اس بات پر تو پوری دنیا کا اجماع ہے کہ اسرائیل امریکہ کا وہ لاڈلا بچہ ہے جس کی ہر جائز اور ناجائز مانگ پوری کرنا امریکہ کی اولین ترجیحات میں شامل ہے۔ تاہم ڈونلڈ ٹرمپ وہ پہلے امریکی صدر ثابت ہوئے جنہوں نے اپنے دور صدارت میںاس لاڈلے بچے کو حد سے زیادہ پیار بھی کیااور اس پر مہربان بھی ہوئے۔لازمی بات ہے کہ امریکہ باالخصوص ٹرمپ کی اسرائیل کے ساتھ عنایات کی سب سے پہلی قیمت اُن فلسطینیوں کو چکانی پڑی ہے جو ستر سال سے زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔جبکہ اس بے جا پیاراور لاڈ کا دوسرا نقصان اب مشرق وسطیٰ کا پورا خطہ اٹھائے گا کیونکہ اب اسرائیل اس خطے کا تھانیدار بنتاجا رہاہے ۔ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے چار سالہ دور صدارت میں اسرائیل کے حق میں تین بڑے فیصلے کیے ہیں ۔پہلا فیصلہ یروشلم کے بارے میں تھا جس کو پچھلے سال انہوں نے اسرائیل کا دارالخلافہ تسلیم کرکے تل ابیب سے امریکی سفارتخانہ بھی وہاں منتقل کیا۔ دوسرا فیصلہ گولان کی پہاڑیوں کے بارے میںتھا جس کے اوپر بھی ٹرمپ نے سرکاری طور پر اسرائیل کا حق تسلیم کیا۔ ڈونلڈٹرمپ کا لاڈلے اسرائیل کے وسیع تر مفاد میں تیسرا فیصلہ چنددن قبل اٹھائیس جنوری کوسامنے آیا جو مغربی کنارے (ویسٹ بینک ) اور غرب اردن سے متعلق تھا۔وائٹ ہاوس میںاسرائیل کے وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کواپنے ساتھ کھڑا کرکے صدر ٹرمپ نے فلسطین اور اسرائیل تنازعے پر’’ڈیل آف دی سنچری‘‘ کا اعلان کردیا۔ یہ ڈیل دراصل مظلوم اور بے بس فلسطینیوں سے ڈونلڈ ٹرمپ کی ایک اور دغا بازی تھی ۔ ٹرمپ کے اس فارمولے کے مطابق نہ صرف مغربی کنارے پر اسرائیل کا حق تسلیم کیا گیاہے بلکہ غربِ اردن کے علاقے کو بھی اسرائیل کی ملکیت قراردیاگیا۔یادرہے کہ پانچ ہزار چھ سو پچاس کلومیٹر پر مشتمل مغربی کنارہ فلسطین کا وہ علاقہ ہے جو اقوام متحدہ اورعالمی برادری کے مطابق فلسطینیوں کی ملکیت ہے۔ 1993ء اور1995ء میں فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) اور اسرائیل کے درمیان ہونے والے اوسلو معاہدے کی روسے مغربی کنارے کو تین حصوںــاے ، بی اورسی میں تقسیم کیاگیاتھا ۔ایریا اے پورے مغربی کنارے کا اٹھارہ فیصد بنتاہے جو مکمل طور پر فلسطین کے زیرانتظام ہے ۔ایریا بی مغربی کنارے کا اکیس فیصد بنتاہے جس میں اگرچہ یہودیی آبادکاری نہیں ہے تاہم اس علاقے کی بیرونی سکیورٹی بھی اسرائیل کے ہاتھ میں ہے ۔ایریا سی مغربی کنارے کا اکسٹھ فیصد بنتاہے جومکمل اسرائیل کے کنٹرول میں ہے۔ اس علاقے میں ڈیڑھ لاکھ فلسطینی آباد ہیں لیکن گوناگوں پابندیاں ان پر لاگو ہیں جبکہ یہودیوں کی تعداد تین لاکھ ہے۔ 1967 ء کی عرب اسرائیل جنگ سے پہلے اگر ہم اس علاقے کا نقشہ دیکھ لیں تو وہاں پر اسرائیلی آبادکاریوں کانام ونشان تک دکھائی نہیںدیتا۔لیکن مذکورہ جنگ کے دوران اسرائیل نے نہ صرف مغربی کنارے اورگولان کی پہاڑیوں پر قبضہ کیابلکہ یروشلم کو اپنے عسکری انتظامیہ کے حوالے کیاتھا۔مغربی کنارے پرقبضہ جمانے کے بعد اسرائیل نے وہاں پردھڑادھڑ آبادکاری شروع کی ۔