وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ چھوٹے بچوں کو خوراک کی بہت ضرورت ہے۔ مخیر حضرات سیلاب متاثرین کی مدد کیلئے آگے آئیں۔ وزیر اعظم کا کہنا درست ہے کہ آگے سردیوں کا موسم قریب آرہا ہے۔ متاثرین کو موسم کی سختی سے بچانے کیلئے پیشگی انتظامات بہت ضروری ہیں۔ سیلاب کے عذاب کے بعد متاثرین کی بھی بحالی کا مرحلہ ہے۔ اس کے ساتھ آئندہ سیلاب سے بچائو کیلئے اقدامات کرنا ہوں گے کہ آج کے ترقی یافتہ دور میں آفات سے بچائو کیلئے اقدامات نہ ممکن نہیں۔ ماحولیاتی تبدیلی کے موجودہ عذاب سے چند ایک ممالک متاثر ہوئے مگر پاکستان کا حشر نشر ہو گیا کہ بچائو کیلئے اقدامات نہ کئے گئے۔ ٹانک، ڈی آئی خان، تونسہ سے روجھان تک کوہ سلیمان سے آنیوالے بارشی سیلاب سے بچائو کیلئے چھوٹے ڈیمز کا ذکر ہوتا ہے مگر آج تک نہیں بنائے گئے۔ کالا باغ ڈیم بھی سیاست کی نظر کر دیا گیا ہے۔ بارشی سیلاب اور دریائوں کے سیلاب سے بچائو کے نام پر ہر سال اربوں روپے کرپشن کی نظر ہو جاتے ہیں۔ حفاظتی پشتے، پل اور سڑکوں میں ناقص میٹریل استعمال ہوتا ہے۔ سپر بندوں کے نام پر مقامی سیاستدان بیورو کریسی کے ساتھ مل کر کروڑوں روپے ہڑپ کر جاتے ہیں اگر اس رقم کو کرپشن سے بچا لیا جائے اور سپر بندوں کی صحیح مرمت ہو جائے تو اس سے بھی سیلاب کی روک تھام میں مدد مل سکتی ہے۔ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) ڈائریکٹر ڈبلیو ایچ او ڈاکٹر ٹیڈروس نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان میں بیماریوں اور اموات کا سخت خطرہ لا حق ہے۔ ہم انہی کالموں میں پہلے دن سے گزارش کرتے آرہے ہیں کہ سیلاب کی تباہ کاریوں کے بعد بیماریوں کا خطرہ ہے مگر افسوس کہ جس طرح سیلاب سے بچائو کیلئے قبل از وقت حفاظتی اقدامات نہ کئے گئے اسی طرح اب بیماریوں کے تحفظ کیلئے بھی اقدامات نہیں کئے جا رہے۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے ٹانک اور میانوالی کے سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کو ملتوی کر دیا اور لندن چلے گئے۔ جس پر ہر طرف سے اعتراضات ہو رہے ہیں۔ عمران خان نے یہاں تک کہا کہ لوگ سیلاب سے مر رہے ہیں۔ حکمرانوں کو غیر ملکی دوروں کی پڑی ہے۔ عمران خان نے یہ بھی کہا کہ وزیر اعظم سرکاری وسائل کا استعمال کرتے ہوئے ایک سزا یافتہ سے ملنے اور آرمی چیف کی تعیناتی کے لیے ہدایات لینے کیلئے جا رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے بھی پاکستان میں سیلاب کی صورتحال کو تشویشناک قرار دیا اور اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسیف نے بھی پاکستان میں ہنگامی امداد کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ سیلاب میں گھرے لاکھوں بچوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔ پاکستانی حکمرانوں کو سب سے پہلے سیلاب متاثرین کی امداد کا سوچنا چاہئے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کا ذکر آیا ہے تو یہ بھی بتاتا چلوں کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے صنعتی ممالک کے ضمیر کو جھنجھوڑتے ہوئے کہا تھا کہ موسمیاتی تبدیلیاں صنعتی آلودگی کی وجہ سے پیدا ہو رہی ہیں اور ترقی پذیر ممالک اُن کی پیدا کردہ مصیبتوں کے عذاب بھگت رہے ہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی کے باعث سیلاب کی تباہ کاریوں کے بعد بیماریوں کا سامنا ہے۔ ظلم تو یہ ہے کہ کروڑوں سیلاب متاثرین کیساتھ ساتھ لاکھوں بچے بھی سیلاب کا عذاب بھگت رہے ہیں حالانکہ بچے پھول ہوتے ہیں۔ بچوں کی طرف فوری توجہ کی ضرورت ہے کہ یونیسیف کے مطابق تقریباً 34 لاکھ سیلاب زدہ بچے فوری امداد کے منتظر ہیں۔ باردیگر کہوں گا کہ بچے اور بچیاں اس موسمیاتی تباہی کی قیمت چکا رہے ہیں، جس میں وہ حصے دار ہی نہیں ہیں، سیلاب سے متاثرہ بچوں کی مائیں غذائی قلت کا شکار ہو کر دودھ پلانے سے بھی قاصر ہیں۔خواتین کو بیماریوں نے جکڑ لیا ہے۔ وسیب کے سیلاب زدہ علاقوں کے دورے کے دوران ہمارے ساتھ ڈاکٹر عمر فاروق خان بلوچ تھے ۔ تونسہ کے قریب لگائے گئے میڈیکل کیمپ میں انہوں نے کافی تعداد میں مریضوں کو دیکھا جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی تھی۔ وسیب اور سندھ کے سیلاب متاثرین خواتین اور بچے مختلف امراض کا شکار ہونے لگے ہیں، سرکاری ہسپتال مریضوں سے بھر گئے، ڈاکٹرز اور ادویات کی بھی کمی کا سامنا ہے۔ حکومت کی طرف سے متاثرین کی مدد کیلئے ابھی تک خاطر خواہ انتظامات سامنے نہیں آئے۔ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ گزشتہ روز سیلاب زدہ نوشہرہ فیروز گئے تو سیلاب متاثرین نے ان کو گھیر لیا اور وہ متاثرین کے سوالات کا مناسب جواب نہ دے سکے۔ وسیب کے دو اضلاع ٹانک اور ڈی آئی خان خیبرپختونخواہ میں آتے ہیں۔ پچھلے دنوں وزیراعظم شہباز شریف ٹانک اور ڈی آئی خان کے سیلاب زدہ علاقوں کے دورے پر گئے تو ٹانک میں سیلاب متاثرین کیلئے ایک سو گھر بنا دینے کا اعلان کیا تھا۔ کل وزیر اعظم نے افتتاح کرنا تھا مگر ان کے لندن چلے جانے سے وسیب کے علاقوں میں مایوسی پیدا ہوئی ہے۔ سیلاب متاثرین کو ایک شکایت یہ بھی ہے کہ بیرونی امداد بھی آرہی ہے۔ اندرون ملک بھی ادارے حکومت کو امداد دے رہے ہیں۔ عمران خان نے بھی اربوں روپے کی امداد جمع کی ہے مگر ابھی تک سیلاب متاثرین کے پاس خاطر خواہ امداد نہیں پہنچی۔ آٹے کے بحران نے سر اٹھا لیا ہے۔ قیمتیں غریب کی دسترس سے دور ہوتی جا رہی ہیں۔ دوسری طرف حکومت اخراجات کم کرنے اور غربت پر قابو پانے کی بجائے کابینہ کا حجم ہر آئے روز بڑھا رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کو بھی کہنا پڑا کہ ستر لوگوں کی کابینہ کا میں دفاع نہیں کروں گا۔ البتہ میں خود تنخواہ نہیں لیتا۔ ایک خبر یہ بھی ہے کہ توہین عدالت کیس میں سابق چیف جج گلگت بلتستان سپریم اپیلینٹ کورٹ رانا شمیم اپنے بیان سے منحرف ہو چکے ہیں اور نیا معافی نامہ جمع کرا دیا ہے۔ تیس سال پہلے کی بات بتا رہا ہوں کہ ہماری دھریجہ برادری کے سردار کا نام جام خان دھریجہ تھا ہمارے علاقے کے ایک غریب یارا فقیر کے جام خان سے بے تکلفی تھی۔ جام خان نے اسے فصل پر نئے کپڑے نہ دیئے تو اس نے کہا کہ سردار صاحب کوئی دوسرا وعدہ خلافی یا کوئی جرم کرے تو فیصلہ آپ کی عدالت میں آتا ہے اگر آپ خود ہی وعدہ خلاف بن جائیں تو پھر ہم انصاف کیلئے کہاں جائیں؟