امریکی مفکر میکس ویل نے کہا ہے کہ جب طوفان آتا ہے تو یاسیت پسند تباہی کا رونا رونا شروع کر دیتے ہیںاور خوش فہم طوفانوں سے بہتری کی امید باندھ لیتے ہیں جبکہ لیڈر آندھی کا رخ دیکھ کر بادبانوں کی سمت درست کرتے ہیں تاکہ تباہی پھیلانے والی تیز ہوائوں کو اپنی منزل کی جانب بڑھنے کے لئے معاون بنایا جا سکے۔شہر اقتدار آج کل افواہوں کے طوفان کی زد میں ہے۔ ہر کوئی اپنے اپنے علم اور فہم کے مطابق تبدیلی سرکار کی تبدیلی کے وقت اور حکمت عملی کے بارے میں قیاس آرائی کر رہا ہے۔ بعض تو پیش گوئی کے بجائے دعوے کر رہے ہیں کہ جس طرح مینگنیاں ڈال کر دودھ دیا گیا اب تحریک انصاف کو بحرانوں سے نکالنے کے لئے غیبی مدد میسر نہ ہو گی۔ عمران خان کا اصل امتحان یہ ہے کہ جس غیبی مدد کی تڑی لگا کر کے وہ اپوزیشن کو ہانکتے رہے ہیں اب وہ اس کے بغیر حالات کو کس طرح سنبھالیں گے۔ اس بار چیلنج بھی اپوزیشن نہیں بلکہ ان کے اپنے اتحادی اور وہ الیکٹ ایبلز ہیں جو اشارہ غیب سے تحریک انصاف کے لئے اقتدار کی سیڑھی بنے تھے اب یہ سیڑھی کھینچی جا رہی ہے۔ یہ تاثر مضبوط ہوتا جا رہا ہے کہ طاقتوروں کا اشارہ ہی اتحادیوں کی ناراضگی اور تحریک انصاف کے اندر سے بغاوت کی اصل وجہ ہے۔ تحریک انصاف کو جس پنجاب نے کندھوں پر اٹھا کر مسند اقتدار پر بٹھایا تھا اب وہی پتے ہوا دینے لگے ہیں۔ حیران کن امر تو یہ ہے کہ اس سارے کھیل میں اپوزیشن تاحال کہیں دکھائی نہیں دے رہی۔ تبدیلی سرکار کی تبدیلی کا ذریعہ بھی اس کے ناراض ارکان بن رہے ہیں۔ تبدیلی کی ہوا کا آغاز بظاہر تو پنجاب سے ہوا ہے اور وسیم اکرم پلس ٹیم کے ڈراپ کرنے کے لئے بظاہر عمران پر دبائو بڑھایا جا رہا ہے۔ بات مگر اتنی سیدھی محسوس نہیں ہوتی کہ ایک بے ضرر اور علامتی وزیر اعلیٰ کے لئے یہ کھیل کھیلا جائے ۔ شمس فرخ آبادی نے کہا تھا: اک کانٹے سے دوسرا میں نے لیا نکال پھولوں کا اس دیس میں کیسا پڑا اکال ایک کانٹے سے دوسرا کانٹا نکالا جا رہا ہے۔تحریک انصاف جو ہر معاملہ ایمپائر پر چھوڑنے کی عادی ہو چکی ہے اب حیران بھی ہے اور پریشان بھی ! بظاہر تحریک انصاف کے ناراض ارکان کو منانے، ان کے تحفظات دور کرنے کے لئے رابطے بھی شروع ہو گئے ہیں اور ناراض ارکان نے فروری تک مہلت بھی دے دی ہے مگر سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر یکایک ایسا کیا ہو گیا کہ تحریک انصاف کے ارکان کے دل میں عوام کا درد جاگ اٹھا اور انہوں نے اپنے ضمیر کی آوازکو سنتے ہوئے اپنی ہی حکومت کے خلاف علم بغاوت بلند کر دیا جبکہ ناراض ارکان کو بظاہر اپوزیشن کی پشت پناہی بھی حاصل نہیں۔ مولانا فضل الرحمن کے جو پہلے بھی اپنا دھرنا دروغ برگردن راوی ایک چٹ پر ختم کر چکے ہیں، اپوزیشن منہ کا ذائقہ تبدیل کرنے کے لئے 2020ء کو الیکشن کا سال ضرور قرار دے رہی ہے مگر عملی طور پر خود بھی تیار نہیں۔ آ جا کے ان ہائوس تبدیلی کا آپشن بچتا ہے مگر سوال پھر وہی کہ تبدیل کس سے کیا جائے گا؟ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن سے؟؟ یا پھر اقتدار کاہما فضل الرحمن کے سر پر آ بیٹھے گا؟ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن فی الوقت ان ہائوس تبدیلی کے لئے بھی تیار نہیں۔ فضل الرحمن کے لئے کرسی پہلے سراب ثابت ہو چکی۔ اب بھی دور دور تک امکان نہیں۔ پھر ہونے کیا جا رہا ہے ۔شہر اقتدار کے سیاسی پنڈت اسی حوالے سے فال کے بعد فال نکال رہے ہیں مگر حتمی بات جو کہی جا رہی ہے وہ صرف یہ کہ اب کپتان کو ایمپائر کے بغیر کھیلنا ہو گا۔ ابن الوقت پیپلز پارٹی میں ہیںنا مسلم لیگ ن کی صفوں میں بلکہ عمرا ن کی ٹوکری میں ہیں ۔ دونوں پارٹیوں کے ساتھ جو بھی کھڑے ہیں ان کی وفاداری تبدیل کروانا اور ان کو پارٹی لائن کے خلاف لے کر جانا مشکل ہو گا اور پھر پیپلز پارٹی ان ہائوس تبدیلی کی صورت میں اقتدار مسلم لیگ ن کی جھولی میں کیوں ڈالے گی ؟اور وہ بھی ایسے وقت میں جب مسلم لیگ ن کا ایک دھڑا کسی صورت میں بھی طاقتوروں سے ہاتھ ملانے پر تیار نہیں۔ ان حالات میں میاں شہبازشر یف کے پاس ایک ہی آپشن بچتا ہے کہ وہ پنجاب کے ان ایلیکٹ ایبلز کے سہارے اپنی بساط بچھائیں جن کے دل ہمیشہ’’ قومی مفاد‘‘ کے لئے دھڑکتے ہیں جو قومی مفاد میں کچھ بھی کرنے کے لئے ہر وقت تیار ہوتے ہیں۔ آٹے کے بحران نے ان کے دل میں عوام کے درد کو اور بھی سوا کر دیا ہے تحریک انصاف بھی ان کے در پر حاضری لگوا رہی ہے۔ مذاکرات ہوں گے ۔بات عوامی مفاد کی آئے گی تو عمران خاں کے لئے ان کو دینے کے لئے کچھ نہ ہو گا شہباز شریف اور مسلم لیگ اس کھیل کے طاق میں اگر عمران خاں کو ایمپائر کے بغیر کھیلنا پڑا تو پھر ان ایلیکٹ ایبلز کی پہلی ترجیح عمران نہیں شہباز شریف ہوں گے کہ یہاں بے گار نہیں لیا جاتا بلکہ حصہ بقدرجثہ ملتا ہے ۔بظاہر ان حالات میں جن کے جگر میں عوام کا درد اٹھتا ہے ان کا عمران خاں کو ایک ہی جواب ہو گا: زاہدو کعبہ کی جانب کھینچتے ہو کیوں مجھے جی نہیں لگتا کبھی مزدور کا بیگار میں بیگار سے تنگ آئے اب عوامی مفاد کی تلاش میں ہیں مگر یہ تلاش آرمی چیف کی مدت ملازمت پر قانون سازی کے بعد ہی کیوں شروع ہوئی ہے اس کے بعد عمران خان کے اقتدار کو مضبوط ہونا چاہیے تھا مگر یہ کیا جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے! تحریک انصاف بالخصوص عمران خان کو اس بارے میں سنجیدگی سے سوچنا ہو گا۔ تحریک انصاف نے اپنی کمزوریوں اور ناکامیوں کے دفاع کے لئے جو طریقہ کار اپنائے رکھا جس طرح کھلے عام دھونس دی جاتی رہی اور بوٹ میز پر رکھا جاتا رہا، اس طرز عمل کے بارے میں سوچنا ہو گا۔ سوچنا ہو گا کہ ان کی حکومت کو اصل خطرہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی صورت میں اپوزیشن سے ہے یا پھر ان کے دشمن ان کے اپنے دوست ہیں ایسے دوستوں کے بارے میں جون ایلیا نے کہا تھا: میں اب ہر شخص سے اکتا چکا ہوں فقط کچھ دوست ہیں اور دوست بھی کیا