اس کتاب کی اشاعت کے بعد اے این پی کی لیڈر شپ کو سانپ سونگھ گیا۔ جمعہ خاں صوفی کے خلاف عدالت سے رجوع کرنے کی ہمت نہ کر سکے۔آج تک نہ کر سکے۔سوویت یونین ڈھے پڑا تو اے این پی کی قیادت نے امریکہ سے رشتے استوار کر لیے۔تفصیلات مہیا کی جا سکتی ہیں۔ کالم لکھنے کا آج کوئی ارادہ نہیں۔ کالم اس طرح نہیں لکھے جاتے۔ چار بجنے میں صرف ستائیس منٹ باقی ہیں، جب کاپی پریس بھیج دی جاتی ہے۔ بس ایک وضاحت مطلوب ہے، کل جس کا وعدہ کیا تھا۔ یہ ایک خوشگوار شام تھی، جب کپتان سے ملنے ان کے دفتر میں گیا۔ ان کے دائیں ہاتھ ممتاز شاعر احمد فراز براجمان تھے۔ میں خان کے پہلو میں رکھی ہوئی کرسی پہ بیٹھ گیا۔عام تاثر کے برعکس تحریکِ انصاف کے اجلاسو ں میں، میں شریک نہ ہوتا، بہت کم، خال خال۔ فرض کیجیے کہ وہیں میں موجود ہوں اور میٹنگ شروع ہوئی تو بلالیا گیا۔ کپتان سے رابطہ خالصتاً ذاتی تھا اور آخری وقت تک ذاتی ہی رہا۔ یہ خیر خواہی کا رشتہ تھا، جو بالاخر خوشامدیوں میں گھرے لیڈر کے قدموں تلے پامال ہو گیا۔ قائداعظم ایسی مستثنیات کے علاوہ ہر لیڈر کے ساتھ بالآخر یہی ہوتاہے۔ سیاسی لیڈرہی نہیں، مذہبی دیوتاؤں اور واعظوں کے ساتھ بھی۔ ہمیشہ سے چلاآتا یہ سرپرستی کا معاشرہ ہے، patronageکا۔ یہ احساسِ کمتری اور خودترسی کی سرزمین ہے۔ ہر مشہور اور ممتاز آدمی کو غیر معمولی سمجھاجاتا ہے؛حالانکہ ایسا نہیں ہوتا۔ قدرت کے ابدی قوانین میں سب سے بنیادی قانون یہ ہے کہ آدمی آزمائش کے لیے پیدا کیا گیا۔ بعض کو دولت سے آزمایا جاتاہے۔ کچھ کو شہرت اور اقتدار سے۔ کچھ مفلسی، گمنامی اور محتاجی سے۔ دولت مندی کوئی کامیابی ہے، نہ اقتدار۔ شہرت کوئی ظفر مندی ہے اور نہ گمنامی کوئی ناکامی۔ اللہ کے آخری رسولؐ کا ارشاد یہ ہے: میری امت کے بہترین لوگ وہ ہیں، جو کسی محفل میں جائیں تو ان کاتعارف نہ کرایا جائے اور جب اٹھ کر چلے جائیں تو ان کا ذکر نہ ہو۔ عمران خان کا چہرہ معمول سے زیادہ چمک رہا تھا۔ وہ جسے انگریزی میں glowکرنا کہتے ہیں۔ اچانک احمد فراز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا: کیا ان سے آپ کا تعارف نہیں۔ کیا آپ انہیں جانتے نہیں۔ عرض کیا، خوب جانتا ہوں۔ احمد فراز خاموش تھے اور اس کا ایک طویل پسِ منظر تھا، جس پہ پھر کبھی بات ہوگی۔ عمران نے کہا: آج سے یہ تحریکِ انصاف میں شامل ہیں۔ میں نے انہیں تھنک ٹینک میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ احمد فراز یقینا ملک کے ممتاز ترین افراد میں سے ایک تھے۔ متنازعہ مگر بہت ہی مقبول۔ قد آور، خوش باش اور جوش و خروش سے بھرے ہوئے۔ خدا کی زمین میں ہر آدمی کو ایک ہنر بخشا جاتا ہے، کم از کم ایک ہنر، جس کے بل پر وہ زندگی کر سکے۔ احمد فراز تھنک ٹینک کے لیے نہیں بنے تھے۔ ان کی مقبولیت سے پارٹی کو فائدہ پہنچتا اور شاید بہت زیادہ بھی لیکن سیاسی تجزیہ ان کی دنیا نہیں تھی۔ میں نے بہرحال خاموش رہنے کا فیصلہ کیا۔ جنرل مشرف کے آخری ایام تھے۔ وکلا تحریک آخری مرحلے میں داخل ہو چکی تھی۔ احتجاج بڑھتا جا رہا تھا۔ عوامی ناراضی اس قدر شدید تھی کہ فوجی افسر وردی پہن کر بازاروں میں جانے سے گریز کر نے لگے تھے۔ فوج سے نہیں، خلقِ خدا کو اس کے سربراہ سے وحشت تھی، جو بالآخر خاکی وردی سے مغائرت میں ڈھلنے لگی۔ اسی ماحول میں بالآخر فوج کے نئے سربراہ جنرل کیانی نے کچھ نتائج اخذ کیے اور برسوں اپنے ساتھیوں کو سکھاتے رہے۔ ان میں سے ایک یہ تھا کہ عوامی جذبات کا بہرحال احترام کیاجانا چاہئیے۔ فوج کو براہِ راست کبھی اقتدار نہ سنبھالنا چاہئیے۔ یاد ہے کہ منصب سنبھالتے ہی جنرل اشفاق پرویز کیانی نے آئی ایس آئی کا سیاسی سیل معطل کر دیا تھا۔ بدقسمتی سے چند ہفتوں کے بعد ہی بحال کرنا پڑا، جب پتہ چلا کہ صدر آصف علی زرداری ایک ایک کر کے مختلف ارب پتیوں کو طلب کر رہے ہیں۔ بیتے ہوئے برسوں کا حصہ مانگ رہے ہیں۔ ان میں اوّلین خانانی اور کالیہ تھے۔ غیر ملکی کرنسی کی ترسیل کا سب سے بڑا کاروباری ادارہ۔ فوراً ہی بحث شروع ہو گئی کہ کیا بڑے پیمانے کا ایجی ٹیشن شروع ہونا چاہئیے یا نہیں۔ عمران خان کو گرفتاری پیش کرنی چاہئیے یا نہیں۔ میں اس کے حق میں تھا۔ عرض کیا: جیل جائے بغیر سیاسی لیڈر کی زندگی کا اہم ترین باب تشنہ رہ جاتا ہے۔ اب تک خاموش بیٹھے احمد فراز چپ نہ رہ سکے۔ بولے: کسی نہ کسی کو قیادت کے لیے میدان میں موجود ہونا چاہئیے۔ ممکن ہے، آتے جاتے رہے ہوں مگر اس کے بعد کبھی میں نے انہیں کپتان کے ساتھ نہ دیکھا۔ یہ وضاحت اس لیے ضروری تھی کہ ایک بزرگ اور محترم کالم نویس نے پی ٹی آئی سے شبلی فراز کی وابستگی پہ تعجب کا اظہار کیا۔ تعجب کیسا؟ جب ان کے والد پی ٹی آئی کا حصہ ہو گئے تھے تو وہ کیوں نہ ہوتے؟ مزید یہ کہ ایک بھارت نواز پارٹی کی بجائے نسبتاً ایک معتدل مزاج جماعت کا حصہ کیوں نہ بنتے۔ رہی خرابیاں اور کمزوریاں توہر ممکنہ الزام کے باوجود پی ٹی آئی عوامی نیشنل پارٹی سے بہتر ہے۔ نیشنل عوامی پارٹی بھارت اور افغانستان سے مالی مفادات حاصل کرتی اور ان کے لیے کام کرتی رہی۔بھٹو عہد میں عبد الغفار خان بھارت کے دورے پر گئے تو پچانوے لاکھ روپے عام جلسوں میں انہیں پیش کیے گئے یعنی آج کے دس ملین ڈالر، ایک سو ساٹھ ارب روپے۔ اس رقم سے باچا خان نے ایک ٹرسٹ قائم کرنے کا اعلان کیا۔ وہ ٹرسٹ کہاں ہے؟ وہ روپیہ کہاں ہے؟ پاکستان کو کبھی دل سے باچا خاں نے قبول نہ کیا۔ مرے تو پاکستان میں دفن ہونا بھی پسند نہ کیا۔ ان کا مزار جلال آباد میں واقع ہے۔یہ اس جائیداد پہ واقع ہے، جو افغان حکومت نے تحفے کے طور پر انہیں پیش کی تھی۔ایسی ہی کچھ پراپرٹی کابل میں بھی موجود ہے۔ غفار خان اور اجمل خٹک کے دیرینہ ساتھی جمعہ خان صوفی نے تحریری شواہد مہیا کر دیے ہیں کہ افغانستان اور بھارت سے اے این پی کا مالی مفاد وابستہ تھا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ بھارت، روس اور افغانستان کی مدد سے انہوں نے پختون خوا کو پاکستان سے الگ کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔اس مقصد کے لیے افغان سرزمین پر سینکڑوں نوجوانوں کو مسلح تربیت دی گئی۔ تفصیلات ان کی خودنوشت ’’فریبِ ناتمام‘‘میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ان میں سے ایک واقعہ یہ ہے کہ ہر ماہ عطا کیے جانے والے پانچ لاکھ روپے، ایک بار عبد الولی خاں نے لندن میں افغان سفارت خانے سے وصول کیے۔ اس کتاب کی اشاعت کے بعد اے این پی کی لیڈر شپ کو سانپ سونگھ گیا۔ جمعہ خاں صوفی کے خلاف عدالت سے رجوع کرنے کی ہمت نہ کر سکے۔آج تک نہ کر سکے۔سوویت یونین ڈھے پڑا تو اے این پی کی قیادت نے امریکہ سے رشتے استوار کر لیے۔تفصیلات مہیا کی جا سکتی ہیں۔