوں پر چراغاں کِیا گیااور ہر جگہ محافلِ معراج شریف کا انعقاد کِیا گیا۔  قُرآنِ پاک میں شب ِمعراج کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’’ اللہ تعالیٰ پاک اور قابلِ تسبیح ہے جو اپنے بندے (محمدؐ) کو راتوں رات مسجد الحرام ( یعنی مکّہ معظمہ ) سے مسجدِ اقصیٰ تک ( جو بَیت المقّدس کے مقابل آسمانوں کے اوپر واقع ہے اور ) جو برکتوں سے گھری ہُوئی ہے ، لے گیا تاکہ اُسؐ (بندے) کو اپنی نشانیاں دِکھادے۔ عاشقِ رسولؐ علاّمہ اقبالؒ نے اپنی مختصر نظم ’’ شبِ معراج‘‘ میں کہا ہے …

اخترِ شام کی ، آتی ہے ، فلک سے آواز!

سجدہ کرتی ہے سحر، جِس کو ، وہ ہے آج کی رات!

رہِ یک گام ہے ، ہِمّت کے لئے ، عرشِ برِیں!

کہہ رہی ہے ، یہ مُسلمان سے ، معراج کی رات!

…O…

مولانا غلام رسول مہر ؔاِس نظم کی شرح بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’ آسمان سے شام کے ستارے کی آواز آ رہی ہے ، جس رات کو صُبح سجدہ کرتی ہے، وہ یہی رات ہے یعنی معراج کی رات۔ ہِمّت ہو تو عرشِ بریں ایک قدم کا راستہ ہے۔ معراج کی رات مسلمانوں کو یہی سبق دے رہی ہے ۔ مُراد یہ ہے کہ معراج انسانی ہِمّت ، صلاحیت اور اللہ کی رحمت کا اِس دُنیا میں سب سے بڑا کارنامہ ہے ۔ مُسلمان کے لئے اِس میں یہی سبق ہے کہ انسان کے عزم و ہمّت کی آخری منزل عرش برِیں ہے ۔ بلا شُبہ درجے کی بلندی رسولِ اکرمؐ کی رحمت سے مِلی ، لیکن رحمت کا نزول بھی ہمّت و صلاحیت کی بِنا پر ہی ہوتا ہے ‘‘۔ 

رحمت اُللعالمین ’’ برّاق‘‘ نامی چوپائے پر سوار ہو کر جبرائیل ؑکی مُعیت میں معراج کے سفر پر روانہ ہُوئے۔ لفظ برّاق، برق(بجلی) کی طرح چمکیلا اور تیز رفتار۔ برّاقؔ کے بارے میں علاّمہ اقبالؒ کہتے ہیں کہ …

اِک نُکتہ میرے پاس ہے ، شمشِیر کی مانِند!

بُرّندہ وصیقل زدہ ، روشن و برّاق!

کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گُم ہے!

مومن کی یہ پہچان کہ گُم اُس میںہیں آفاق!

…O…

یعنی’’ مَیں تجھے ایک نُکتہ بتاتا ہوں۔ جو تلوار کی طرح کاٹ کرنے والا ۔ صَیقل کِیا ہوا اور رَوشن ۔ کافر کی پہچان یہ ہے کہ وہ خود کو کائنات میں گُم کردیتا ہے۔ جبکہ مومن کی پہچان یہ ہے کہ کائنات اُس میں گُم ہو جاتی ہے ‘‘ ۔

معزز قارئین!۔ سب سے اوپر کا آسمان (آٹھواں آسمان ) ’’ عرش ِ اعظم‘‘ اور ’’کُرسی ‘‘ کہلاتا ہے اور دُنیوی ریاست ، سلطنت ، تاج و تخت اور حکومت کو ’’ کُرسی ـ ٔ ثانی ‘‘ کہا جاتا ہے ۔ غوث اُلاعظم حضرت شیخ عبداُلقادر جیلانی/ گیلانی  ؒ نے ’’کُرسی ٔ ثانی‘‘ پر بھی رونق افروز قصر رسالت ؐ(رسالت ؐ کے محل ) سے مخاطب ہو کر فرمایا تھا کہ …

اے قصرِ رسالتؐ از تو ، معمور!