اسی اور نوے کی دہائیوں کے دوران یہ آبادکاری مزید بڑھی تاہم پچھلے بیس سال میں یہ آبادکاریاں ماضی کی نسبت دوگنا بلکہ سہ گنا ہوگئیں ہیں۔ایک محتاط اندازے کے مطابق اب تک اسرائیل نے وہاں پر چار لاکھ کے قریب اسرائیلیوں کوبسایاہے جووہاں کی کل آبادی کا چودہ فیصد بنتاہے ۔پیس ناوکی رپورٹ کے مطابق ’’گیواٹ زیوا‘‘کے نام سے قائم کی گئی بستی میں 2005 ء تک دس ہزار اسرائیلی آباد تھے لیکن اب اس بستی کی آبادی سترہ ہزار کو پہنچ گئی ہے جبکہ سب سے بڑی بستی’’ مودن الت ‘‘ میں اس وقت تہتر ہزار کے قریب یہودی آباد ہیں۔ یادرہے کہ وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو پچھلے دس سال سے اسرائیل کے وزیراعظم ہیں اور ستر فیصد آبادکاری ان ہی کے دورحکومت میں ہوئی ،جن کی تعداد انیس ہزار تین سوچھیالیس بنتی ہیں۔ مغربی کنارے پر قبضہ جمانے کے بعد اب تک اقوام متحدہ نے اپنی متعدد قراردادوں کی رو سے اسرائیلی آبادکاریوں کو غیرقانونی اور ناجائز قرار دیاہے۔ اسی طرح جنیوا کنونشن سے لیکرانٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس تک اورانٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس کے علاوہ پوری بین الاقوامی برادری اس علاقے میں اسرائیل کی طرف سے ہونے والی آبادکاریوں کو ناجائز تسلیم کرتی رہی ہے لیکن امریکہ اور اس کے حواری اقوام متحدہ کی قراردادوں اور پوری بین الاقوامی برادری پر بھاری ثابت ہوئے ہیں۔اسی طرح بارہ سوکلومیٹرپرمحیط غرب اردن وہ علاقہ ہے جس میں فلسطینی مسلمان یہودیوںسے پانچ گناہ زیادہ ہے (یعنی پینسٹھ ہزار فلسطینی اور گیارہ ہزار یہودی اس وادی میں آباد ہیں)۔اپنے نام نہاد امن فارمولے کے بارے میںصدر ٹرمپ یہ دلیل دیتے ہیں کہ اب فلسطینی علاقہ پہلے کی نسبت دوگناہوجائے گالیکن فلسطینیوں کے مطابق کہ اس پلان کی روسے انہیں تاریخی طورپر ارض فلسطین کا صرف پندرہ فیصد علاقہ بچتاہے۔ ٹرمپ کے اس پلان میں یروشلم کو بھی اسرائیل کا غیر منقسم اور غیر مشروط دارالحکومت قرار دیاہے حالانکہ سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی نے 1967 ،1980 اور1990میں متعدد قراردادیں پاس کرکے اسرائیلی قبضے کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کہاہے۔بہر کیف ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے لاڈلے اسرائیل کیساتھ وفاداری کی انتہا توکردی لیکن کیافلسطین کے اردگرداس خطے میں آباد درجن بھر عرب مسلمان ممالک اپنے مظلوم ومقہور فلسطینی بھائیوںسے وفا داری نبھانے کے موڈ میں نظرآتے ہیں ؟کیونکہ ان ملکوں کے حکمران چند مفادات کی خاطر الٹا اس ناجائز ریاست کے ہمنوا دکھائی دیتے ہیں جس کی پشت پر امریکہ اور برطانیہ بہادر ستر سالوں سے کھڑے ہیں۔ اپنوں کی اس بے وفائی کے بارے میں ایک شعر ملاحظہ فرمائیے: تور عربیان سہ معنا اور سپین عربیان سہ معنا؟ وخوڑ سرو لیوانو فلسطین، عربیان سہ معنا؟ ترجمہ: کالے اور گورے عرب آخر کس مرض کی دوا ہے کہ فلسطین کو اسرائیلی بھیڑیوں نے نوچ نوچ کرکے رکھ دیاہے ؟