یہ حقیقت ہے کہ افضل کی پھانسی کا غیر منصفانہ اور جلد بازی میں اٹھائے جانے والابھارت کایہ ایک ایساا قدام تھاکہ جسے کشمیری کبھی بھول نہیں پائیں گے ۔بلاشبہ افضل کی شہادت سے ایسے ہزارانجم پیداہوئے جواپنے پیدائشی مقصد سے کبھی دستبردارنہیں ہونگے کیوںکہ گوروکواچانک پھانسی دیئے جانے سے انہیں یقین آگیاکہ کشمیریوں کے لئے انصاف نام کی کوئی چیزموجودنہیں۔اگراس امرمیں کسی کوکوئی ابہام تھاتو2016ء کی فقیدالمثال عوامی ایجی ٹیشن نے اسے دورکردیا۔افضل کے مقدمے کی سماعت کے دوران انصاف کے تقاضوں کا کبھی خیال ہی نہیں رکھا گیا ۔انہیںایک ایسے حملے اورایک ایسی کارروائی میں ملوث ٹھرایاگیا جوسراسرمشکوک تھا۔ بھارت کے سیاست دان،سیاسی پارٹیاں اورمکروفریب کارواداربھارتی میڈیا اس بات سے پوری طرح واقف تھا کہ ا س کیس کی سماعت میںعجلت سے کام لیکربھارتی سپریم کورٹ نے جان بوجھ کر’’جوڈیشل قتل‘‘ کیااوربھارت کی جوڈیشری کا یہ اقدام انصاف کے خلاف ،انتہائی کوتاہ اندیش اور پر خطر تھا ۔ افضل کے مقدمے پر خودبھارتی ماہرین قانون بے شمار اعتراضات کرتے آئے ہیں اوربڑے بڑے اہم نام ہیں جو کہتے رہے ہیں اس پر جرم ثابت نہیں ہوتا۔بھارتی سپریم کورٹ کی سرکردہ وکیل’’ کامنی جیسوال‘‘ نے افضل کی پھانسی کے اصل وجوہات کویہ کہتے ہوئے طشت ازبام کیا کہ افضل گوروکی رحم کی اپیل سے متعلق ایک عرضی پر سپریم کورٹ میں سماعت تھی ایسے میں پھانسی دینا قانونی طور پر بھی درست نہیں ہے۔ان کی دو رحم کی اپیلیں تھیں جس پر پہلے سیاسی وجوہات کے سبب فیصلہ نہیں کیا گیا۔ ان کاکہناتھاکہ کئی ریاستوں میں الیکشن ہونے والے تھے ۔ چونکہ بی جے پی جواس وقت اپوزیشن میں تھی باربارافضل کی پھانسی کامطالبہ کررہی تھی تواس وقت کی بر سراقتدارکانگریس پارٹی نے بی جے پی سے یہ ایشو بھی چھین لیا اورصرف اور صرف الیکشن میں سیاسی فائدے کے لیے افضل کوپھانسی دی ۔ دنیاکے اکثرممالک کی عدالتوں کا رویہ رہا ہے کہ جن افرادپر ان کی اسٹیبلشمنٹ غداری یاوطن کے مفادات کے خلاف الزام لگا دے، وہ اسٹیبلشمنٹ کا موقف مان لیا کرتی ہیں، امریکہ میں ایساہی ہوتا آرہا ہے۔ عافیہ صدیقی کے معاملے میں ان کا عدالتی نظام بے بس اور مجبور ہے کہ ا نصاف کا خون کریں،اس پس منظرمیں دیکھاجائے تو بھارت کے عدالتی نظام کے لچھن یہ نہ ہوں گے تو اور کیا ہوں گے۔بھارتی دعوے کے مطابق 2001میںبھارتی پارلیمان پرحملے کے وقت پانچوں کے پانچ حملہ آور ں کونشانہ بنایاگیاجبکہ افضل کو بعد میں اپنے دوسرے ساتھیوں کے ساتھ مل کر منصوبہ بندی کرنے کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔کاش موت بانٹنے والی بھارتی عدلیہ افضل کے کیس پرمنصفانہ نگاہ ڈال دیتی تووہ کشمیرکے اس اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان کواپنے حکمرانوں کی خوشنودی بجا لانے کے لئے شائد سزائے موت نہ سناتی ۔