سعودی عرب نے عالمی سطح پر کورونا وبا کے خطرات کے باعث رواں برس فریضہ حج کے لیے انتہائی محدود تعداد میں عازمین کو اجازت دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ شرط رکھی گئی ہے کہ صرف وہی افراد حج کی سعادت حاصل کرسکیں گے جو سعودی عرب میں مقیم ہیں۔ مقیم افراد میں مقامی شہری اور وہ غیر ملکی شامل ہیں جن کے پاس سعودی عرب کے اقامہ ہیں۔ سعودی وزارت حج کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ حج کے موقع پر وبائی خطرات کو روکنے اور کورونا کے انسداد کے لیے کیا گیا ہے۔ ہر سال پوری دنیا سے 25 لاکھ کے قریب عازمین حج سعودی عرب پہنچتے ہیں اور مناسک حج کی ادائیگی کے ساتھ روضہ رسولؐ پر حاضری دیتے ہیں۔ رواں برس مارچ میں جب کورونا کی وبا نے ہر ملک میں پھلنا شروع کیا تو سعودی عرب نے دنیا بھر کے مسلمانوں سے حج کی تیاری کچھ وقت کے لیے موخر کرنے اور عمرہ کے لیے سفر اگلی ہدایات تک روکنے کی ہدایت کی تھی۔ سعودی عرب میں تاحال کورونا کے 157000 متاثرہ افراد کا پتہ چلا ہے جبکہ جاں بحق ہونے والے افراد کی تعداد 1267 ہے۔ سعودی عرب میں مارچ کے مہینے میں شہریوں کی نقل و حرکت محدود کرنے کے لیے کرفیو نافذ تھا جو اتوار کے روز ختم کردیا گیا۔چنانچہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں موجود مساجد کو کھول دیا گیا ہے ،یوں ایک لمبے عرصے کے بعد شہریوں نے مساجد میں نماز کی ادائیگی کی ہے ۔ گزشتہ برس ایک کروڑ 90 لاکھ افراد نے عمرہ کی سعادت حاصل کی جبکہ حجاج کی تعداد 2.6 ملین تھی۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے حج اور عمرہ کو سعودی معیشت کے لیے مفید بنانے کی غرض سے 2030ء تک عمرہ زائرین اور حجاج کی تعداد بڑھا کر 30 ملین تک پہنچانے کی منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔ شہزادہ محمد بن سلمان کو بتایا گیا ہے کہ اس طرح سعودی عرب کو سوا تیرہ ارب ڈالر کی آمدنی ہو سکتی ہے۔یہ ہدف حاصل کرنے کے لیے سعودی حکومت مسلسل ایسے منصوبے تشکیل دے رہی ہے جن کے باعث معتمرین اور حجاج کو سہولیات مل سکیں ۔ اس وقت ایشیائ‘ یورپ‘ امریکہ‘ افریقہ‘ کینیڈا اور آسٹریلیا میں کورونا کی وبا عروج پر ہے۔ دنیا بھر میں کورونا سے متاثرہ افراد کی تعداد 92 لاکھ دو ہزار 551 ہو چکی ہے۔ 4 لاکھ 74 ہزار 668 افراد جان کی بازی ہار چکے جبکہ روبصحت ہونے والوں کی تعداد پچاس لاکھ ہونے کو ہے۔ تازہ ترین اعداد شمار کے مطابق اس وقت 57907 کورونا متاثرین کی حالت تشویشناک ہے۔ پاکستان سے ہر سال ڈیڑھ لاکھ سے زائد عازمین حج حجاز مقدس روانہ ہوتے ہیں۔ بھارت سے بھی لگ بھگ اتنے ہی افراد حج کے لیے جاتے ہیں۔