منشورِ لطافت از تو ، مشہور!

خُدّامِ تُرا غُلام گشتہ!

کیخُسرو کیقباد و فغفور!

یعنی۔ ’’ یا رسول ؐ اللہ ! ۔ رسالت ؐکا قصر آپؐ  کی وجہ سے معمور ہے ۔ لُطف و کرم کا منشور آپ ہی کے الطاف سے مشہور ہے ۔ کیخُسرو، کیقباد اور فغفور ( قدیم ایران اور چین کے عظیم حکمران ) سب آپ کے خادموں کے غُلام ہیں‘‘۔ 

معزز قارئین!۔ ’’ نائب رسول فی الہند‘‘ خواجہ غریب نواز، حضرت مُعین اُلدّین چشتی  ؒ کا کمال ملاحظہ فرمائیں کہ،آپؒ نہ جانے کسے مخاطب کرتے ہُوئے کہا کہ …

راہ بکشای کہ دِل میل ببالا دارد!

پردہ بر گیر کہ جاں عزم تمایا دارد!

یعنی۔ ’’ راستہ کھول دو !۔ کہ دل آسمانوں کی طرف جانا چاہتا ہے ۔ پردہ ہٹا دو!۔ کہ ( اے محبوب ) میری جان ، تیری دِید کرنا چاہتی ہے ‘‘۔

تاریخی کُتب اور کُتب روایات کی رُو سے ’’ مُشاہداتِ معراج کے مطابق’’ آپؐ نے کچھ لوگوں کو دیکھا کہ جِن کی زبانیں اور ہونٹ کاٹے جا رہے تھے‘‘ ۔ آپؐ  کو بتایا گیا کہ ’’ یہ آپؐ کی اُمّت کے وہ واعظ اور خطیب ہیں جو دوسروں کو لمبی چوڑی نصیحتیں کرتے ہیں مگر خود اُن پر عمل نہیں کرتے ‘‘ ممکن ہے کل شب ۔ معراج کی رات نوابوں اور جاگیرداروں کی سی زندگی بسر کرنے والے واعظ اور خطیب حضرات نے اپنی ادائوں پر غور کِیا ہوگا ؟ ۔ بقول شاعر …

آپ ہی ،اپنی ادائوں پہ ذرا غور کریں!

ہم اگر ، عرض کریں گے ، تو شکایت ہوگی!

معراج کے مشاہدات میں نبی اکرمؐ نے کچھ ایسے لوگوں کو بھی دیکھا جو سڑا ہوا گوشت کھا رہے تھے ۔ آپؐ  کو بتایا گیا کہ ’’یہ وہ لوگ ہیں جو سرمایہ پرستی کی ہوِس میں مبتلا تھے اور حقوق اُلعباد سے پہلو تہی کِیا کرتے تھے‘‘ قُرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ نے پیغمبرِ انقلابؐ سے کہا کہ ’’ لوگ آپؐ سے پوچھتے ہیںکہ ( اللہ کی راہ میں ) ہم کتنا خرچ کریں؟‘‘ تو آپؐ اُنہیں بتا دیں کہ جو تمہاری ضرورت سے بچ جائے ، سب کا سب!‘‘ ہمارے یہاں فیڈرل شریعت کورٹ ہے اور اسلامی نظریاتی کونسل بھی لیکن اِن دونوں اداروں کے جج صاحبان اور عُلمائے کرام حکمرانوں اور خوش حال طبقوں کو ’’ قُل العَفو‘‘ کا فلسفہ کیوں نہیں سمجھاتے؟  علاّمہ اقبالؒ نے کہا ہے کہ …

جو حرف قُل العَفو میں پوشیدہ ہے اب تک!

اِس دَور میں شاید ، وہ حقیقت ہو نمودار!