لیکن اس امرکاکیاکیاجائے کہ جب کشمیر کے چناروں میں آگ بھڑک اٹھناہی مقدرٹھرجائے توملزم کے خلاف واضح شہادتیں اورٹھوس ثبوت موجودنہ بھی ہوںتوبھی اسے سزائے موت ہوتی ہے یہ اس لئے کہ شاید کشمیری مسلمان ہوناسب سے بڑاجرم ہوتاہے ۔ بھارت کی معروف دانشور اور انسانی حقوق کی علمبردار ارون دتی رائے کشمیر کے حالات کا جو نقشہ کھنچتی ہیں، وہ قابل غور ہے۔ ان کا کہنا ہے’’ ہم نے مناظر کشمیر کے بازاروں او رچوراہوں میں دیکھے ہیںتویہاں بھارت کے خلاف نفرت میں اس حدتک اضافہ ہوچکاہے ‘‘۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ افضل کے جوڈیشل قتل کے بعد کشمیر کی جدوجہد بالکل ایک نئے دور میں داخل ہوگئی ہے۔ کشمیریوں کوقتل کرکے دلی کاتخت اس طرح چپ بیٹھ جاتاہے کہ جیسے دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجرپہ کوئی داغ ۔ مگرایسے میںکشمیری خاموش نہیں رہ سکتے ہیں جب کہ جدوجہد کے ساتھ وفانبھانا ان کی زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ کشمیریوں کو یقین ہے کہ ان کاخون کبھی رائیگان نہیں ہوگااوران کی عظیم قربانیاں ضرور رنگ لاکررہیں گی ۔ افضل کی حراستی شہادت ستم رسیدہ اہل کشمیر کے دلوں کوگہرازخم دے گئی تاہم جس وقاراورسکون کے ساتھ افضل نے تختہ دارکوچوما اس سے کشمیر کی نئی نسل کوحوصلہ ملا اورانکی شہادت کشمیریوں کے لئے عہدنوثابت ہوئی ۔ افضل کوتختہ دارپرچڑھانے سے کشمیریوں کے اس ایمان ویقین میں مزید اضافہ ہوا۔ کشمیریوں کاعزم وہمت دیکھ کرقاتل دنگ ہے کہ کشمیری کٹ مرکربھی حق وانصاف کا علم تھامے ہوئے ہیں۔ یہی زندہ قوموں کا شیوا رہاہے۔ زندہ قومیں کبھی ہمت نہیں ہارجاتیںاوروہ آخری دم تک ظلم اوربربریت کے خلاف صف آراء رہتی ہیں۔واضح رہے کہ آج سے 33برس قبل11 فروری 1984ء کو کشمیر کے معروف آزادی پسند راہنمامقبول بٹ کو بھی دلی کی تہاڑجیل میں ہی پھانسی دی گئی تھی اورانکے جسدخاکی کو تہاڑ جیل میں ہی دفنا دیا گیا تھا۔ محمد مقبول بٹ شہیدنے میدان عمل میںاترکر باہمت حریت پسند ہونے کا عملی نمونہ پیش کیا۔ وہ ایک بہادر اور باہمت حریت پسند تھے، جنہوں نے کشمیری قوم سے متعلق کئی طرح کے مفروضوں کو غلط ثابت کردیا۔ سچی بات یہ ہے کہ افضل گوروکے جوڈیشل اورمقبول بٹ کے حراستی قتل سے بھارت نے اہل کشمیر یوںکویہ پیغام دیا کہ بھارت کی نظروں میں انکی زندگیوں کی کوئی اہمیت نہیں اوروہ محض حشرات الارض ہیں۔لیکن کشمیری بھارت کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ وہ اپنے بنیادی حق کے حصول کے معاملے میں بھارت کے سامنے کبھی سپرانداز نہیں ہونگے۔بھارت کی سیاسی پارٹیاں محض اپنا ووٹ بنک بڑھانے کے لئے کشمیر یوں کوسولی پرچڑھاکریہ ثابت کررہیں ہیں کہ کشمیریوں کے سرقلم کر نے کے ناپاک اورخوفناک منصوبوں سے ہی اب بھارت کی سیاسی پارٹیاںکرسی اقتدار تک پہنچنے کی تگ ودوکررہی ہیں۔لیکن یہ ایک ایسا مکروہ دھندہ ہے جسکی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