معزز قارئین!۔ آخری اطلاعات آنے تک امیر جمعیت عُلماء اسلام (فضل اُلرحمن گروپ) کی قیادت میں اپوزیشن جماعتوں کے آزادی مارچ ؔکے شُرکاء نے 28 اکتوبر کی شب پنجاب کے تاریخی شہر ’’ مدینۃ اُلاولیاء ‘‘ ۔ملتان میں پڑائو ڈال دِیا تھا ۔ اُستاد شاعر حضرت داغ ؔدہلوی کے دَر پر بھی ، اُن کے یارو ںنے پڑائو ڈالا تھا تو، اُنہوں نے نہ جانے کسے مخاطب ہو کر کہا تھا کہ مجھ کو وحشی سمجھ کے ، یاروںؔ نے ! میرے در پر، پڑائو، ڈال دِیا! خبر کے مطابق ’’شُرکائے آزادی مارچ ‘‘ نے ملتان میں بہاولپور کے "Bypass" کے قریب قائداعظمؒ کی ہمشیرہ ’’مادرِ ملّت‘‘ محترمہ فاطمہ جناحؒ کے نام پر قائم ’’فاطمہ جناح ؒہائوسنگ سوسائٹی ‘‘ میں خیمے لگا کر قیام کیا ۔خیمہ بردار کتنے تھے؟ نہیں بتایا گیا؟۔ آپ شاید یہ سوچتے ہوں گے کہ ’’ شُرکائے آزادی مارچ ‘‘ نے ملتانی وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی صاحب کو چڑانے کے لئے ملتان میں پڑائو ڈالا ہوگا ؟ لیکن، میرا وجدان یہ کہتا ہے کہ فضل اُلرحمن صاحب نے اپنے والدِ مرحوم مفتی محمود صاحب کی یاد میں ’’ شُرکائے آزادی مارچ ‘‘ کو ’’فاطمہ جناح ؒہائوسنگ سوسائٹی ‘‘ میں قیام کی ہدایت کی ہوگی!۔ مَیں کئی بار اپنے کالم میں لکھ چکا ہُوں کہ ’’ 2 جنوری 1965ء کے صدارتی انتخاب میںفیلڈ مارشل صدر محمد ایوب خان کے مقابلے میں ’’ مادرِ ملّتؒ ‘‘ متحدہ اپوزیشن کی امیدوار بن گئی تھیں تو، ملتان ہی میں جمعیت عُلماء اسلام کے اجلاس میں جمعیت کے ناظم کی حیثیت سے مفتی صاحب نے فتویٰ دِیا اور اجلاس میں فیصلہ ہُوا کہ ’’ شریعت کی رُو سے ( عورت ہونے کے ناتے ) محترمہ فاطمہ جناح ؒ اسلامیہ جمہوریہ پاکستان کی سربراہ نہیں بن سکتیں۔ اِس سے پہلے مفتی محمود صاحب کا یہ بیان بھی "On Record" ہے کہ ’’ خُدا کا شکر ہے کہ ہم پاکستان بنانے کے گُناہ میں شامل نہیں تھے‘‘۔ طَبلِ جنگ فضل اُلرحمن صاحب نے سکھر سے ملتان روانہ ہونے سے پہلے ’’ شُرکائے آزادی مارچ ‘‘ لیکن دراصل بذریعہ الیکٹرانک میڈیا ،وزیراعظم نریندر مودی کے بھارت سمیت دُنیا بھر کے ملکوں کو آگاہ کِیا کہ (وزیراعظم عمران خان کی حکومت کے خلاف ) ’’ طبلِ جنگ ‘‘ بج چکا ہے ، اب ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے ، پیچھے ہٹے تو ’’ گناہ‘‘ ہوگا‘‘ ۔ معزز قارئین!۔ فضل اُلرحمن صاحب نے یہ نہیں بتایا کہ ’’ اگر وہ طبلِ ؔجنگ بجنے کے بعد پیچھے ہٹے تو اُنہیں ، رہیر کمیٹی اور اپوزیشن کے دوسرے رہبروں کو گُناہ کبیرہؔ (بڑا گُناہ ) ہوگا یا ’’گناہِ صغیرہ ‘‘ ( چھوٹا گُناہ)؟۔ اُستاد شاعرغلام مصطفی مصحفی ؔ کا اپنا انداز تھا، اُنہوں نے شیطانؔ کو اللہ عاشق قرار دیتے ہُوئے کہا تھا کہ… شیطان سا بھی ، عاشق، اللہ کا نہ دیکھا! آدمؔ کو سجدہ کرنا ، سمجھا گُنہ کبیرہ!‘ عام لوگوں کو بتانا ضروری ہوگا کہ ’’ طبل‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں ۔ نقارہ ؔ، اور بڑا ڈھوؔل ۔طبل ؔ بجانے والے کو طبلچی ، نقارہؔ بجانے والے کو نقارچیؔ اور ڈھولؔ بجانے والے کو ڈھوؔلچی کہتے ہیں ۔ طبل جنگ ؔاُس نقارے یا بڑے ڈھول کو کہا جاتا ہے ،جو جنگ سے پہلے جنگ کے فریقین اپنی اپنی فوج (لشکر) کو جنگ کی تیاری کا اعلان کرتے ہُوئے جنگ کا حُکم دیتے ہیں لیکن، فضل اُلرحمن صاحب کا جُملہ ادھورا ہے ۔ اُنہوں نے یہ نہیں بتایا کہ ’’ طبلِ جنگ ‘‘ بجایا کِس نے ؟۔ طبل بجانے والے کا نام ’’ صیغہ راز‘‘ میں کیوں رکھا گیا ہے؟۔ کہیں فضل اُلرحمن صاحب علاِمہ اقبالؒ کے اِس شعر سے تو متاثر نہیں ہوگئے کہ … بھری بزم میں راز ؔکی بات کہہ دِی! بڑا بے ادب ہُوں ، سزا چاہتا ہُوں! اگر کوئی قدرتی اور غیر قدرتی رد و بدل نہ ہُو توشُرکائے آزادی مارچ کل ( منگل کی رات ) لاہور میں ’’ بتی والا چوک ‘‘ تک پہنچ جائیں گے ۔ معزز قارئین!۔ پنجابی زبان کے لفظ بتیؔ کے معنے ہیں ۔ لالٹین، چراغ ، موم بتی ، شمع ، بجلی کا بلب ، روشنی اور "Traffic Light"۔ قدیم پنجاب کی ایک مٹیارؔ اپنے ماہی (محبوب ) کے انتظار میں یہ شعر صدیوں سے مشہور ہے کہ … بتی بال کے ، بنیرے اُتّے، رکھنی آں! کِتے بُھّل نہ جاوے، ماہی میرا! دراصل وہ مٹیارؔ اپنے اِس شعر کے ذریعے پورے گائوں کو مطلع کر رہی تھی کہ ’’ اُس کا ماہی آنے والا ہے ‘‘ ’’اسلام ۔ تیسری ترجیح؟‘‘ فضل اُلرحمن صاحب کی قیادت میں آزادی مارچ کراچی سے سکھر کی طرف چلا تھا ۔ کراچیؔ سے کیوں؟ کراچی میں تو بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح ؒ ، قائد ِ ملّت لیاقت علی خانؒ ، مادرِ ملّت محترمہ فاطمہ جناحؒ اور تحریکِ پاکستان کے دوسرے قائدین کے مزارات بھی ہیں ؟ ۔ جن کی قومی خدمات کو فضل اُلرحمن صاحب اور اُن کے کانگریس نواز بزرگوں نے کبھی تسلیم نہیں کِیا اور ہاں لاہور میں بھی ’’مصورِ پاکستان ‘‘ علاّمہ اقبالؒ کابھی مزار ہے، جہاں وہ لاہور کی بہت سی بتّیاں دیکھ کر اسلام آباد کی طرف مارچ کریں گے ؟ ۔ دراصل اُن کی منزل اسلام ؔ نہیں ، اسلام آباد ہے؟۔ سکھر سے ملتان روانہ ہونے سے پہلے فضل اُلرحمن صاحب اپنے خطاب میں اپنی ترجیحات کا اعلان کرتے ہُوئے کہا کہ ’’ پاکستان کا وجود خطرے میں ہے اور ہم آئینؔ، جمہوریتؔ اور اسلامؔ کے لئے نکلے ہیں ‘‘۔ یعنی۔ اب اسلام ؔ ، فضل اُلرحمن صاحب کی تیسری ترجیح ہے؟۔ حکومتیں گرانے کا شوق؟ 31 مارچ کو علاّمہ اقبالؒ پارک میں ’’ اسلام زندہ باد کانفرنس‘‘ سے خطاب کرتے ہُوئے ، فضل اُلرحمن صاحب نے کہا تھا کہ ’’ بھارت کے ہندو ، اب بھی ایک قوم ہیں لیکن، ( پاکستان بنا کر ) برصغیر کے مسلمانوں کو تین قوموں میں تقسیم کردِیا گیا ہے ۔ بھارت ؔکے مسلمان ، پاکستان ؔکے مسلمان اور بنگلہ ؔدیش کے مسلمان ’’ بعد ازاں 11 مئی 2013ء کے عام انتخابات کے دَوران ، اپنی جمعیت عُلماء اسلام کے عام جلسوں سے خطاب کرتے فضل اُلرحمن صاحب نے کئی بار کہا تھا کہ ’’ یہ درست ہے کہ انتخابات میں عوام ، ہماری جمعیت عُلماء اسلام کو ، بھاری مینڈیٹ نہیں دیتے لیکن ، ہم حکومتیں تو گراسکتے ہیں ! ۔ معزز قارئین !۔ مجھے یقین ہے کہ ’’ اُن کا وزیراعظم عمران خان کی حکومت گرانے کا شوق پورا نہیں ہوگا ۔ مرزا داغؔ دہلوی نے اپنے ذوقؔ اور شوقؔ میں ، ناکامی پر کہا تھا … کیا ذوق ؔہے ، کیا شوق ؔ ہے ، سو مرتبہ دیکھوں! پھر بھی کہوں ، جلوہ جاؔناں ، نہیں دیکھا ! "Toll Tax" قانون کے مطابق دُنیا بھر کے ملکوں کی طرح پاکستان میں بھی حکومت کو قانوناً "Toll Tax" دینا پڑتا ہے ۔ خاص طور پر کسی ندی ، دریا ، یا کھڈ وغیرہ کے پُل (Bridge) پر سے گاڑیوں کے گزرنے کا محصول "Tax" ۔ کل مجھے "Expert of Tax System" میرے دوست سینئر ایڈووکیٹ سیّد ضیاء حیدر رضوی نے میری توجہ اُس ’’ واقعہ‘‘ (دراصل واردات) کی طرف دلائی کہ ’’ جب فضل اُلرحمن صاحب کی قیادت میں ’’ شُرکائے آزادی مارچ ‘‘ کی گاڑیاں کراچی سے سکھر کی طرف روانہ ہُوئیں تو فضل اُلرحمن صاحب کی گاڑی کے ڈرائیور اور دوسرے ’’شُرکائے آزادی مارچ‘ کی گاڑیوں کے ڈرائیوروں نے راستے میں "Toll Tax" ادا نہیں کِیا ، جو صریحاً قانون شکنی ہے ۔ تو مَیں نے کہا کہ ’’سیّد بھائی!۔ مَیں کیا کرسکتا ہُوں ؟‘‘ ۔ پھر، دروغ برگردنِ راوی کہ ’’ ملتان تک کے ’’ آزادی مارچ ‘‘ میں فضل اُلرحمن صاحب کی گاڑی ڈرائیور سمیت دوسری گاڑیوں کے ڈرائیور نے ہر پُل پر "Toll Tax" ادا ( Pay) کِیا ۔ تو مَیں نے برادرم ضیاء حیدر رضوی سے کہا کہ ’’مبارک ہو سیّد بھائی آپ کو !۔ فضل اُلرحمن صاحب اور ’’شُرکائے آزادی مارچ ‘‘ نے دوسری بار "Toll Tax" ادا نہ کرنے کی قانون شکنی نہیں کی؟ تو ، اُنہوں نے کہا کہ ’’ بھولے بھائی!۔ مَیں تو اِسے مولانا فضل اُلرحمن کی اِک اداؔ (محبوبانہ ناز و انداز ) ہی سمجھتا ہُوں !۔ مَیں نے رضوی صاحب کو ’’ادا شناس ‘‘ قرار دیتے ہُوئے اُنہیں اُستاد ظفرؔ اکبر آبادی کا یہ شعر سُنایا کہ … تری جفا ؔمیں بھی ، وہ اِک ادا ؔنکلتی ہے! کہ تجھ پہ جان بھی، اے پُر جفاؔ نکلتی ہے !