مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے فیض صاحب کی شاعری جانے کیوں دل کھینچتی ہے۔ ایک گو نہ ربط تو اقبال سے بھی ہے میں کوئی تنقیدی مضمون نہیں لکھنے بیٹھا۔ بس یونہی خیال آ گیا کہ انہی دنوں میں فیض امن میلہ ہوا ہے جس کی ہمیں ہوا تک نہیں لگی کہیں ہم بھی اس میلہ میں شریک ہوا کرتے تھے۔ اب نئی جنریشن ہے مگر مصیبت فیض وہی ہیں جو کہ تھے ایک دن دانشوروں کی محفل میں کسی نے شہزاد صاحب کی بات دہرائی تو ہمیں بھی یاد آیا کہ واقعتاً انہوں نے فیض امن میلہ کے حوالے سے کہا تھا کہ اقبال تو قوالوں کی مارسہہ گیا مگر لگتا ہے یہ میلے فیض کو برباد کر دیں گے یا فیض صاحب ان میلوں ٹھیلوں میں گم ہو جائیں گے۔ مجھے یونیورسٹی زمانے کا ایک شاندار فیض میلہ یاد ہے جس میں رات کو مشاعرہ ہوا اور اس میں ہندوستان سے مجروح سلطانپوری سمیت کچھ شاعر آئے تھے ۔جناب احمد ندیم قاسمی پڑھنے کے لئے آئے تو کچھ جیالوں نے شور مچا دیا‘ ہلڑ بازی کی اور قاسمی صاحب کے ساتھ بدتمیزی کی۔ کشور ناہید غالباً کمپئرنگ کر رہی تھیں۔ سلیمہ ہاشمی اور منیزہ ہاشمی موجود تھیں احمد ندیم قاسمی نے واک آئوٹ کیا تو سلیمہ ہاشمی لوگوں نے انہیں روکنے کی کوشش کی۔ بہت سے لوگوں نے اس بدتمیزی پر احتجاج بھی کیا۔ یہ برے رویوں کا آغاز تھا اس کے باوجود کہ میں خود فیض صاحب کا مداح ہوں اور یہ بھی جانتا ہوں کہ فیض صاحب جیسے منکسر المزاج اور عاجزی پسند شاعر کی روح تڑپ اٹھی تھی۔ فیض تو دشمن کی بھی عزت نفس کا خیال کرتے تھے۔ میں یہ بتاتا چلوں کہ موجودہ امن میلہ کے میں خلاف ہرگز نہیں ہوں کہ یہ ایک اچھی سرگرمی ہے اس میں ہمارے دوست بابا نجمی بھی تھے اور کئی پیارے شاعر میں خود ان میلوں میں جاتا رہا ہوں مگر اس وقت اسلم گورداسپوری‘ ستارسید ‘ گلزار بخاری اور کئی دوسرے سینئر شعرا آئے تھے۔ مجھے تو سیالکوٹ میں ہونے والا فیض امن میلہ بھی یاد ہے جو ہمارے دوست سرور ارمان نے 1986ء میں کروایا تھا اور اس مشاعرے میں ایلس فیض بھی آئی تھیں۔یہاں سے ہم عارف عبدالمتین کے ساتھ وہاں پہنچے تھے ‘رات وہیں رکے تھے۔ کہنا میں یہ چاہتا ہوں کہ میلہ فیض صاحب کے شایان شان ہونا چاہیے۔ ان کے ہاں کس قدر سلیقہ ‘ قرینہ اور وقار تھا۔ وہ فنکاروں سے محبت کرتے تھے ان کے لئے ہونے والے پروگراموں میں افراط و تفریط بہت زیادہ ہے۔ جو فیض فیسٹیول ہوتا ہے اس میں ایلیٹ کلاس اور ممی ڈیڈی لوگ آتے ہیں اور امن میلہ میں کچھ بالکل دوسری طرح کے۔ میرا خیال ہے کہ فیض صاحب کے حوالے سے سب کو مدعو کرنا چاہیے۔ خیر یہ تو وہ تمہید ہو گئی جسے تمہید طولانی کہتے ہیں۔ فیض صاحب پر بات کرنے کا موجب ایک کتاب ہی بنی جس کا نام ’’واقعات‘‘ ہے اسلم کمال نے تحریر کی۔ کچھ باتیں جو دراصل معلومات کی تجدید نہیں زیادہ دلچسپ انداز میں سامنے آئیں۔ فیض صاحب کے والد محترم اقبال کے قریبی دوست تھے۔ انہیں کا خط لے کر فیض لاہور میں اقبال سے ملے تھے اور یوں اقبال نے انہیں یہاں گورنمنٹ کالج میں داخل کروایا۔ سیالکوٹ کے مرے کالج میں اقبال بھی پڑھے تھے اور فیض بھی۔ پہلے فیض احمد فیض کا نام فیض احمد خان تھا۔ فیض صاحب کے اساتذہ میں سب سے اوپر نام ایم ڈی تاثیر کا ہے۔ ایم ڈی تاثیر کا نکاح انگریز خاتون سے علامہ اقبال نے پڑھایا تھا۔ پھر اس خاتون کی بہن یعنی ایلس کا نکاح فیض صاحب سے ہوا گویا ان اصحاب میں بڑی قربتیں تھیں۔ ساتھ مجھے یہ بھی یاد آیا کہ میرے کالج اسلامیہ کالج سول لائنز میں باقاعدہ ایم ڈی تاثیر کے نام پر شمع تاثیر مشاعرہ ہوتا ہے جس کا کنوئنر یعنی انچارج میں تھا مجھ سے پہلے امجد اسلام امجد۔ یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ امرتسر میں فیض صاحب کا گھر بہت مذہبی تھا۔ گھر والے انہیں حافظ بنانا چاہتے تھے مگر فیض صاحب تین سپاروں کے بعد چھوڑ گئے جس کا انہیں قلق رہا۔ خود فیض صاحب بھی بتاتے ہیں کہ مذہب ان کی گھٹی میں پڑا ہوا تھا۔ ڈاکٹر محمد اجمل نیازی نے بھی فیض صاحب سے پوچھا تھا کہ ان کے ہاں صوفیا اندازپایا جاتا ہے۔ فیض صاحب نے جواب میں کہا تھا کہ وہ اس بارے میں کیا کہہ سکتے ہیں لیکن یہ ضرور کہا کہ ان کا رشتہ تو صوفیا ہی سے بنتا ہے۔ بہت سے لوگ فیض صاحب کے اس مذہبی پہلو پر جزبز ہوئے ہیں مگر یہ تعلق حقیقت ہے میں نے ایوب مرزا کی فیض صاحب پر کتاب پڑھی ہے جس میں لکھا ہے کہ فیض صاحب کو کوئی ایوارڈ ملا تو انہوں نے استفسار کیا کہ کیا اس ایوارڈ کے ساتھ رقم بھی ہے ؟ جب معلوم ہوا کہ رقم بھی ساتھ ہے تو فیض صاحب نے کہا ٹھیک وہ ایوارڈ لیں گے تاکہ ملنے والے پیسے اپنی کالاقادر والی مسجد کو دیں گے۔ ایک انٹرویو میں فارغ بخاری صاحب نے بھی تو فیض صاحب سے پوچھا تھا انہوں نے جامعہ اشرفیہ کے کورس کی تکمیل بھی تو کی؟ فیض صاحب نے بتایا کہ جب وہ اورنٹیل کالج میں ایم اے عربی کر رہے تھے تو ان دنوں نیلا گنبد میں مفتی محمد حسین کا درس ہوتا تھا۔ وہ مکمل کورس انہوں نے کیا تھا جو ایک سال کا تھا اس کورس کے دوران انہوں نے مسند امام احمد بن حنبل بھی پڑھی تھی۔ ایک اور بات واقعات ہی میں سامنے آئی کہ فیض صاحب نے قتل گاہیں کی ترکیب باندھی تو میرا جی نے اعتراض کیا اور جب فیض صاحب یہ کلام سید سلیمان ندوی کو دکھیا اور میرا جی کا اعتراض بتایا تو ندوی صاحب نے کہا مقتل گاہیں میں کیا خرابی ہے؟یہ بالکل درست ہے انہوں نے سند کے طور حافظ شیرازی کا دوہا پڑھا: کس نہ دانست کہ منزل گہہ مقصود کجا است میں بتانا یہ چاہتا ہوں کہ بڑے لوگ سچ مچ کتنے بڑے لوگ تھے کہ فکری اختلافات کے باوجود کس طرح آپس میں میل جول رکھتے تھے اور سیکھتے تھے۔ میرا یہ سب کچھ لکھنے کا ایک اور مقصد یہ ہے کہ ہمارے نوجوان اس سے ترغیب پائیں کہ وہ بڑوں کے قریب آئیں اس طرح وہ خود بھی بڑے ہو جائیں گے۔ مجھے تو اپنی یونیورسٹی کا زمانہ یاد آ رہا ہے کہ ہم کہاں نچلے بیٹھا کرتے تھے۔ شہزاد احمد صاحب مجھے بے چین روح کہتے تھے۔ ابھی منیر نیازی کے پاس بیٹھے ہیں تو دوپہر کو احمد ندیم قاسمی کی محفل میں پہنچ گئے اور پھر شام کو شہزاد احمد شہزاد۔ ان کے ہاں تو ہمارے مستقل ڈیرے تھے۔ ہفتہ بعد سیف الدین سیف کا سر کھاتے تھے اور تنگ کرتے تھے کہ جو نظمیں انہوں نے گانے بنا دی ہیں میں نے پوری سنائیں۔