یہ بات شعوری طور پر سمجھنے اور سمجھانے کی اشد ضرورت ہے کہ قربانی کا مقصد فقط جانوروں کو ذبح کرنا نہیں بلکہ یہ ہرسال ماہ ذوالحجہ میں سہ روزہ تربیتی ورک شاپ منعقدکی جاتی ہے جو ہمیں ہر سال تسلیم و رضا ، ایثار اور قربانی کے ان جذبات سے آشنا کرواتی ہے جو ایمان کی معراج ہیں۔ آدابِ فرزندی سے سرشار عظیم باپ کے عظیم بیٹے نے اپنی گردن کسی تردد کے بغیر اللہ تعالی کے حکم کی تنفیذ کے لیے پیش کر دی۔اسماعیل علیہ السلام کے عظیم والد گرامی نے کسی تردد کے بغیرپدری جذبات کو رب العالمین کے حکم پر قربان کرتے ہوئے تسلیم و رضا کی بلند ترین حدوں کو چھو لیا اور عملی طور پر اپنے رب کے حکم کی تعمیل کی کوشش فرمائی۔ رب العالمین نے اپنے خلیل کو اپنے خاص لطف وکرم سے نوازنے کے لئے جس امتحان میں ڈالا تھا اس میں حضرت خلیل علیہ السلام اور ان کا گھرانہ سرخرو ہو گیا۔انسانی جذبات اور احساسات کی قربانی کے نتیجے میں حضرت ابراہیم علیہ السلام ہی نہیں ان کا پورا گھرانا ہی اللہ کی بارگاہ میں سرخرو ہو گیا۔ قیامت تک حج کی سعادت پانے والے دنیا بھر کے مسلمان منی میں قربانی پیش کرتے ہوئے اس قربانی کی یاد مناتے رہیں گے ۔ علمبرداران توحید قیامت تک ایک عظیم خانوادے کی عظیم قربانی کی یاد مناتے رہیںگے۔ اسی طرح دنیا بھر کے مسلمان اپنے اپنے علاقوں میں اس عظیم قربانی کی یاد تازہ کر کے اپنے ایمان کو جلا بخشتے رہیں گے۔ قیامت برپا ہونے سے قبل تک علمبرداران توحیدکی طرف سے عید الاضحی کے موقع پرجانوروں کی قربانی پیش کیاجاتا رہے گا۔ جس رب نے ہمیں قربانی کا حکم دیا ہے وہ جانوروں کی نسل کی بقا کا علم بھی رکھتا ہے اور اپنے بندوں کی فلاح و بہبود کو بھی خوب جانتا ہے۔ کسی کلمہ گو کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ قربانی کے حوالے سے اپنے محدود اور تاریک ذہن کے خیالات کو خدمت ِ خلق کے تناظر میں زیادہ نفع آفرین گمان کرے۔ہمیں یہ زیب نہیں دیتا کہ ہم یاد تو اس عظیم قربانی کی منائیں مگر عملی طور ایثار کے راستے پر نہ چلیں۔ ہمارا یہ طرز عمل نہیں ہونا چاہئے۔قربانی کو وسیع تناظر میں دیکھتے ہوئے ہمیں قربانی کا درس سارا سال پیش نظر رکھنا چاہئے تاکہ ہم اپنے رب کی رضا حاصل کر سکیں۔ اگر رب العالمین نے ہمیں اعلی منصب عطا فرمایا ہے تو وہ اپنا منصب اقربا پروری اور ناجائز منفعت حاصل کرنے پر صرف نہ کریں بلکہ رب العالمین کی مخلوق کو راحت پہچاننے میں صرف کریں۔ نیز خلقِ خدا کی راحت کو اپنی خواہشات پر ترجیح دیں۔ضرورت مند وںکی حسرتوں کاخون نہ نچوڑیں بلکہ اپنی ہرادا سے بہرطورضرورت مند اپنے مسلمان بھائیوں کو نفع پہنچائیں اورا پنے اختیارات اور منصب کے ذریعے ان کے تن بدن میں خوشیاں دوڑا دیں۔ قربانی دراصل اس تجدیدِ عہد کا نام ہے جس کی طرف قرآن مجید نے یوں ارشاد فرمایا کہ ایک بندہ مومن اللہ رب العزت کی بارگاہ میں یوں ملتمس ہوتا ہے’’بے شک میری نماز اور میرا حج اور قربانی سمیت سب بندگی اور میری زندگی اور میری موت اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے۔