یکم فروری 2022کوحقوق انسانی کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی دو سو سے زائد صفحات پر مشتمل ر پورٹ جاری کردی۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کو اس رپورٹ کومرتب کرنے میں چار برس لگ گئے اس رپورٹ میں کہاگیاکہ اسرائیل فلسطینیوں کے خلاف’’نسل پرستانہ رویہ‘‘اپنارہاہے۔ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ اسرائیلی ریاست نے جس’’ظلم اور تسلط کے نظام‘‘کے تحت فلسطینیوں پر حکومت کی ہے وہ اپرتھائیڈ'' یعنی نسل پرستی کی بنیاد پر تفریق برتنے کی بین الاقوامی تعریف پر پورا اترتا ہے۔ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اسرائیل پر فلسطینیوں کے خلاف الگ تھلگ رکھنے، بے دخل اور شامل نہ کرنے کا ایک ایسا نظام نافذ کرنے کا الزام لگایا ہے جو کہ انسانیت کے خلاف جرائم کے مترادف ہے۔ تنظیم نے کہا ہے کہ فلسطینیوں کے خلاف جبر اور تسلط کا نظام نافذ کرنے کے لیے اسرائیلی حکام کو جوابدہ ٹھہرانا چاہیے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس رپورٹ کے لیے’’ہیومن رائٹس واچ اور اسرائیلی حقوق کی تنظیم‘‘بی ٹی سلیم' جیسی دیگر معروف انسانی حقوق کے گروپوں کے ساتھ مل کر کا م کیا۔ اس میں اسرائیل پر یہ الزام لگایا گیا ہے کہ وہ ایک’’نسل پرست‘‘ریاست کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ایمنسٹی کی رپورٹ 1948 میں اسرائیلی ریاست کے قیام کے اعلان کے بعد سے، اسرائیل میں فلسطینی آبادی پر ایک تحقیقاتی تاہم مختصر تاریخ پیش کرتی ہے۔ اس کے مطابق اس دوران تقریباً سات لاکھ فلسطینی، یعنی موجودہ اسرائیل کی تقریباً 80 فیصد فلسطینی آبادی، یا تو وہاں سے نکل گئی یا پھر اسے بے دخل کر دیا گیا۔ اس میں سے بیشتر فلسطینی پڑوسی ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔فی الوقت اسرائیل کی جو کل 94 لاکھ کی آبادی ہے اس میں 20 فیصد فلسطینی ہیں۔ لیکن اگر مغربی کنارے اور غزہ کو بھی اس میں شامل کر لیا جائے تو یہودی اور عرب آبادی تقریباً برابر ہو جائے گی۔ 2005 میں اسرائیل نے غزہ سے اپنی فوج واپس بلا لی تھی اور آباد کاروں کو بے دخل کر دیا تھا۔ عسکریت پسند گروپ حماس، جسے امریکا اور یورپی یونین نے دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہیں، 2007 سے ہی غزہ پر حکمرانی کر رہی ہے۔انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ مغربی کنارے اور غزہ کا بکھرا ہوا تمام علاقہ ایک ایسے نظام کا حصہ ہے جو اسرائیلی ریاست کو بحیرہ روم سے لے کر دریائے اردن تک کی سرزمین کو کنٹرول کرنے کے قابل بناتا ہے۔رپورٹ کے مطابق کچھ فلسطینیوں نے اسرائیل میں کاروبار، قانون، طب اور تفریحی شعبے میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے، تاہم اس کے باوجود ان کے حالات اور ملازمت کے امکانات کے ساتھ ساتھ جسمانی یا سماجی نقل و حرکت کے امکانات بھی کم ہوتے جا رہے ہیں۔ ایمنسٹی کی رپورٹ میں اسرائیل کے اندر عربوں کے خلاف ہونے والے امتیازی سلوک، غزہ کی پٹی کی تباہ کن ناکہ بندی، اور مغربی کنارے کے ان حصوں کے عملاً الحاق کا بھی جائزہ لیا گیا ہے، جہاں اسرائیل تیزی سے یہودی بستیوں کی تعمیر اور توسیع کر رہا ہے۔ جرمنی اور فرانس سمیت بین الاقوامی برادری کے بہت سے افراد نے ان بستیوں اور ان کی توسیع کو عالمی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اس پر تنقید بھی کی ہے۔ اس رپورٹ میں فلسطینیوں کی اراضی اور املاک کی تخصیص، ماورائے عدالت قتل، لوگوں کی زبردستی نقل مکانی، اور شہریت کے حقوق سے انکار جیسے دیگر امور کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔اسرائیل نے ''نسل پرستی کی بنیاد پر تفریق'' کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں عرب اسرائیلیوں کو مساوی حقوق حاصل ہیں۔ اسرائیل نے انسانی حقوق کی تنظیموں کے بارے میں ہی اپنی دیرینہ موقف میں مزید سختی کرتے ہوئے انہیں خود ''اپرتھائیڈ'' قرار دے دیا۔اس رپورٹ کے اجراء سے قبل ہی اسرائیل کی وزارت خارجہ نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا، ''اس کی سخت زبان اور تاریخی پس منظر کو مسخ کرنے کا مقصد، اسرائیل کو برا دکھانے اور سامیت دشمنی کی آگ میں ایندھن ڈالنے کے لیے ہے۔ لیکن ایمنسٹی کے سیکرٹری جنرل اگنیس کالمارڈ نے اسرائیل کے الزامات کو ''بے بنیاد حملے'' بتا کر مسترد کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ جوابدہی سے بچنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں اور، ''یہ تفتیش سے بچنے کی مایوس کن کوشش ہے۔اسرائیلی وزیر خارجہ یائر لیپیڈنے کہا، ''اسرائیل کامل تو نہیں ہے، لیکن یہ ایک جمہوریت ہے، جو بین الاقوامی قانون کا پابند اور جانچ کے لیے کھلا ہے۔1990ء کی دہائی میں، اسرائیل نے امن عمل کے دوران فلسطینی اتھارٹی کو کچھ حد تک خود مختاری دی تھی، جو اوسلو معاہدے کے بعد طے ہوا تھا۔ مغربی کنارے کے کچھ حصوں پر حکومت کرنے والی فلسطینی اتھارٹی نے ایمنسٹی کی اس رپورٹ کا خیر مقدم کیا ہے۔ جرمنی میں، ملک کے یہودیوں کے واحد ہفتہ وار اخبار نے اس رپورٹ کو جھوٹ پر مبنی قرار دیا ہے۔ اس کا کہنا ہے، ''اسرائیل کوبار بار جنوبی افریقہ کی سابق بدنام زمانہ نسل پرست حکومت کے ساتھ موازنہ کر کے اسے بدنام کیا جاتا ہے۔لیکن ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس الزام کی بھی سختی سے تردید کی اور کہا کہ اس کی رپورٹ میں اسرائیل کا جنوبی افریقہ کی نسل پرستی سے کوئی موازنہ نہیں کیا گیا ہے۔