معراج کے مشاہدات میں نبی اکرمؐ نے سود خوروں کو اِس حال میں دیکھا کہ’’ اُن کے پیٹ سانپوں سے بھرے ہوئے ہیں ‘‘ ایک اور روایت کے مطابق ’’ ایک سود خور خون کی ندی میں تیر رہا ہے اور جب وہ ندی سے باہر نکلنا چاہتا ہے تو لوگ اُسے پتھر مارتے ہیں اور وہ پھر ندی کے اندر چلا جاتا ہے‘‘۔معزز قارئین!۔ مختلف شاعروں نے اپنے اشعار میں معراج ؔ اور عرشؔ کو مختلف رنگ میں پیش کِیا ہے ۔ اُستاد راسخؔ لکھنوی نے کہا کہ…

آسود گانِ خاک کو ، معراج مل گئی!

دامن ہے اُن کا ، غاشیہ بردوش ِ نقش پا!

حضرت داغ ؔدہلوی نے نہ جانے کسے مخاطب ہو کر کہا تھا کہ …

آسماں گر گیا نظر سے تیری!

عرش پر جب ، تیرا دماغ ہُوا!

لیکن ، مَیں تو ، ایک عام اِنسان کی طرح ’’برسرِ زمیں ‘‘ ہُوں ، نہ جانے کب ’’زیر زمیں ‘‘ ہو جائوں ؟۔ پھر بھی مَیں ’’عرشِ بریں ‘‘۔ ’’ عرشِ اعظم‘‘ کے بارے میں بات کرتا رہتا ہُوں ۔ یوں بھی اِنسان کے دِل کو ’’عرشِ اکبر‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ میری ایک نعت کے تین شعر ہیں …

یوں ضَو فِشاں ہے ، ہر طرف ، کردار آپؐ  کا!

اَرض و سماء ، ہے حلقۂ انوار ، آپؐ   کا!

…O…

مخلُوقِ کائنات ہو ، یا خالقِ عظِیم!

مِدحت سَرا ہے ، ہر کوئی سرکار آپؐ   کا!

…O…

مولا علیؑ و زَہراس، حسن ؑ اور حُسین ؑ سے!

عرشِ برِیںسے کم نہیں ، گھر بار آپؐ   کا!

’’مَیں غُلام ، اوسؐ دِی آل دا ‘‘ کے عنوان سے میری ایک پنجابی نعت کے دو بند یوں ہیں …

سرچشمہ ، حُسن و جمال ، دا!

کِسے ڈِٹھّا ، نہ اوسؐ دے نال دا!

ربّ گھلّیا ، نبیؐ ، کمال دا!

مَیں غُلام ، اوسؐ دی ، آل ؑ دا!

…O…

سوہنے ربّ دا ، سوہنا ، عرش سی!

اوہدےؐ ، پَیراں لئی ، اوہ فرش سی!

محبُوب جی ، ذُواُلجلال دا!

مَیں غُلام ، اوسؐ دی ، آل ؑ دا!

رَحمتہ لِلعالمِین کے عنوان سے مَیں نے 10 سال پہلے 9شعروں کی ایک نعت رقم کی تھی ۔ اُس کے چار شعر پیشِ خدمت ہیں …

اے اِمام اُلْانْبیا ، محبوب ِربّ اُلْعَالَمِین!

آج تک چشم فلک نے آپؐ سا  دیکھا نہیں!

رَحمتہ لِلعالمِین 

…O…

آپ کے قدموں کو سینے پر لیا، خندہ جبیں!

کِس قدر خُوش بخت ہے مکّہ، مدینہ کی میں!

رَحمتہ لِلعالمِین 

…O…

بارگاہِ حق میں لے کر، جب گئے، رُوح اُلْامَیں!

آپؐ کی خاطر بنا ، عرش بریں ، فرشِ زمیں!

رَحمتہ لِلعالمِین 

…O…

فرش سے تاعرش پھیلا ، آپؐ کا نُورِ حسِیں!

آپؐ کا اسمِ گرامیؐ، اِسم اعظم ،کے قرَیں!

رَحمتہ لِلعالمِین