کرسٹوف جیفرلٹ فرانس کے مشہور دانشور، عالم اور ماہر علم سیاسیات ہیں۔ وہ پیرس میں واقع معروف ’’سینٹر فار سٹڈیز ان انٹرنیشنل ریلیشنز‘‘ کے ڈائریکٹر ہیں۔ بیس برس کی عمر میں ڈاکٹر کرسٹوف جیفرلٹ پہلی بار بھارت گئے اور پھر بھارتی سماج کی تہہ در تہہ اندھیری پرتوں میں یوں الجھے کہ مطالعہ اور تحقیق کا رخ اسی طرف کر لیا۔ تاہم وہی بات کہی اور لکھی جو دیکھی اور جو سچائی پر مبنی تھی۔ حال ہی میں ان کی تالیف کردہ کتاب ’’اکثریتی ریاست‘‘ منظرعام پر آئی ہے۔ اس میں انہوں نے اعداد و شمار سے ثابت کیا ہے کہ بھارت اب نہرو کا بھارت نہیں، مودی کا بھارت ہے۔ اب یہ صرف ہندؤوں کا ہے‘ صوبوں میں (صوبے کو بھارت میں ریاست کہا جاتا ہے) ایک بھی مسلمان وزیر اعلیٰ نہیں۔ جنوری 2018ء کے اعداد و شمار کی رو سے ریاستوں کی اسمبلیوں میں بی جے پی کے نمائندوں کی کل تعداد 1418تھی۔ ان میں مسلمان صرف چار تھے۔ گجرات میں طویل عرصہ سے بی جے پی کی حکومت ہے۔ بی جے پی نے یہاں 2007ء کے الیکشن میں اور پھر 2012ء اور 2017ء کے الیکشن میں ایک مسلمان امیدوار بھی نہیں کھڑا کیا حالانکہ مسلمانوں کی آبادی تیرہ فیصد سے زیادہ ہے۔ آسام میں مسلمان کل آبادی کا 34فیصد ہیں۔ نو اضلاع میں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ یہاں 61 امیدواروں میں بی جے پی نے صرف ایک مسلمان امیدوار کو ٹکٹ دیا۔ بی جے پی جس ریاست میں بھی اقتدار حاصل کرتی ہے وہاں مسلمان نمائندوں کی تعداد حیرت انگیز حد تک گھٹ جاتی ہے۔ یہی کچھ یوپی میں ہوا۔ کرسٹوف جیفرلٹ آخری نتیجہ یہ نکالتا ہے کہ اداروں میں تو مسلمانوں کی تعداد پہلے ہی کم تھی۔ فوج، پولیس اور انتظامیہ میں ان کی آبادی کے تناسب سے انہیں ان کا حق پہلے ہی نہیں مل رہا تھا، اب بی جے پی نے یہ ناانصافی منتخب اسمبلیوں میں بھی روا رکھ لی ہے۔ اس کتاب کا فرانسیسی سے انگریزی میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ اگر ہماری وزارت اطلاعات یا وزارت خارجہ میں زندگی کے آثار ہوتے تو اب تک اس کا اردو میں ترجمہ ہو چکا ہوتا۔ الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے متعارف کرائی جاتی۔ کتاب فروشوں کے پاس موجود ہوتی۔ تقاریب میں اس پر بحث و تمحیص ہوئی ہوتی۔ اگر ایسی کوئی کتاب کسی معروف دانشور نے پاکستان کے حوالے سے لکھی ہوتی اور اس میں کوئی منفی پہلو ہوتا تو بھارت میں شاید مفت تقسیم ہو رہی ہوتی۔ طارق فتح کی مثال لے لیجیے۔ بھارت میں اس کی کیسے پذیرائی ہو رہی ہے؟ ہر ٹیلی ویژن چینل پر وہ پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کر رہا ہے۔ کانگرس کے ایک عوامی نمائندے نے لوک سبھا میں اس کی طرف حکومت کی توجہ بھی دلائی مگر کوئی ایکشن نہ لیا گیا۔ طارق فتح کا تعلق اصلاَ کینیڈا سے ہے۔ یہاں یہ بتانا نامناسب نہ ہو گا کہ کینیڈا میں ایک اینٹی پاکستان لابی نام نہاد دانشوروں کی ہمہ وقت مصروف عمل ہے۔ ایک شاعر صاحب جنہیں حکومت پاکستان نے ماضی میں ایوارڈ دیا تھا‘ اس اینٹی پاکستان لابی کے شانہ بشانہ اکثر تقاریب میں موجود ہوتے ہیں! کرسٹوف جیفرلٹ کی طرف واپس آتے ہیں۔ فرانس کے معروف ادارے ’’پیرس انسٹی ٹیوٹ آف پولیٹیکل سٹڈیز‘‘ نے چند دن پہلے ایک کانفرنس بلائی جس کا موضوع بھارت کے حالیہ الیکشن اور مودی حکومت تھی۔ کرسٹوف جیفرلٹ نے اس کانفرنس میں مودی حکومت پر کھل کر تنقید کی۔ وہاں موجود بھارتیوں نے اپنی طرف سے احتجاج بھی کیا مگر جیفرلٹ کے دلائل مضبوط تھے اس کا مرکزی نکتہ یہ تھا کہ بھارتی جمہوریت ’’نسلی جمہوریت‘‘ ہے۔ ’’ہندوتوا‘‘ کی شناخت ہر بھارتی پر مسلط کی جا رہی ہے۔ جیفرلٹ نے بھارت کا موازنہ اسرائیل سے کیا جو یہودی ریاست ہے۔ گمان غالب یہ ہے کہ مودی کو اگر دوبارہ حکومت ملی تو ہندوتوا کو بھارتی آئین میں گھسیڑا جائے گا۔ ہندوازم کی شناخت کو اقلیتوں پر مسلط کیا جا رہا ہے۔ تاریخ بھارت میں دوبارہ لکھی جا رہی ہے۔ سکولوں کی نصابی کتب میں پندرہ سو سے زیادہ تبدیلیاں کی جا چکی ہیں۔ راجستھان کی نصابی کتابوں سے نہرو کا نام ہٹایا جا رہا ہے۔ ماضی کی جن جنگوں میں ہندو ریاستوں کو سلاطین دہلی یا مغلوں کے ہاتھوں شکست ہوئی تھی، اب انہیں فاتح قرار دیا جا رہا ہے۔ کچھ سیکولر حلقے۔ آر ایس ایس کی مخالفت کررہے ہیں مگر انہیں ختم کیا جا رہا ہے۔ تین سیکولر دانشورقتل کیے جا چکے ہیں۔ جو صحافی ہندوتوا کے سامنے نہیں جھک رہے وہ بھی نشانے پر ہیں۔ جیفرلٹ کے بقول، جموں اور کشمیر کے علاوہ ہر جگہ مسلمان ہمت ہار کر راضی برضا ہو گئے ہیں۔ مسیحی آبادی بھی اسی کشتی میں سوار ہے۔ کئی پادری اور راہبائیں قتل ہو چکی ہیں۔ جیفرلٹ نے ان تحریکوں کا بھی ذکر کیا ہے جو مسلمانوں کے خلاف چلائی جا رہی ہیں۔ ایسی ایک مہم ’’گھرکو واپسی‘‘ کے نام سے مصروفِ کار ہے۔ یعنی مسلمانوں، عیسائیوں اور دیگر مذاہب کے پیروکاروں کو ’’دوبارہ‘‘ ہندو بنانا! اس تحریک کا لب لباب یہ ہے کہ مسیحی اور مسلمان ہندؤوں کی ’’چوری شدہ‘‘ جائیداد ہیں اس جائیداد پر ازسرنو قبضہ کرنا ضروری ہے۔ ایک اور تحریک مسلمانوں کو ان کی مخصوص آبادیوں میں محدود اور محصور کرنا ہے۔ یعنی GHETTOISATION. احمد آباد اور بڑودہ میں مسلمان خاندان ان علاقوں میں نہیں رہائش رکھ سکتے جہاں ہندو اکثریت ہے۔ میونسپل قوانین انہی خطوط پر تبدیل کیے جا رہے ہیں تاکہ مسلمان مخصوص علاقوں سے باہر نہ آباد ہو سکیں، خواہ وہ علاقے ناکافی ہی کیوں نہ ہوں۔ اب یہ ’’ماڈل‘‘ احمد آباد اور بڑودہ کے علاوہ دیگر ریاستوں میں بھی متعارف کرایا جا رہا ہے۔ مسلمان کھلے عام نماز نہیں پڑھ سکتے۔ گاؤکشی کے خلاف مہم زوروں پر ہے۔ لاتعداد مسلمان اس حوالے سے شہید کیے جا چکے ہیں۔ مہاراشٹر میں ’’گائے بچاؤ ٹاسک فورس‘‘ وجود میں آ چکی ہے۔ شہید کیے جانے والے مسلمانوں کو سوشل میڈیا پر دکھایا جاتا ہے تاکہ خوف کی فضا ہر طرف پھیل سکے اور مسلمان ہراساں ہوں۔ ’’نیشنل سکیورٹی ایکٹ‘‘ کا اطلاق ان مسلمانوں پر کیا جا رہا ہے جو گائے کی نقل و حمل کر رہے ہوں۔ حالانکہ اس ایکٹ کا گائے سے دور دور کا تعلق نہیں۔ مقامی سطح پر کئی گروہ اس کام میں ملوث ہیں اور پولیس ان کی خفیہ سرپرستی کرتی ہے۔ پولیس مکمل طور پر سیاست زدہ کر دی گئی ہے۔ اب یہ پولیس ریاست کی پولیس نہیں، بی جے پی اور آر ایس ایس کی پولیس ہے۔ بڑے بڑے تاجر اور صنعت کار مودی کی ہاں میں ہاں ملا رہے ہیں۔ ٹیلی ویژن چینل بھی مودی کے ساتھیوں کی تحویل میں ہیں۔ کانفرنس میں یہ سارے حقائق جیفرلٹ نے تفصیل سے بتائے۔ حاضرین نے جو دانشور تھے اور اعلیٰ تعلیم یافتہ فرانسیسی، ایک اہم سوال کیا کہ جب یہ سب کچھ بھارت میں ہو رہا ہے تو مغربی حکومتیں کیوں خاموش ہیں اور وہ کردار کیوں نہیں ادا کر رہیں جو انہیں کرنا چاہئے۔ مغربی طاقتوں کی خاموشی کے تین اسباب جیفرلٹ نے بتائے۔ اوّل مغربی طاقتوں کا اقتصادی ایجنڈا جو بھارتی حکومت کا محتاج ہے۔ دوم، چین کو بھارت کے ذریعے محصور کرنے کا پروگرام اور سوم، مغرب کا اسلامو فوبیا کہ دہشت گرد تو مسلمان ہیں۔ ہندو دہشت گرد کیسے ہو سکتا ہے۔ اس کالم نگار نے سنا ہے کہ لاہور کی کسی یونیورسٹی نے حال ہی میں ڈاکٹر کرسٹوف جیفرلٹ کو ایک کانفرنس میں مدعو کیا مگر جنگل میں مور ناچا، کس نے دیکھا؟ سوال یہ ہے کہ جیفرلٹ کی پذیرائی اور اس کے افکار کی تشہیر سرکاری سطح پر کیوں نہیں کی جا رہی؟