18اگست 2018 اک خواب قریۂ تعبیر میں کِھلا تھا۔! 22برس کی ریاضت اور مسلسل جدوجہد کے بعد بیاض وقت پر عمران خان نیازی۔ وزیر اعظم پاکستان کا نام لکھا جا رہا تھا۔ یہ 22برس کی ریاضت کا انعام تھا یا آزمائش ! اس لیے کہ حکمرانی کسی بھی طور پھولوں کی سیج نہیں ہوتی۔ اللہ کا ایک ایسا انعام جو آزمائش کی صورت انسان کا امتحان لیتا ہے اور اب یہ تاج حکمرانی ہی عمران خان کے لیے ایک آزمائش کا سفر ہے! سیاہ شیروانی میں ملبوس عمران خان جو کل کا کرکٹر تھا اور کرکٹ کے میدان میں جس کے بائولنگ سٹائل کی ایک دنیا دیوانی تھی۔ آج ایوان صدر میں سیاہ شیروانی زیب تن کئے پروقار انداز میں حلف کے مقدس الفاظ دھراتا ہوا۔ چہرے پر ہمیشہ کی طرح ایک شرمیلی مسکراہٹ اور شکرانے کی جھلک عمران خان کی زندگی کا یہ ایک تاریخی لمحہ تھا۔ ایک تاریخی دن تھا کئی حوالوں سے منفرد اور یادگار۔ دنیا کا پہلا کرکٹر جو کسی ملک کا منتخب وزیر اعظم بنا! میری خواہش اور شدید خواہش کہ کاش ہم اس لمحے کو سیاسی تعصبات سے ہٹ کر دیکھیں اور ایک شخص کی جدوجہد مستقل مزاجی اور عزم مصمم کو سراہیں کہ ایک کھلاڑی ایک کرکٹر بغیر کسی سیاسی پس منظر کے طور ایک روز ایک نئی سیاسی جماعت کی بنیاد رکھتا ہے اور پھر اگلے 22برس تک سیاست کے کارزار میں مسلسل ایک چومکھی جنگ لڑتا ہے مگر ڈٹا رہتا ہے۔ پاکستان میں کسی Political legacyکے بغیر مین سٹریم کی سیاست کرنا ناممکنات میں شمار ہوتا تھا۔ پھر دو بڑی مضبوط سیاسی جماعتوں کی موجودگی۔ جو اپنے پیچھے کسی نہ کسی صورت سیاسی وراثت کا پس منظر رکھتی ہیں ان کا مقابلہ کرنا کسی طور آسان نہ تھا۔ عمران خان اپنی تمام تر خوبیوں کے ساتھ ایک بندہ بشر ہے بے شمار خامیاں کوتاہیاں سیاست کے اس سفر میں ان گنت ایسی باتیں جن سے شدید اختلاف کیا جا سکتا ہے اور میں نے ہمیشہ اپنے کالموں میں اپنا اختلافی نوٹ دیانتدارانہ انداز میں لکھا اس لیے کہ میں بھی اسی جنریشن سے ہوں جس کو عمران خان نے ایک بہتر اور انصاف پر مبنی پاکستان کے خواب دکھائے میں بھی اس جنریشن سے ہوں جس نے عمران کو بطور کرکٹر چاہا پسند کیا اور پھر کینسر ہسپتال بنا کر جن کے دلوں کو جیتا۔ اس لیے یہ ضروری تھا اور ضروری رہے گا کہ ہم قلم کار اور تجزیہ نگار پاکستان کے لوگوں کی امید اور توقعات کا پہرہ دیانتداری سے دیں۔ سچ لکھیں عمران خان بطور وزیر اعظم اگر اپنے اصولوں اورقوم سے کیے ہوئے وعدوں اور دعوئوں سے انحراف کریں تو اسے ان کی سیاسی مجبوری کہہ کر اس کا دفاع نہ کریں بلکہ عمران خان سے اپنی تمام تر وابستگی کے باوجود دیانتدارانہ تجزیہ کرنے کا حوصلہ رکھیں۔ کیونکہ وزیر اعظم عمران خان سے امیدیں وابستہ کرنے والے کروڑوں پاکستانیوں کی سب سے بڑی خواہش اب یہی ہے کہ وہ سیاسی مجبوری کے طوق کو گلے سے اتار پھینکیں! ہر فیصلہ پاکستان اور پاکستان کے لوگوں کے لیے کریں ایسے سیاسی سمجھوتے اور کمپرو مائز نہ کریں جس سے ان کے ویژن کی انفرادیت پر حرف آئے۔ ہمارا خواب انصاف پر مبنی ایک بہتر پاکستان ہے جہاں ایک غریب پاکستانی کی عزت نفس بھی محفوظ رہے اس کے لیے بھی حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو اسے بھوک میں روٹی اور بیماری میں خالص دوا سہولت سے ملتی رہے میری خواہش ہے کہ عمران خان اپنی وزارت عظمیٰ کے پانچ سالوں میں ہر روز صبح جب وزیر اعظم پاکستان کے دفتر میں قدم رکھیں تو اس سے پہلے وہ 22برس پیشتر کی وہ صبح ضرور یاد رکھیں جب انہوں نے ایک نئی سیاسی جماعت تحریک انصاف کی بنیاد رکھی تھی اور ان 22برسوں میں وہ تمام وعدے وہ تمام خواب جو انہوں نے سٹیٹس کو سے تنگ پاکستانی قوم کی جھولی میں ڈالے انہیں ایک بار پھر سے دل میں دھرا لیں۔اپنے خواب کا اعادہ ہر صبح کریں تاکہ سفر کی سمت درست رہے کیونکہ یہ اقتدار کا نشہ یہ طاقت کا خمار کوئی کم جان لیوا ہے۔ ہوش و حواس‘ فہم و فراست اصول و ضوابط قاعدے اور قانون سب اس کی تیز آندھی میں زرد پتوں کی طرح اڑنے لگتے ہیں۔ اقتدار کی راہداریوں میں مفاد کی ہوائیں چلتی ہیں۔ اصول اور ضابطے کے دیے ان ہوائوں کے آگے کم ہی ٹھہرتے ہیں! ہم نے برس ہا برس یہی دیکھا ہے کہ سیاسی جماعتیں اپوزیشن میں ہوںتو انہیں عوام کا درد محسوس ہوتا ہے یا پھر یہ بھی سیاست کی مجبوری ہوتی ہے۔ حکومت مل جائے تو عوام اور اس کے مسائل سب پس پشت چلے جاتے ہیں۔ مگر اس بار پاکستانی قوم یہی امید لگائے بیٹھی ہے کہ کپتان ایسا نہیں کرے گا۔ وہ اپنے وعدوں کی لاج رکھے گا کاش کہ عمران خان وزیر اعظم پاکستان عوام کی توقعات پر پورا اتر سکے۔عمران خان بلا شرکت غیرے کئی دہائیوں تک اس قوم کا ہیرو رہا ہے! ایک سپورٹس مین اور کرکٹر کی حیثیت سے جتنی محبتیں اور دلی وابستگیاں عمران خان کے حصے میں آئی ہیں کوئی دوسرا ان کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ 92کا ورلڈ کپ اور پھر کینسر ہسپتال بنا کر عمران خان نے لوگوں کے دل جیتے اس کی کرزمیٹک شخصیت کے سبھی اسیر رہے ہیں مگر پھر جب بائیس برس پیشتر عمران خان نے کوچہ سیاست میں قدم رکھا تو اس کے حصے میں آنے والی محبتیں سیاسی وابستگی کی بنیاد پر تقسیم ہو گئیں۔ ایک سیاستدان کی حیثیت سے اس کے حصے میں الزامات اور دشنام طرازیاں بھی آئیں۔ اعتراضات بھی آئے اور یہی کوچہ سیاست کا چلن کہ رہرو راہ محبت کی طرح‘ ہررو راہ سیاست پر بھی دوچار نہیں‘ کئی سخت مقام آتے ہیں بلکہ وہ تو ہمہ وقت شیشے کے گھر کا مکین ہوتا ہے۔ اور اگر وہ اصول کی بات کرے انصاف کا تذکرہ کرے قاعدوں اور ضابطوں پر گفتگو کرے تو گویا وہ اپنی ذات کے لیے ایک کڑا معیار بنا لیتا ہے یہی عمران خان کے ساتھ ہوا ہے۔اب جبکہ وہ اس ملک کے حکمران ہیں تو لوگ انہیں اسی معیار پر پرکھنے اور جانچنے کی کوشش کریں گے جو انہوں نے دوسروں کے لیے بنایا نہ صرف ان کے لیے بلکہ ان کی ٹیم میں شامل تمام لوگوں کو اس کڑے معیار پر پورا اترنا ہو گا۔ عمران خان تو 22برس کی جدوجہد اور ریاضت کے بعد اس مقام تک پہنچے ہیں جبکہ ان کے ساتھیوں میں بیشتر کئی دوسری سیاسی جماعتوں کے دہلیز نشین رہ چکے ہیں۔ کچھ ایسے ہیں جو اس سیاسی پارٹی میں جا کر فٹ ہو جاتے ہیں جو حکومت بناتی ہے ایسے لوگ مفاد کی سیاست کے شہسوار ہیں اور عمران خان کو ایسے ہی مفاد پرستوں سے بچنا ہو گا۔ اس لیے کہ مفاد پرستوں کا تو کچھ ہی دائو پر نہیں لگا ہوا جبکہ عمران خان کی تو بائیس برس کی ریاضت دائو پر لگی ہے۔ ایک مسلسل جدوجہد کے بعد وہ اس مقام تک پہنچے ہیں۔ پروفیسر سحر انصاری کا یہ شعر وزیر اعظم عمران خان پر صادق آتا ہے ؎ فصیل شہر میں پیدا کیا ہے در میں کسی بھی بابِ رعایت سے میں نہیں آیا