افریقہ میں اسلامی گروہوں نے مغربی سامراج کی نیندیں حرام کی ہوئی ہیں۔ فرانس اور اسکے اتحادیوں کی فوجیں نو سال افریقہ کے ملک مالی میں گزارکر پسپا ہوکر واپس جارہی ہیں۔ تاہم اقوام متحدہ کی بارہ ہزار افواج ابھی وہاں تعینات ہیں جن میں جرمنی اور برطانیہ سے تعلق رکھنے والے فوجی شامل ہیں۔ فرانس کے صدر ایمانویل میخواں کا کہنا ہے کہ انکے ملک کی فوجوں کو مالی کی بجائے ہمسایہ ملک نائجر اور خلیجِ گینیا میں تعینات کیا جاسکتا ہے۔ افریقہ کے متعدد اور ممالک کی طرح مالی فرانس کی نو آبادی تھا۔ اُنیس سو ساٹھ میںاِسے آزادی ملی۔ یہ دو کروڑ آبا دی کا ایک بہت غریب مسلمان ملک ہے جو خشک سالی کا شکاررہتا ہے۔ گزشتہ دس برسوں سے یہاں خانہ جنگی ہورہی ہے جس میں چھ ہزار سے زیادہ افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔ مالی کے شمالی علاقہ کے طوارق قبائل اپنے لیے الگ ملک کے لیے جدوجہد کررہے ہیں۔اسلامی گروہ بھی حکومت کے خلاف متحرک ہیں۔سنہ دو ہزار تیرہ میں جب طوارق قبائل نے اسکے دارلحکومت ’باماکو‘ پر حملہ کیا تھا تو فرانس نے ہمسایہ ملکوں میں اپنے دیگر فوجی اڈوں سے بہت سرعت کے ساتھ فوجی یہاں بھیج کر اس حملہ کو ناکام بنایا تھا۔ فرانس نے سینیگال ‘ چاڈ اور برکینو فاسو سے اپنے فوجی جوان اور ہیلی کاپٹرمالی روانہ کیے تھے۔ فرانسیسی فوج نے چند ہفتوں میںقبائلیوں اور اسلامی گروہوں کو پسپا ہونے پر مجبور کردیا تھا۔ ان کے قبضہ سے ٹمبکٹو اور گاؤ ایسے اہم مقامات کا قبضہ چھڑوایا تھا۔ اسوقت فرانس کے صدر فرانسوا آلا ند نے فخریہ انداز میں ٹمبکٹو کی سڑکوں پر گشت کیا اور مقامی باشندوں نے رقص کرکے ‘ فرانس کے جھنڈے لہرا کر انکا استقبال کیا تھا۔ اُسوقت سے فرانس کی فوج مالی میں براجمان تھی۔ فرانس اور امریکہ کا کہنا ہے کہ مالی میں القاعدہ اور داعش سے وابستہ جہادی گروہ سرگر م ہیں۔ یہ گروہ برکینو فاسو‘ چاڈ اور نائجر کے دور دراز علاقوں میں بھی موجود بتائے جاتے ہیں۔ مغربی ممالک کا کہنا ہے کہ یہ جہادی گروہ مغربی افریقہ کے ممالک پر قبضہ کرسکتے ہیں اور ممکن ہے یورپ تک پہنچ جائیں۔ انہیں شکست دینے کے لیے ان کی فوجوں کا اِس علاقہ میں ہونا ضروری تھا۔اسے انسداد دہشت گردی کے آپریشن کا نام دیا گیا تھا۔ مالی‘ چاڈ اور نائجر میں مستقل فرانسیسی فوجی اڈّے بنائے گئے۔اس خطہ میںفرانس کی فوجوں کی تعداد پانچ ہزار سے زیادہ تھی۔ جبکہ ایک ہزار امریکی فوجیں اور ڈرون طیارے بھی یہاں تعینات رہے۔ فرانس کے یورپی اتحادی ممالک چیک ریپبلک اور ایسٹونیا نے بھی اپنے ہزاروں کمانڈو ان ممالک میں تعینات کیے رکھے۔ لیکن اب ان مبینہ شدت پسند گروہوں کومکمل طور پر زیر کیے بغیر فرانس کو مالی سے نکلنا پڑ رہا ہے۔ سترہ فروری کو پیرس کے حکمرانوں نے اپنے یورپی اور افریقی اتحادیوں سے ملاقات کے بعد اعلان کیا کہ مالی کی حکومت اسکے کام میں رکاوٹ ڈال رہی ہے اس لیے وہ اپنے تقریباًڈھائی ہزارفوجی مالی سے نکال رہا ہے۔ یورپ کا خصوصی مشن بھی مالی چھوڑ رہا ہے۔ افریقہ کے علاقہ’ساحل ‘ میں فرانس نو سال تک فوجی کاروائیاں کرنے کے باوجود اسلامی گروہوں کی سرگرمیوں پر قابو پانے اور امن قائم کرنے میں ناکام ہوا۔ سنہ دو ہزار بیس میں ساحل کے دیگر ممالک بشمول برکینو فاسو‘ مالی اور نائجر میںچھ ہزار افرادلڑائی میں مارے گئے تھے۔ ان علاقوں سے اب تک پینتیس لاکھ لوگ خانہ جنگی اور سیکیورٹی فورسز سے تصادم کے باعث ہلاک ہوچکے ۔ گزشتہ دو برسوں میںفرانس اور اسکی اتحادی افواج پونے تین ہزار مقامی باشندوں کو ہلاک کرچکی لیکن مسلح گروہوں کو قابو نہیں کرسکی۔ مسلح افراد مالی سے نکل کر برکینو فاسو اور نائجر میں پھیل گئے اور جنوب میںساحلی علاقوں جیسے آئیوری کوست اور بنین میں سرگرم ہیں۔ ان ملکوں میں معاشی ترقی اور بہتر نظام حکمرانی ایسے اقدامات نہیں کیے جاسکے جن سے مسلح گروہوں میں نئی بھرتیوں کو روکا جاسکتا۔سنہ دو ہزار بیس میںمالی میں حالات بہت زیادہ خراب ہو گئے تھے۔ اُس سال اگست میں مالی کی فوج نے رانس نواز سویلین حکومت کو نکال کر اپنے من پسند لوگوں کی حکومت قائم کی لیکن ایک سال بعد انہیں بھی نکال کر فوجی افسروں نے خود اقتدار سنبھال لیااور اب تک حکومت کررہے ہیں۔ کچھ مدت سے فوجی جرنیلوں کے فرانسیسیوں سے تعلقات خراب چلے آرہے تھے۔ مالی کے عام لوگوں میں یہ تاثر پھیل گیاتھا کہ فرانس کے جہادیوں کے ساتھ تعلقات ہیںاور وہ ان سے ملا ہوا ہے۔ مالی کے لوگوں نے فرانس کے جھنڈے جلانا شروع کردئیے تھے۔ جگہ جگہ فرانس کے خلاف مظاہرے ہونے لگے ۔ حال میں فوجی حکومت نے فرانسیسی سفیر اور ہالینڈ کے کماڈوزکو ملک سے نکال دیا تھا۔ اس سال جنور ی میں ہمسایہ ملک برکینو فاسو میں بھی فوج نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ دونوں ملکوں میں فوج کا کہنا ہے کہ مسلح گروہوں سے لڑنے کیلئے ان کا خود حکومت میں آنا ناگزیر ہوگیا تھا۔ ایک طرف فرانس کو ساحل میں پسپائی کا سامنا ہے اور امریکہ کی اس علاقہ میںدلچسپی کم ہوئی ہے دوسری طرف خطہ میں رُوس کا عمل دخل بڑھ رہا ہے۔ جب برکینو فاسو میں فوج نے حکومت سنبھالی تواس کے حامیوں نے سڑکوں پر رُوسی جھنڈے لہرائے۔مالی کے فوجی حکمرانوں نے اپنے باغیوں سے لڑنے کے لیے رُوس کے پرائیویٹ سیکیورٹی کمپنی ویگنر گروپ کی خدمات حاصل کیں۔ ماسکو نے مالی میں حکومت کی مدد کے لیے اپنے فوجی ہیلی کاپٹر اور اسلحہ بھیجا ۔ رُوس نے متعدد افریقی ممالک کو اسلحہ اور ہتھیار فروخت کیا ہے۔ حالیہ کورونا وبا میں اس نے افریقی ممالک کو خیر سگالی کے طور پراپنی ویکسین سپوتنک بھی بڑے پیمانے پر مہیا کی۔ فرانس نے افریقہ کو نوآبا دی بنا کر جس طرح اس براعظم کا خون چوسا ہے اسکے باعث فطری طور پر یہاں کے لوگوںمیںفرانس کے خلاف جذبات پائے جاتے ہیں۔ رُوس نے خود کو فرانس کی نسبت عوام دوست ملک کے طور پرپیش کیا ہے۔افریقی طالبعلموں کو اپنے ملک میں تعلیم حاصل کرنے کیلئے وظائف دیے ہیں۔ساحل میں فرانس کی اسلامی گروہوں کے مقابلہ میں ناکامی اور مالی سے پسپائی اور افریقی براعظم میںماسکو کا بڑھتاہوا اثر و رسو خ مغربی سامراج کے لیے اچھا خاصا صدمہ ہے۔