(الانعام162) اسلام نے اپنے پیروکاروں کو تسلیم و رضا ، ایثار اور قربانی کا وہ راستہ دکھایا ہے جوایمانی ، روحانی ، معاشی ،معاشرتی سماجی اور اخروی حوالے سے نفع آفرین ہے۔ فانی دنیا کی فانی راحتوں پر آخرت کی ہمیشہ باقی رہنے والی نعمتوں کو ترجیح دینا اس کے نتیجے میں اپنے احساسات اور جذبات کو رب کے حکم کے تابع کر دینا، اس کے نتیجے میں تمہیں فلاح و نجات کی ضمانت مل جائے گی۔ عید الاضحی اور انسانی خواہشات کی قربانی کے حوالے سے ذہن میں رکھنے والی سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم قربانی کے جانور کا گلا توکاٹ دیتے ہیں مگر ہم اپنی خواہشات کے گلے پر چھری پھیرنا تو دور کی بات ہے چھری رکھنا بھی گوارا نہیں کرتے۔ عید الاضحی آکر چلی جاتی ہے مگر ہمارے قلوب واذہان قربانی کے جذبوں سے خالی کے خالی ہوتے ہیں۔ ہم قربانی کے عمدہ جانور خریدتے ہیں تو فرط خوشی میں یا توغیر شعوری طور پریا تو دکھاوے کی دلدل میں الجھ جاتے ہیں یاان ناداروں کی دل آزاری کا سبب بن جاتے ہیں جو نہ توقربانی کے لئے نہ کوئی سستا سا جانور خرید سکتے ہیں اور نہ ہی کوئی صاحب ثروت انسان انہیں قربانی کے گوشت میں سے کوئی اچھا حصہ دیتا ہے۔ اس پوری تفصیل سے اس امرکی نشاندہی ہوتی ہے کہ عیدالاضحی پرجانوروں کی قربانی پیش کئے جانے کے پس منظرمیں ایک مکمل فلسفہ ہے اوراسی فلسفے کے تحت یہ ایک مستقل واجب،عبادت اورشعائر اسلام میں سے ہے۔عیدالاضحی یاعید قربان کے تین دنوں میں جانور وں کی قربانی کر دینے سے بہتر کوئی عمل ایسا نہیں جو ابنِ آدم اللہ کی بارگاہ میں پیش کرسکے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کے 10سالہ قیام میں ہر سال قربانی فرمائی۔اس ساری بحث کا لب لباب یہ ہے کہ ہر عمل کے اپنے مخصوص ثمرات اور فیوض و برکات ہیں جو قرب الہی کا ذریعہ بنتے ہیں مگر عید قربان میں قربانی کے عمل کو کیوں اللہ کے انتہائی قرب کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے؟ قربانی کا یہ عمل صرف جانور کو ذبح کرنے تک ہی محدود نہیں بلکہ یہ گہرے اور دور رس مضمرات (Implications) رکھتا ہے۔ جانور کے ذبح کرنے کے عمل کو قربانی سے اس لئے موسوم کیا گیا ہے کہ جانور کو ذبح کرنے کا عمل بندے کو اللہ کے انتہائی قریب کردیتا ہے۔ لیکن اس میں قربانی کرنے والے بندے کا اخلاص ایک سوالیہ نشان کے طور پر سامنے آتا ہے۔ کیا وہ قربانی جو بندہ ذبح کے طور پر پیش کر رہا ہے اس کے اللہ کی بارگاہ سے مطلوبہ نتائج حاصل ہوئے ہیں؟ اگر اس کا جواب اثبات میں ہے تو اس کا عمل قربانی اس کے لئے اللہ سے انتہائی قرب کا سبب قرار دیا جائے گا۔ گویا قربانی کی روح حقیقت میں اس قربانی کے پیچھے کار فرما اخلاص ہے۔ آئیے عہد کریں کہ ہم سے جس حد تک ممکن ہو گا ہم اپنے آرام، اپنے مال، اپنے وقت اور اپنے منصب کو اللہ کی رضاکے لئے قربان کریں گے۔ ایثار کے راستے پر چلنے کی بھرپور کوشش کریں گے۔ یاد رکھیں جو چیز ہم رب العالمین کی راہ میں بطور ایثار قربان کر دیں گے وہ دنیا اور آخرت میں ہمارے لیے راحت کا سامان ہوگی۔