کھیل خطرناک مرحلے میں داخل ہو چکا ہے‘ رجیم چینج یعنی حکومت کی تبدیلی کے لئے جو کچھ مقامی کرداروں نے کیا‘ وہ لالچ میں آ کر کیا گیا‘ وقت مٹھی میں ریت کی طرح تیزی کے ساتھ ہاتھ سے نکلا جا رہا ہے‘ جو لالچ میں شروع کیا گیا تھا وہ اب خوف کی سرحدوں میں داخل ہو گیا ہے‘ کتنے ہیں مارے خوف کے جن کی گھگی بندھ گئی ہے‘ آرٹیکل 6سے ڈرایا’’کپتان‘‘ کو جا رہا ہے‘ مگر مارے خوف کے رنگ کسی اور کا پھیکا پڑ گیا ہے‘ خوفزدہ کو مزید ڈرانے کی بجائے پچکارنے کی ضرورت ہے‘ زیادہ خوفزدہ اور مایوس خودکشی کی سوچتا ہے کبھی خودکش حملے کی۔دونوں صورتوں میں اس کی موت یقینی ہے۔مردے کچھ نہیں بولتے چنانچہ حقائق چھپے رہ جاتے ہیں‘ کوئی اہم کردار مارا جا سکتا ہے تاکہ سازش کی کڑیاں ملائی نہ جا سکیں۔یہ مرحلہ بہت احتیاط کا ہے‘ ’’آنیوالے دن‘ مہینے‘ سال عمران کے ہیں، اس لئے سب سے زیادہ احتیاط کی ضرورت بھی اس کو ہے‘‘ مایوسی کو ڈھارس دیں‘ امید دلائیں‘ راستہ دیں محفوظ راستہ بالخصوص کرایہ کے دانش وروں‘ بھاڑے کے قلم کاروں اور زرخرید طبلچیوں کو کہ ان کی حالت سب سے زیادہ قابل رحم ہے‘ بے چاروں کو چپ سی لگ گئی ہے حالیہ دہائی کے ووٹر کا رجحان گزشتہ چھ دہائیوں کے روائتی رجحانات سے بالکل مختلف ہے‘ نئے سیاسی رجحانات نے عمران خاں کو ناقابل شکست بنا دیا ہے۔ عمران خاں کی اولین اور بڑی کامیابی ’’اسٹیبلشمنٹ کے کرداروں کو محدود کرنا ہے‘‘ اسٹیبلشمنٹ کو کچھ کہنے اور کرنے کی ضرورت نہیں ہوا کرتی تھی‘ بس یہ تاثر ہی کافی تھا کہ فلاں کو اس نے حکومت سے نکالا ہے‘ لہٰذا اس کو تو واپس نہیں آنے دے گی‘ اس لئے اب حکومت دوسری پارٹی کو ملنے والی ہے‘ چنانچہ ضیاء الحق کے بعد سے دہائیوں تک پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ اسی تاثر کی وجہ سے باریاں لیتی رہی ہیں‘کم از کم پندرہ فیصد ووٹ اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کے تاثر کی بنا پر ادھر سے ادھر ہو جاتا تھا‘ پھر یہ ہوا کہ 9اپریل کو رجیم چینج (حکومت کی تبدیلی) اور دس اپریل رمضان المبارک اور نمازِ تراویح کی مصروفیت کے باوجود کروڑوں کی تعداد میں پاکستانی عوام نے سڑکوں پر آ کر عمران خاں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا‘ صرف یہی نہیں دنیا بھر میں ایک سو سے زیادہ شہروں میں عمران خاں کے لئے بڑے بڑے احتجاجی جلوس نکالے گئے‘ یہ ان ملکوں میں بھی ہوا جہاں سیاسی جلسہ جلوس کی کسی کو بھی اجازت نہیں ہے‘ ان جگہوں پر مقامی لوگ بے تحاشہ نکل کھڑے ہوئے‘ عمران خاں بھی اپنی روائتی بہادری‘ دلیری اور بے فکری کے ساتھ خم ٹھونک کے میدان میں نکل آیا۔عمران خاں کی للکار اور عوام کی تائید نے اسٹیبلشمنٹ کے کرداروں کو فی الوقت محدود ہی نہیں کیا بلکہ اسے بڑی حد تک لپیٹ (رول بیک) کر کے رکھ دیا ہے۔اپنے اس خیال کی تائید میں ایک زمانے میں سب سے مقبول اینکر‘ دانشور تجزیہ کار اور آج کل میاں نواز شریف اور مریم نوازکے سب سے قریبی صلاح کار ’’طلعت حسین‘‘ کا ایک تجزیہ نقل کروں گا ’’کہتے ہیں کہ نقل کفر‘ کفر نہ باشد‘‘ وہ کہتے ہیں اس نے (عمران خاں) نے خوب کیا‘ اس نے اسٹیبلشمنٹ کی ایسی کی تیسی کر کے رکھ دی‘ ایسی کی تیسی ایسی کہ اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئی‘ دوسری تھیوری یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ واقعی بے بس اور لاچار ہے عمران خاں کا حملہ (onslaugt)اتنا سٹرانگ ہے کہ انہیں خطرہ پڑ گیا ہے کہ کہیں ہماری طرف اس نے رخ کر دیا تمام بندوقوں کا رخ انہی کی طرف ہے‘ لیکن مکمل طور پر رخ اگر ہماری طرف کر دیا تو ہمیں لگ سمجھ جائے گی۔