میںکئی دن سے سوشل میڈیا پر گردش کرتی اک لاش کی تصویر سے نظریں چراتا پھر رہا ہوں ،صحافی ہونے کے ناطے سوشل میڈیا پر نظریں ڈالے بنا گزارا بھی نہیں۔ حالات ہی ایسے ہیں کہ جانے کب کیا ہوجائے جب بھی سوشل میڈیا پرجاتا ہوں سنولائی ہوئی رنگت والا وہ چہرہ سامنے آجاتا ہے،سر پر بندھارومال ، ادھ کھلا منہ ،سوال لئے کرب ناک آنکھیں جیسے پوچھ رہی ہوں غربت کی سزا موت ہی ہے تو مجھے بہت پہلے ہی مار دینا چاہئے تھا ،مجھے روز روز جینے اور مرنے کے لئے کیوں چھوڑا گیا تھا۔یہ تصویر دیکھ کر دل پر دھرا بوجھ کچھ اور بڑھ جاتا ہے ،اداسی مزید بڑھ جاتی ہے اور میں سوچنے لگتا ہوں کہ ایک لاش کے سامنے لقمے ٹھونسنے کے لئے دستیاب بے حسی کی مقدار کتنی ہوسکتی ہے! میری صحافیانہ زندگی کا بڑا حصہ کرائم رپورٹنگ کرتے گزرا ہے ۔کرائم رپورٹنگ اور وہ بھی کراچی میں، بوری بند کٹے پھٹے جسم ،لیاری ندی میں تیرتی لاشیں ،کچرہ کنڈیو ں پر تشدد زدہ بے روح جسم اور بم دھماکوں میں سڑک پر بکھرے اعضاء یہ سب میری صحافتی زندگی کا حصہ رہا ہے۔ میں نے خودکش دھماکوں کے نتیجے میں عبادت گاہوں کی دیواروں پر خون کے چھینٹیںاورفرش پرانسانی گوشت کے اعضاء پڑے دیکھے ہیں۔یہ سب دیکھ دیکھ کر دل خاصا سخت ہوچکا ہے لیکن سچ کہوں مجھ میں پھر بھی اتنی ہمت نہیں کہ ایک لاش کے سامنے بیٹھ کر شکم سیری کروں۔ سوچ رہا ہوں کہ ملک دیوالیہ ہوا یا نہیں اس پر دو رائے ہو سکتی ہیں لیکن سوسائٹی کے دیوالیہ ہونے میں کم از کم اب تودو رائے نہیں رہیں ،سچ یہی ہے کہ ہم تہی دست ہوچکے ہیں ۔اقدار رہزن لے اڑے،روایات پر ڈاکہ پڑچکا ،تہذیب پر نقب لگ چکی، انسانیت روٹھ کر دور کہیں جاچکی، اب ہم بس دو ٹانگوں والے حیوان ناطق ہیں ۔ بتایاجا رہا ہے کہ دو تین روز قبل پتوکی میں ایک شادی ہال کے سامنے پاپڑ بیچنے والے محمد اشرف کو موبائل چرانے کے الزام میں وہاں آئے باراتیوں نے مار پیٹ کا نشانہ بنایا۔اس مارپیٹ میں اشرف جان سے گیا تو اسے ہال ہی میں ایک طرف ڈال دیا گیا۔اتنے میں میزبانوں کو شاباش کہ انہوںنے کھانا لگا دیا اور لوگ جیسے اشرف پر ٹوٹے تھے ویسے ہی کھانے پر ٹوٹ پڑے، پولیس کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق اشرف کے جسم پر کسی طرح کے تشدد کا نشان نہیں ہے لیکن کوئی انکاری بھی نہیں کہ اس غریب پاپڑ فروش پر ہاتھ اٹھایا گیا کسی اگر مگر کے بغیر محمد اشرف کی روح سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگتے ہوئے کچھ دیر کے لئے ایسا ہی تصور کر لیتا ہوں اور شادی کی تقریب میں آئے ان ’’معزز‘‘ ہستیوں سے پوچھتا ہوں کہ ایسا تھا تو اسے کمرے میں بند کرکے پولیس بلا لی جاتی ۔چلیں آپ روز روز کی چوری چکاریوں سے عاجز ہیں چھینا جھپٹی سے دلبرداشتہ ہیں عدالتی نظام پر اعتماد نہیں رہا خود ہی حساب بے باق کرنا بہتر سمجھتے ہیں تو دل کی بھڑاس نکال کرپولیس کے حوالے کردیتے۔ آپ نے تو اسے مار ہی ڈالا اورجب وہ آخری ہچکی لے کر ادھ کھلی آنکھوں کے ساتھ زندگی کو الوداع کر چکا تو اسے کسی خیراتی ادارے کے حوالے کرنے کے بجائے گرما گرم کھانے لینے چل پڑے ۔ حیران ہوں کہ انسانوں نے انسانیت کی یہ تذلیل کر کیسے لی ،کیا پتوکی میں برسہابرس سے قحط ہے؟ کیاپتوکی کی زمین اناج نہیں زہر اگل رہی ہے ؟کیا وہاں قیامت کا اعلان ہوچکا تھا او ر یہ اہل پتوکی کی زندگی کاآخری کھانا تھا ؟مجھے تو تقریب کے میزبانوں پربھی حیرت ہے۔ اس شادی ہال میں کوئی منیجر نام کا بندہ بھی یقیننا ہوگا ۔اس نے ہال میں بے گورو کفن لاش کے ہوتے ہوئے کھانا کیسے لگانے دیا ۔لوگوں کی بے غیرتی ناپنے کے لئے لغتیں کھنگالنی پڑیں گی میرے حافظے میںموجود الفاظ اس دعوت میں شکم سیری کرنے والوں کے لئے ناکافی ہیں سوچا بھی نہیں جا سکتا کہ انسان انسانیت سے اس حد تک بھی نیچے جا سکتا ہے۔ جناب ! یہ سانحہ ہے۔ المیہ ہے ۔یہ اس قوم،،، اوہ معذرت چاہتاہوں قوم کے نام پر اس ریاست کے مختلف علاقوں میں رہنے والے جتھوں کے اخلاق ،کردار کی سطح بتا رہا ہے ۔چند روز پہلے سکھر میں ہندو برادری سے تعلق رکھنے والی دوشیزہ پوجا کماری کو شادی سے انکار پر گھر میں گھس کر قتل کر دیا گیا،دس مارچ کو نور پورہ میانوالی میں سفاک باپ نے اپنی سات روز کی بیٹی کے بالشت بھر کے بدن میں سات گولیاں اتاردیں ،آج گلش راوی لاہور میں کچرے کے ڈھیر سے نومولود بچی کی لاش ملی ہے جسے قتل کرکے کچرے میں پھینکا گیا ہے ،اسی ہفتے کراچی کے علاقے فرئیر روڈ پر ماں نے چلتی ایمبولینس سے نومولود بیٹی کو پھینک کر اسکی جان لے لی ۔۔۔ ان واقعات پر سوسائٹی کا ردعمل افسوس ناک اور شرمناک ہے یہ بیمار ردعمل بتا رہا ہے کہ ہمارے خون میں احساس کے سرخ سیل نہیں بن رہے ،ہماری آنکھوں میں خود غرضی کا موتیا اتر آیا ہے ،ہم کبھی ختم نہ ہونے والے بھوک کے عارضے میں مبتلا ہیں ،ہمارے دل کی شریانوں کو بے حسی نے بلاک کر رکھا ہے ،سفاکی ہمارا بلڈ پریشرنارمل ہونے نہیں دیتی ،حیوانیت کا یرقان ہمارے وجود میں انسانیت کے سیل نہیں بننے دیتا۔ ان معاشرتی بیماریوں کے خلاف ہماری قوت مدافعت بھی ختم ہی سمجھیں ،اب ہم صرف دیکھنے میں ہی انسان لگتے ہیں ہمارے طور طریقے جانوروں سے بھی بدتر ہیں اور ظلم یہ کہ ہمارا نفسیاتی عارضہ یہ تسلیم کرنے پر بھی تیار نہیںکہ ہم بیمار ہیں۔ انسان کی تربیت صرف گھر میں نہیں ہوتی گھر کی چار دیواری سے باہر اسکول ،کالج ،بازار ،سڑکیں ،گلیاں ،کھیل کے میدان ،چوک ،چوراہے، دوست، رشتے ناطے بھی اسکی تربیت میں حصہ ڈالتے ہیں ۔یہ سارا معاشرہ کسی ایک فرد کی تربیت کرکے اسے خودکار انداز میں اس تربیتی نظام کا حصہ بنا تا ہے اب جب تربیت کا یہ سسٹم تباہ ہوجائے تو اقدار کہاں دکھائی دیں ،کبھی سات محلے چھوڑ کر بھی کسی کے انتقال کی خبر ملتی تو لوگ جنازے میں پہنچتے تھے ،کاندھا دینا فرض سمجھتے تھے۔ اب حال یہ ہے کہ بندہ مار کرلاش کے پاس ہی پلاؤ پر رائتہ ڈالاجارہا ہوتا ہے ۔اس بے حسی کے مقام پر تو بے حسی بھی شرمسار ہے۔ لوگوں کی بے حسی کے مناظر ہیں چار سو فرصت ملے تو چشم ندامت اٹھایئے