جبکہ انڈونیشیا ،ملائیشیا اور بنگلہ دیش سے بھی کثیر تعداد میں لوگ حج کو جاتے ہیں، اس وقت صورت حال یہ ہے کہ پاکستان میں کورونا متاثرین کی تعداد دو لاکھ کے قریب پہنچنے والی ہے۔ ایسی صورت حال میں یہ امر مزید تشویش کا باعث بن جاتا ہے کہ دنیا کے کسی ملک کے پاس کورونا سے فوری بچائو کا کوئی حفاظتی انتظام‘ ویکسین یا دوا تاحال اس قابل نہیں ہو سکی کہ بڑے پیمانے پر انسانی آبادی کو اس سے محفوظ رکھا جا سکے۔ابھی زمانہ قریب میں اس بات کی امید بھی نہیں کہ ویکسین جلد تیار ہو کر مارکیٹ میں آجائے گی ،کئی ممالک نے انسانی جانوں کو بچانے کی خاطر مختلف اجتماعات پر پابندی عائد کر رکھی ہے ۔اس پابندی کا مقصد لوگوں کی جان ومال کی حفاظت کو یقینی بنانا ہے ۔ سعودی عرب نے جو فیصلہ کیا ہے اس کی کئی وجوہات ہیں۔ اللہ تعالی کا بھی فرمان ہے ’’جس نے ایک انسان کی جان بچائی تو گویا اس نے پوری انسانیت کی جان بچائی‘‘ اور تعلیمات نبوی ؐ میں بھی انسانی جان کی قدروقیمت پر بار بار بات کی گئی ہے۔ کسے وہ تاریخی حوالہ یاد نہیں جب مدینہ کے مسلمانوں نے نبی کریمؐ کی قیادت میں خانہ خدا پر حاضری صرف اس لیے ملتوی کر دی کہ اس موقع پر بدامنی کا اندیشہ تھا۔ یقیناحج بنیادی اسلامی فرائض میں سے ایک ہے لیکن یہ بھی شرط ہے کہ یہ صرف صاحب استطاعت افراد پر فرض ہے۔ پاکستان کے علماء کرام کو اور صاحب علم افراد کو اس نکتہ پر ضرور غور کرنا چاہیے کہ حج کے لیے رکھے گئے اخراجات کو ضرورت مند اور افلاس زدہ افراد کی مدد کے لیے خرچ کیا جائے۔جن لوگوں نے حج کا ارادہ کر رکھا تھا، سعودی حکومت کے اس فیصلے کے بعد وہ شرعی معذور سمجھے جائیں گے، علماکرام نے اس بارے فتوی بھی جاری کر دیا ہے، لہذا وہ لوگ جنہوں نے حج کے لیے پیسے اکٹھے کر رکھے تھے انھیں علما سے مشاور ت کر کے اس رقوم کو دین اسلام کے بہترین مصرف پر خرچ کرنا چاہیے تاکہ اللہ تعالیٰ ان کے نیک مقاصد کی بدولت انھیں اجرا عظیم سے نوازے ۔ قربانی کے مسائل بھی درپیش ہیں ۔لہذا حکومت پاکستان کو اس بارے بھی کوئی لائحہ عمل تشکیل دینا چاہیے تاکہ وہ لوگ جنہوں نے قربانی کے لیے جانور پا رکھے ہیںاور ان کی سال بھر کی روزی روٹی کا دارومدار اسی پر ہے ،منڈیاں نہ لگنے کے باعث وہ پریشان ہیں ،حکومت ان کے لیے آسانیاں پیدا کرے تاکہ وہ اپنے جانور فروخت کر سکیں ، سرکاری سطح پروزارت مذہبی کے زیر انتظام علماکرام کی زیر نگرانی اجتماعی قربانیوں کا بھی پروگرام ترتیب دیا جا سکتا ہے ،اس بارے علما کرام کا تعاون حاصل کیا جائے تاکہ وہ اپنے خطبات میں عوام میں اس کا شعور پیدا کریں،اس وقت بہت سے افراد بنیادی ضروریات کے لیے محتاجی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو حج کے لیے جمع رقوم سے ان افراد کی حاجات پوری کرنے کا سلسلہ شروع کردیا جائے۔