اس لئے اب وہ بیک فٹ پر ہیں‘ بیک فٹ پر کھیلتے کھیلتے انہوں نے اپنی کمر دیوار سے لگا دی ہے‘ یعنی وہ تمام خواہشات جو پاکستان کی لبرل کلاسز کی ہوا کرتی تھیں‘ آئین اور قانون کی بات کرنے والوں کی ہوا کرتی تھیں‘ زبان پر آئے نہ آئے یہ علیحدہ بات ہے کہ پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کی پاور کو رول بیک کرنا ہے وہ عمران خاں نے کر دکھایا ہے۔دوسری تھیوری یہ ہے کہ عمران خاں نے اپنے پتے بڑے زبردست کھیلے ہیں‘ تیسری تھیوری ہے کہ نہ یہ عمران خاں کا کارنامہ ہے نہ اسٹیبلشمنٹ کا بلکہ یہ نکمہ پن ہے اس حکومت کا جو اس وقت ہمارے پاس موجود ہے اس کو پتہ ہونا چاہیے تھا، اسے اقتدار میں آ کر کیا کرنا ہے۔میرے خیال میں تیسری وضاحت ذرا کمزور ہے لیکن پہلی دونوں وضاحتوں میں بڑی جان ہے‘ آپ وضاحت کو بھی قبول کریں لیکن آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ عمران خاں نے پاکستان کے اندر کارنامے انجام نہیں دیے۔ایسے کارنامے پاکستان کی تاریخ میں کہیں نظر نہیں آتے۔ کسی نے بھی پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کو ایسے ’’نتھ‘‘ نہیں ڈالی‘ کبھی چھوٹے بڑے لیڈروں نے ایسی باتیں نہیں کیں کسی نے سپہ سالار کو کرسی کے بارے یہ باتیں نہیں کہیں‘ کسی نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں ایسی نہیں کیں‘ کسی نے پاکستان سیاسی حالات کو دفاعی پروگرام سے تقابل نہیں کیا کسی نے امریکہ یورپ پاکستان کے ٹریڈنگ پارٹنرز کے ساتھ تعلقات کو تہس نہس نہیں کیا‘‘ اگرچہ ذہین طلعت حسین نے اپنی مخصوص ’’کہنی مار‘‘ عادت سے کام لیکر کسی کو عمران خان کے خلاف ابھارنے کی کوشش بھی کی ہے‘ بقول غالب: نکالا چاہتا ہے کام کیا طعنوں سے تو غالبؔ تیرے بے مہر کہنے سے وہ تجھ پر مہرباں کیوں ہو! فی الوقت نئے رجحانات اور نئی سیاسی حقیقتوں نے عمران خاں کو ناگزیر بنا دیا ہے‘ کہ دور دور تک اس کا کوئی متبادل نظر نہیں آتا‘ تحریک انصاف کے سوا‘ قومی سطح کی ایک بھی سیاسی جماعت نظر نہیں آتی‘ علاقائی اور قومی سیاسی گروہ جو چند اضلاع تک اثررسوخ رکھتے تھے وہ اپنی اپنی تحصیلوں یا ایک آدھ قومی یا صوبائی اسمبلی کی سیٹ تک سکڑ گئے‘ پیپلز پارٹی جو کبھی قومی سطح کی واحد پارٹی ہوا کرتی تھی وہ اندرون سندھ تک محدود ہو گئی‘ اس کے مقابلے میں اسٹیبلشمنٹ نے بڑا زور لگا کے بڑی محنت کر کے نواز شریف کی مسلم لیگ کو کھڑا کیا تھا وہ بھی صرف پنجاب کے چند اضلاع میں آ کر ٹھہر گئی ہے اور روز بروز مزید سکڑتی جا رہی ہے‘ مذہبی جماعتوں کا سیاسی کردار نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے‘ کبھی وہ ملک کے اندر تحریک کے لئے سب سے بڑا کارآمد عنصر ہوا کرتا تھا اور آج ’’ہر چند کہیں ہے نہیں ہے‘‘ پی ڈی ایم کی شکل میں تمام سیاسی گروہوں کو ضم کر کے ایک پارٹی بنانے کی کوشش کی جائے۔تب بھی یہ چھوٹے بڑے گروہ اور پارٹیاں مل کر بھی قومی سطح کی سیاسی جماعت نہیں بن سکتیں۔ اب کوئی نوابزادہ نصراللہ خاں نہیں ہے جو مختلف افراد‘ گروہ‘ جماعتوں اور مذہبی عناصر کو جوڑ کر پی این اے بنا دے‘ کوئی حمید گل بھی نہیں جس کا دست ہنر آئی جے آئی تخلیق کر کے پیپلز پارٹی کو نیچا دکھا دے‘ آج کے حمید گل کا ہنر آپ دیکھتے ہیں‘ امریکہ کے دست شفقت کے باوجود جو بنا پائے ہیں وہ اتنا بھی نہیں کر سکے کہ سب مل کر اپنے وسائل ‘ اپنے پیروکاروں اور نواز شریف‘زرداری کی لوٹ کے مال میں سے سو‘ پچاس کروڑ خرچ کر کے‘ اسلام آباد کے پریڈ گرائونڈ یا مینار پاکستان میں ایک جلسہ دکھانے کی حد تک سہی عمران خاں کے مقابلے میں کر کے دکھا دیں۔ کہنے کے لئے باتیں زیادہ ہیں‘کالم کے پاس جگہ کم پڑ رہی ہے‘آج پنجاب کے ضمنی انتخاب کے لئے ووٹ ڈالے جا رہے ہیں‘شام تک نتائج سامنے ہونگے‘ دھاندلی کے عنصر کو اگر خارج کیا جا سکے اگرچہ یہ ممکن نہیں ہے۔مگر فرض تو کیا جا سکتا ہے‘ اگر فرض کر لیا جائے تو ’’بیس میں 20سیٹیں۔