اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس کل ہونے والی ہے۔ چند ہفتے پہلے جب اے پی سی بلانے کی کوشش ہو رہی تھی تو یہ خیال عام تھا کہ اپوزیشن متحد ہونے والی ہے۔ اب جبکہ اس کی تاریخ کا اعلان ہو گیا اور کانفرنس کل ہونے والی ہے تو فضا اتنی ’’اتحاد آفریں‘‘ نہیں ہے۔ مسلم لیگ کے صدر شہباز شریف کے تیور کچھ بدلے بدلے سے ہیں۔ ان کی بجٹ تقریر بھی بظاہر مخالفانہ لیکن بباطن بجٹ کے لئے موافق تھی۔ خیر‘ یہ تو ایک اندازہ ہی ہے لیکن اس دوران ایک معاصر کی اپنے ذرائع سے خبر بھی سامنے آ گئی۔ دو روز پہلے شائع ہونے والی اس خبر میں بتایا گیا ہے کہ شہباز شریف حکومت مخالف تحریک کا حصہ نہیں بنیں گے اور مولانا فضل الرحمن سے فاصلہ رکھیں گے۔ معاصر کی رپورٹ کے مطابق شہباز شریف مولانا کو دور ہی سے سلام کرنے میں عافیت سمجھتے ہیں کیونکہ وہ عالمی طاقتوں کی ناراضی مول نہیں لینا چاہیے۔ ٭٭٭٭٭ عالمی طاقتوں سے کیا مراد ہے؟ پاکستان میں جب عالمی طاقتیں کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے تو دراصل یہ صیغہ واحد کو احترماً صیغہ جمع میں بدلنے والا معاملہ ہوتا ہے۔ ایک سکھ دوسرے سکھ کو کہیں جاتا دیکھے تو یوں آواز دیتا ہے‘ ایہہ فوجاں کتھے جارھیاں نہیں۔ یعنی یہ فوجیں کہاں جا رہی ہیں حالانکہ وہ تو محض ایک عدد سکھ ہوتا ہے۔ عالمی طاقتیں دراصل امریکہ کا دوسرا نام ہے۔ سوال یہ ہے کہ فضل الرحمن کو عالمی طاقتیں اتنا ناپسند کیوں کرتی ہیں؟ دو روز پہلے ہی ایک ٹی وی چینل پر محب وطن اینکر فریاد کر رہے تھے کہ اگر مولانا فضل الرحمن ہزاروں دینی طلبہ کو لے کر آ گئے تو ہم’’عالمی طاقتوں‘‘ کو کیا منہ دکھائیں گے؟ کہیں امریکہ ماضی کا اسیر تو نہیں؟ مولانا فضل الرحمن کا تعلق جے یو آئی سے ہے جس کے بزرگوں نے برطانوی ہند میں برطانیہ کی مزاحمت کی تھی اور مولانا کی جماعت نے افغانستان میں روس کے خلاف امریکی قیادت والے اسلامی جہاد کی مخالفت بھی کی تھی جبکہ جے یو آئی کے ایک دھڑے نے امریکی قیادت میں اسلامی جہاد کی بھر پور مدد کی تھی۔ ٭٭٭٭٭ بہت سے لمحات تفکر میں سے یہ محض ایک لمحہ فکریہ ہے کہ امریکہ کے دیسی نیاز مند جس بھی مولانا کا ذکر کرتے ہیں گالی کا استعمال کیوں کرتے ہیں۔ ان نیاز مندوں میں سے کچھ ہمارے ’’اسلامی صحافی بھائی‘‘ بھی ہیں(سبھی اسلامی صحافی بھائی نہیں) یہ ’’کچھ‘‘ اسلامی صحافی بھائی جب بھی مولانا کا ذکر کریں گے انہیں مولانا ڈیزل لکھیں گے اور کچھ دوسری ناگفتہ بہ باتوں کو گفتنی کا روپ دیں گے۔ کئی برس پہلے کی بات ہے غالباً سات آٹھ سال ہو گئے۔ عباس اطہر میرے گروپ ایڈیٹر ہوا کرتے تھے۔ ایک اسلامی صحافی بھائی نے جو محب وطن حلقوں میں اوپر تک رسائی رکھتے تھے‘ مجھے بتایا کہ مولانا فضل الرحمن آصف زرداری سے ہر مہینے کروڑوں کا بھتہ لیتے ہیں۔ اسلامی صحافی بھائیوں کی برادر ہڈمیں ان دنوں میں بھی شامل تھا‘ چاہے طبقہ ادنیٰ میں ہی تھا۔ پھر کیوں نہ اپنے اس عظیم المرتبت اسلامی بھائی کی بات کا اعتبار نہ کرتا۔ مرحوم عباس اطہر آصف زرداری کے بہت قریب تھے۔(زرداری ان دنوں صدر مملکت تھے) انہوں نے ذمہ داری سے اس خبر کی تردید کی لیکن میں نے ان کے بجائے اسلامی صحافتی بھائی کی بات کا اعتبار کرنا ایمانی تقاضے کے قریب سمجھا اور ایک کالم میں مولانا فضل الرحمن کو مولانا کروڑی مل کا خطاب دے دیا۔ کچھ دنوں بعد مجھے عباس اطہر مرحوم نے کہا ‘ مولانا کا شکوہ آیا ہے کہ آپ مجھے جو بھی گالی دیں‘ ہندو تو نہ بنائیں۔ میں نے اس کے بعد سے انہیں کروڑ مل لکھنا بند کر دیا حالانکہ ’’ہندو‘‘ بنانے والی بات محض غلط فہمی تھی۔ کروڑ مل ہندو نہیں‘ معنوی لفظ ہے جس طرح کروڑ پتی بھی ہندو نہیں‘ ہندی اصطلاح ہے۔ کروڑ‘ پتی‘ مل ‘ تینوں ہندی لفظ ہیں۔ ٭٭٭٭٭ کوئی تین سال پہلے کی بات ہے جب ایک باخبر لیکن دیندار اور راست گو بزرگ سے ملنے کا اتفاق ہوا یہ گوشہ نشین قسم کے آدمی ہیں۔ راہب ہی سمجھیے البتہ انہیں بہت سے بااثر لوگ ملنے بھی چلے آتے ہیں۔ خلاصہ یہ کہ پوری کہانی سامنے آ گئی۔ زرداری سے ’’منتھلی‘‘ لینے سے لے کر مولانا ڈیزل تک کے خطابات کہاں تیار ہوئے‘ کہانی کہاں بنی۔ یہ بھی پتہ چلا کہ وہ مشہور عالم مکالمہ بھی کسی کے ذہن رسا کی تخلیق تھا جس میں بتایا گیا تھا کہ مولانا نے امریکی سفیر سے کہا‘ایک بار مجھے بھی وزیر اعظم بنا کر دیکھیں۔اس کے برعکس وہ واقعہ سچ ہے جب مشرف کے دور میں فضل الرحمن کے وزیر اعظم بننے کا خطرہ ہوا تو امریکی محکمہ خارجہ نے فوری مداخلت کی اور یوں ایک ووٹ سے جمالی وزیر اعظم بن گئے ۔ ٭٭٭٭٭ اس کے بعد سے میں نے ایسے افرادسے فاصلہ رکھا ہے اور اس پر افسوس بھی ہے کہ مولانا کو کروڑی مل طبقے دولت پسند لکھا۔ انہی صحافیوں نے یہ کہانیاں بھی چھاپیں کہ نواز شریف لندن اور امریکہ قیام کرتے تو سری پائے لے کر چارٹر جہاز پاکستان سے وہاں جاتا۔ یہ بعد میں ایک غیر اسلامی صحافی بھائی نے بتایا کہ نواز شریف تو سری پائے کھاتے ہی نہیںبہرحال یہ قابل داد ہیں کہ سچ سے ان کا تعلق تو کسی طور ضرور ہے‘ بولتے نہیں‘ گھڑتے تو ہیں۔ خیر اگر خبر صحیح ہے تو ’’عالمی طاقتوں‘‘ کا پاس خاطر رکھنے پر شہباز شریف کو ہدیہ تہنیت۔