تجربہ کار صحافی رابرٹ فسک مشرق وسطی کے امور پرگہری نظررکھنے والے مشہور مصنف تھے ۔انہوںنے کئی دہائیوں تک مشرق وسطی کے واقعات کا احاطہ کیاکل رات وہ انتقال کرگئے۔وہ 74برس کے تھے۔رابرٹ فسک نڈر ، بے باک ، سمجھوتہ نہ کرنے والے اور ہر قیمت پر سچائی اور حقیقت کوآشکار کرنے کے لئے پوری طرح پرعزم تھے،وہ اپنی نسل کا سب سے بڑا صحافی تھا ۔اپنے عشروں سے طویل کیریئر کے دوران ،انہوں نے فلسطینیوں پرہورہے مظالم پر ہمیشہ آواز بلند کی ۔رابرٹ فسک نے ایک تقریر کے دوران کہا تھا کہ فلسطین میں اسرائیلی تشدد کو کبھی ’’یہودی دہشت گردی ‘‘نہیں کہا جاتا یا عیسائی مسجد پر حملہ کرے تو وہ سرپھرا کہلاتا ہے لیکن مسلمان حملہ کرے تو وہ فورا اسلامی دہشت گرد بن جاتا ہے۔ اپنے دورصحافت کے دوران انہوں نے لبنانی کی خانہ جنگی ، افغانستان پر سوویت حملے ، خمینی کے انقلاب ، صدام حسین کے کویت پر حملے ، بلقان اور عرب بہار میں تنازعات سمیت اہم بین الاقوامی واقعات کا احاطہ کیا۔القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن کا انٹرویو لینے والے چند مغربی رپورٹرز میں سے ایک فسک بھی تھے۔وہ بڑے منصف مانے جاتے ہیں۔ان کی کتابوں میں(the point of no return) تھی ۔ رحم کی قوم: جنگ میں لبنان؛ اور تہذیب کی عظیم جنگ مشرق وسطی کی فتح۔ رابرٹ فسک نے بھارت اسرائیل گٹھ جوڑ کاپردہ بھی چاک کردیا۔یکم مارچ 2019ء جمعہ کوبرطانوی صحافی رابرٹ فسک نے بھارت اسرائیل گٹھ جوڑ کو بے نقاب کرتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ اسرائیل پاکستان کے ساتھ بھارت کے بڑھتے ہوئے تنازع میں ایک بڑا کردار ادا کر رہا ہے ۔رابرٹ فسک نے معروف برطانوی اخبار( Independent )میں شائع ہو نے والے اپنے مضمون میں لکھا کہ بھارت اسرائیلی کت لیے ہتھیاروں کی سب سے بڑی منڈی بن چکا ہے ۔ بالاکوٹ پاکستان میں جو بم گرائے گئے وہ اسرائیلی ساختہ رافیل سپائس 2000سمارٹ بم تھے ۔ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل خفیہ طور پر بھارت کی انتہا پسند بی جے پی حکومت کیساتھ خطرناک مسلم مخالف اتحاد بنانے میں مصروف ہے انہوںنے انکشاف کیا کہ جو ہتھیار فلسطین اور شام میں استعمال ہو رہے ہیں وہی بھارت ایل اوسی پر پاکستان کیخلاف استعمال کررہا ہے ۔رابرٹ فسک نے انکشاف کرتے ہوئے لکھا کہ بھارت کے کمانڈوز کو اسرائیل میں ٹریننگ دی جاتی ہے اوربھارت میں انتہاپسند ہندو اسرائیل کو صرف اس لئے پسند کرتے ہیں کیونکہ وہ مسلمانوں پر مظالم ڈھا رہا ہے ۔انہوں نے اپنے اس مضمون میں لکھاکہ بھارت کی کشمیریوں اور اسرائیل کی فلسطینیوں سے لڑائی محض زمین پر قبضے کے حق کیلئے ہے ۔ رابرٹ فسک نے اپنے مضمون میں لکھابالا کوٹ حملے کے حوالے سے بھارت ،اسرائیل گٹھ جوڑ کو اس لیے بھی رد نہیں کیا جا سکتا کہ اسرائیلی اور بھارتی وزارت ہائے دفاع کے درمیان پچیس سو میل کا فاصلہ موجود ہے۔ ایک وجہ مزید بھی موجود ہے جس کی وجہ سے ہمیں اس طرح کے حملے ایک جیسے دکھائی دے سکتے ہیں۔پچھلے کئی مہینوں سے اسرائیل بہت محنت اور باریکی کے ساتھ اپنے تعلقات بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کے ساتھ استوار کر رہا ہے۔ یہ سب نہایت خاموشی کے ساتھ ہو رہا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف اس تازہ اتحاد کوجان بوجھ کر لوگوں کیسامنے نہیں لایا گیا۔ سیاسی طور پر ہم اسے یوں خطرناک کہہ سکتے ہیں کہ اس کے تحت بھارت اسرائیل کے تازہ ترین ہتھیاروں کا خریداربھی بن چکا ہے۔ انہوں نے لکھاکہ اسرائیل کا بنایا گیا سمارٹ بم رافیل سپائس 2000کو بھارتی فضائیہ کی طرف سے استعمال کیا گیا ۔جس میں بھارت نے دعوی کیاکہ اس علاقے میں جیش محمدکاکیمپ تھا جسے تباہ کر دیا گیا۔ فسک نے لکھاکہ ماضی میں کیے گئے ایسے بہت سے غلط اسرائیلی دعوئوں کی طرح مہم جوئی کا یہ حالیہ دعویٰ بھی بھارتی فوجی کامیابیوں کی لن ترانی کے علاوہ کوئی خاص نئی حرکت نہیں ہے۔ اسرائیل میں بنائے گئے اور اسرائیل سے ہی بھیجے گئے اسلحے کے ذریعے 300 یا 400 جہادیوں کو مار دینے والی اس خبر میں بالکل ایسا ہی لگ رہا تھا جیسے انہوں نے کہیں خشک چٹانوں یا درختوں کو نشانہ بنایا ۔لیکن 14فروری کو ایک حملے کے دوران کشمیر میں 49 بھارتی فوجیوں کو مار دینے کا دعوی بہرحال کچھ غلط نہیں تھا۔جبکہ بھارتی جہاز گرائے جانے والا دعوی ٰبھی کسی طور غلط نہیں تھا۔رابرٹ فسک نے لکھاکہ2017ء میں بھارت اسرائیلی اسلحے کا سب سے بڑا خریدار تھا۔ اسرائیل سے بھارت نے اپنی فضائیہ کے لیے 53 کروڑ پانڈز کے عوض ریڈار اور ہوا سے زمین پر ہدف کو نشانہ والے میزائل خریدے۔ اس میں سے زیادہ تر سامان کے ابتدائی تجربے ان حملوں کے درمیان کیے جاتے تھے جو اسرائیل آئے دن فلسطین کے خلاف کر رہا ہوتا تھا، یا پھر جب شام میں اپنے اہداف کو نشانہ بنا رہا ہوتا تھا۔میانمار جہاں روہنگیا مسلمانوں پر نسل کش ظلم و ستم کاسلسلہ جاری رہا وہاں بھی اسرائیل اپنے ٹینک، ہتھیار اور کشتیاں بیچنے کی وضاحت بار بار کرتا رہتا ہے۔ ایک طرف مغربی اقوام میانمارکی فوجی حکومت پر اس لیے مختلف پابندیاں لگا رہی ہیں کہ وہ اپنی اقلیتوں کو نیست ونابود کرنے پر تلے ہیں جب کہ دوسری طرف اسرائیل کا بھارت سے ہتھیاروں کی فروخت کا معاملہ بالکل قانونی کہلا رہا ہوتا ہے ۔اسرائیل بھارتی فوجی کمانڈو دستوں کے ساتھ مشترکہ مشقوں کی ویڈیوز بھی جاری کرچکا ہے۔ ان فوجی دستوں میں زیادہ تر ایسے بھارتی کمانڈو ہوتے ہیں جو غزہ میں انسانی آبادی والے علاقوں کو میدان جنگ بنا کر اپنی عملی تربیت حاصل کرتے ہیں۔بھارت کے کم از کم 16کمانڈو ایک وقت میں نیواتم اور پلماچم کے ہوائی اڈوں پر تعینات رہے تھے۔ یہ وہ کمانڈو تھے جو بھارت کے 45 رکنی فوجی دستے کے ساتھ تربیت پر اسرائیل آئے تھے۔ بھارت اسرائیل گٹھ جوڑ کواسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہوکے ایک بیان کاحوالہ دیتے ہوئے رابرٹ فسک نے طشت از بام کرتے ہوئے لکھاکہ’’ بھارت اور اسرائیل دہشت گرد حملوں کا دکھ بہت اچھے طریقے سے سمجھ سکتے ہیں۔ ہمیں ممبئی پر کیا گیا دہشت گرد حملہ یاد ہے۔ ہم اس نقصان پر تلملائے ہوئے ہیں اور ہم دوبارہ بھی حملہ کریں گے۔ ہم کبھی ہار نہیں مانیں گے‘‘۔یہ بیان نے 2008 ء میں ہونے والے ممبئی بم دھماکوں کو یاد کرتے ہوئے نیتن یاہونے اس وقت دیا تھا جب2018ء میں وہ اپنے پہلے سرکاری دورے پر بھارت گئے تھے۔