وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت کابینہ کی توانائی کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں فرنس آئل سے بجلی پیدا کرنے پر پابندی عائد کرتے ہوئے ایل این جی اور کوئلے سے بجلی بنانے کا حکم دیا گیاہے۔ پاکستان نے قطر کے ساتھ 16ارب ڈالر کا ایل این جی کا معاہدہ کر رکھا ہے۔ جس کے مطابق 37لاکھ ٹن سے زائد ایل این جی مناسب قیمت پر سالانہ درآمد ہو گی۔ اس معاہدے کے بعد صنعت کاروں‘ کارخانے داروں اور عام بزنس مین نے سکھ کا سانس لیا تھا۔ ایل این جی کی درآمد سے بجلی کی پیداوار میں اضافے کی امید قائم ہوئی تھی اور 200میگا واٹ کے بند یونٹس کے مالکان نے بھی خوشی کا اظہار کیا تھا۔ لیکن حکومت نے فرنس آئل سے بجلی کی پیداوار جاری رکھی، جو فی یونٹ 16روپے پڑتی ہے۔ جبکہ ایل این جی سے بجلی کی فی یونٹ پیداوار 10روپے ہے۔ اگر ہم کوئلے سے بجلی پیدا کرتے ہیں،تو وہ ایل این جی سے بھی سستی پڑے گی۔ لیکن ماضی کی حکومتوں نے کمیشن کے حصول کی خاطر مہنگے داموں فرنس آئل سے ہی بجلی کی پیداوار شروع کیے رکھی۔ جس کا سارا بوجھ عوام کے کندھوں پر آیا۔پاکستان دنیا بھر میں کوئلے کا سب سے بڑا پروڈیوسر ہے۔ ہمارے پاس 185بلین ٹن کوئلے کے ذخائر ہیں۔ جن میں سے صرف تھر میں 175.5بلین ٹن کوئلہ موجود ہے۔ جبکہ سندھ اور بلوچستان کے کئی ساحلی علاقوں میں بھی کوئلے کے وسیع ذخائر موجود ہونے کے شواہد ہیں۔ اس وقت دنیا بھر کے بڑے بڑے ممالک کوئلے سے بجلی پیدا کررہے ہیں۔ لیکن پاکستان جس کے پاس وافر مقدارمیں کوئلے کے ذخائر موجود ہیں وہ اسے نظر انداز کر کے مہنگے ترین فرنس آئل سے بجلی پیدا کرتا ہے۔ بجلی کی عالمی پیداوار کا اگر طائرانہ جائزہ لیں تو کوئلہ سے 41فیصد‘ فرنس آئل سے صرف 5فیصد نیو کلیئر سے 13فیصدجبکہ گیس سے 21فیصد بجلی پیدا کی جاتی ہے۔ لیکن طرفہ تماشا ہے کہ ہمارے ہاں ہمیشہ الٹی گنگا بہتی رہی۔ ماضی کی حکومتوں نے کوئلے کی دریافت کے لئے غیر ملکی کمپنیوں کو مہنگے داموں ٹھیکے دیے لیکن بجلی کی پیداوار بدستور فرنس آئل پر ہی رکھی۔ حکومت کے فرنس آئل پر پابندی عائد کرنے کے بعد اب کوئلے اور ایل این جی سے ہی بجلی پیدا کی جائے گی، جو لازمی طور پر سستی پڑے گی۔ کوئلے کی صنعت کو فروغ ملے گا اور بے روزگاری کا خاتمہ ہو گا۔ فرنس آئل کی درآمد پر پابندی کے بعد مقامی ریفائنریز سے اب زیادہ ایندھن لینے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔ اب مقامی ریفائنریز پر منحصر ہے کہ وہ اس موقع سے کس طرح فائدہ اٹھاتیں ہیں۔ گرمیوں کے موسم میں بجلی کی طلب24ہزار میگاواٹ تک بڑھ جاتی ہے لیکن حکومت نے تب بھی فرنس آئل درآمد نہ کرنیکا فیصلہ کیا ہے بلکہ ایل این جی اور کوئلے پر بجلی کی پیداوار کا انحصار بڑھایا جائے گا۔ کابینہ کی توانائی کمیٹی کا یہ بڑا ہی مستحسن فیصلہ ہے ۔ اس کے معیشت کی بحالی پر دوررس اثرات مرتب ہونگے۔ گیس بحران پر کمیٹی نے رپورٹ پیش کی جسے وزیر اعظم عمران خان نے مسترد کر کے سوئی سدرن ‘ ناردرن اور پی ایس او کے بورڈز کی تشکیل نو کا حکم دیا ہے۔ گیس بحران کے باعث وزیر اعظم کے ویژن کو شدید دھچکا لگا تھا۔ عمران خان نے کراچی چیمبر آف کامرس سے جو وعدے کئے تھے‘ وہ چند روز بعد ہی ہوا میں اڑا دئیے گئے تھے۔ لیکن اب وزیر اعظم عمران خان نے ملک بھر کے گھریلو صارفین کو بلا تعطل گیس کی فراہمی کے ساتھ ساتھ ملک بھر میں یکساں نرخ مقرر کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس وقت مختلف کمپنیوں نے گیس کے الگ الگ نرخ مقرر کر رکھے ہیں۔ ہر کوئی قیمتوں میں من مانی کر کے عوام کا استحصال کر رہا ہے۔ حالانکہ آئین کے آرٹیکل 158کے مطابق جس صوبے میں گیس پیدا ہوتی ہے۔ اس کے استعمال کا پہلا حق اسی صوبے کا ہے، اسی کے باعث پنجاب مہنگے داموں ایل این جی درآمد کر کے اپنی ضرورت پوری کرتا ہے ۔ گیس کے یکساں نرخ مقرر ہونے سے کمرشل‘ صنعتی‘ کھاد اور گیس سے وابستہ دیگر سیکٹرز کی سرگرمیوں میں اضافہ ہو گا اور گیس سے وابستہ تمام سیکٹرز میں کاروبار کے مواقع پیدا ہونگے۔ اس وقت صرف سندھ میں 630سی این جی اسٹیشن ہیں، جن پر 40ہزار کے قریب لوگ کام کرتے ہیں۔ اس طرح کھاد کی بڑی بڑی فیکٹریاں اور کارخانے ہیں، ان میں بھی ملازمتوں کے مواقع پیدا ہونگے۔ ہر ضلع میں چھوٹی چھوٹی صنعتیں موجود ہیں جو گیس پر منتقل ہیں، ان میں بھی افرادی قوت کی مانگ بڑھے گی اور بجلی پر لوڈ کم ہونے سے بجلی کی طلب میں بھی کمی واقع ہو گی۔ گیس کی عدم دستیابی کے باعث کئی انڈسٹریاں بجلی پر منتقل ہو گئی تھیں۔ اب وہ دوباہ گیس پر آئیں گی تو بجلی کا بوجھ کم ہو گا۔ موجودہ حکومت سورج ،ہوا اور دیگرذرائع سے بھی توانائی حاصل کرنے کے اقدامات کرے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں چار موسموں سے نوازا ہے۔ ان موسموں کو عنائت ربانی سمجھتے ہوئے ہمیں فائدہ اٹھانا چاہیے۔ ہمارے پاس سندھ‘ بلوچستان اور جنوبی پنجاب کے وسیع و عریض میدان موجود ہیں۔ لیکن ہم اس سہولت سے فائدہ نہیں اٹھا رہے۔ موجودہ حکومت اس جانب بھی توجہ دے اور اس کے ساتھ ساتھ بجلی اور گیس کی چوری روکنے کے اقدامات کئے جائیں۔ دو روز قبل ہی گیس صارفین پر اربوں روپے کا اضافی بوجھ ڈالا گیا ہے۔ حالانکہ ماضی میں جن لوگوں نے گیس چوری کی انہیں انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرکے یہ نقصان پورا کرنا چاہیے۔ وزیر اعظم توانائی بحران کے ذمہ داروں کے خلاف سخت اقدامات کریں ۔کرپٹ اورکمیشن مافیا کے خلاف دو ٹوک فیصلے کرنے سے مسائل حل ہونگے۔ ورنہ ماضی کی طرح بیوروکریسی سرخ بتی کے پیچھے لگائے رکھے گی۔