ہجوم ِکار نے دَم، ان دنوں اْلٹا دیا ہے۔ کہاں یہ حال تھا کہ انہی سطور میں، بڑے ولولے سے کہا گیا تھا کہ ع ایک چکر ہے مِرے پائوں میں، زنجیر نہیں اور اب ایسی اور اتنی پابندی؟ ع ’’آئی‘‘ آواز ِسلاسل کبھی ایسی تو نہ تھی اخبار کھولنا تو درکنار، سرسری نگاہ کرنا بھی چھْوٹ گیا ہے۔ کبھی کبھی کوئی تحریر، البتہ دکھائی دے جاتی ہے۔ اتفاق سے، انہی دنوں دو تین کالم ایسے دیکھے ہیں کہ حیرت طاری ہو گئی۔ نیتوں کے حال، صرف خْدا جانتا ہے اور یا نیت رکھنے والا۔ بد گْمانی سے بھی، منع فرمایا گیا ہے۔ لیکن اس بے چارے موکل کا حال ذہن میں ہے، جس کے اپنے وکیلوں نے، صفائی چھوڑ کر استغاثہ شروع کر دیا ہے! گردش ِزمانہ یہ ہے کہ ارض ِ‘‘پاک’’ میں بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بحث، مقامی دانش وروں نے چھیڑ دی ہے۔ دلائل مگر اتنے سطحی اور کھوکھلے ہیں کہ ع برین عقل و دانش، بباید گریست جس اْٹھان اور جن تیوروں سے یہ بحث شروع ہوئی ہے، خْدا خیر کرے!: چشم اگر این است و ابرو این و نازو عشوہ این الفراق ای صبر و تقویٰ! الوداع ای ہوش و دین! جو نادر نکات اب تک اسے تسلیم کرنے کے سلسلے میں سامنے لائے گئے ہیں، بچگانہ ہی نہیں، ناعاقبت اندیشانہ بھی ہیں! مثلا’’عرب بھی تو کشمیر کے معاملے میں ہمارا ساتھ نہیں دیتے‘‘۔ چہ خوب! جان گویا ہمیں خْدا کو نہیں، عربوں کو دینی ہے! مثلا "زمینی حقائق پیش ِنظر رہنے چاہئیں"۔ سبحان اللہ! بھول گئے کہ زمین پر کی گئی ہر حرکت کا حساب، آخر ‘‘آسمان’’ کو دینا ہے؟ ساری دنیا کے بھی مسلمان ممالک، اگر حق کا ساتھ نہ دیں، تو اس کا ہمارے نامہء اعمال سے کیا تعلق؟ ہم سے سوال، صرف ہمارے اعمال کی بابت ہو گا۔ (بدقسمتی سے، وہ اب تک زیادہ حوصلہ اور اْمید افزا نہیں ہے!) آخرت میں اس عْذر کی خْوب داد ملے گی کہ عربوں نے ہمارے ساتھ زیادتی کی، سو ہم فلسطین کے معاملے میں، اسرائیل کے ہم نوا ہو گئے۔ مثلا "بھارت، اسرائیل کو ساتھ ملا کر ہمیں تباہ کر دے گا۔ اس لیے ہمارے مفاد میں ہے کہ ایک دشمن تو گھٹے"۔ اس ’’منصوبہ بندی‘‘ کی بھی داد مشکل ہے! جس طرح پاکستان نظریہء اسرائیل کو قبول نہیں کرتا، اسرائیل بھی نظریۂ پاکستان کو ہضم نہیں کر پایا۔ اس پر پاکستان کے نیوکلیائی ہتھیار، مَرے پر سو دْروں کے برابر ہیں! ایک نہایت معروف کالم نویس نے، گویا قلم ہی توڑ دیا ہے۔ غْصہ انہیں شاید، ہماری ناقص خارجہ پالیسی پہ نکالنا تھا، لیکن اسی جھونجھ میں یہاں تک لکھ گئے کہ قائد ِاعظم اگر چند برس اَور جیتے رہتے اور اقبال بھی موجود ہوتے، تو دونوں اسرائیل کو تسلیم کر لیتے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون! دلیل اس کی یہ دی ہے کہ جناح صاحب کبھی ہندو مسلم اتحاد کے، زبردست وکیل تھے اور اقبال نے بھی اوّل اوّل" سارے جہاں سے اچھا، ہندوستاں ہمارا" کا پیغام سنایا تھا۔ موصوف اس بنیادی نکتے کو فراموش کر گئے کہ دونوں کا سفر، بلندی کی طرف تھا اور مسافر، اصل منزل تک پہنچنے سے پہلے، پڑائو بھی کیا کرتے ہیں۔ یہ ہمت کالم نگار صاحب کی ہے کہ وہ ان زعماء کو بلندی سے پستی کی طرف لاتے ہیں۔ فاضل کالم نگار نے دنیا، غالبا زیادہ دیکھ لی ہے۔ بسا اوقات، کم نگاہی سے بڑھ کر مْضر، آنکھوں کا بے جا استعمال ہوتا ہے! یہ مرحلہ، قیام اور غور و فکر کرنے کا تھا۔ فلسطین اور اسرائیل کا معاملہ، جتنا گْنجلک بنا دیا گیا ہے، اتنا ہی حقیقت میں سادہ ہے۔ شرط یہ ہے کہ اسے میڈیا اور مرعْوبیت کی عینک سے نہ دیکھا جائے۔ کہا گیا ہے کہ "یہ مذہبی نہیں سیاسی اور سفارتی مسئلہ ہے، ورنہ تاریخ یہی بتاتی ہے کہ پہلے یہاں یہودی آباد تھے"۔ اس رہنما کی تعریف، مْمکن نہیں! اسے جھنڈے پر چڑھا کر، یہودی کہہ سکتے ہیں؟ کہ مدینہ میں بھی پہلے ہم پہنچے تھے! یہ بات، کہیں بین السطور اور کہیں کھْل کر کہی جا رہی ہے، کہ اسرائیلیوں کا اثر و نفوذ، ایسا بے پناہ ہے، کہ دوستی کے سوا چارہ نہیں۔ گویا، سوال یہ درپیش ہوا کہ ڈنک سے بچنے کے لیے، بچْھو سے دوستی کریں یا دْشمنی؟ بدقسمتی سے، اسرائیل، یہود اور صیہون کو، ہم معنی سمجھا گیا ہے۔ حالانکہ، ایک شخص، اسرائیلی اور یہودی ہو کر بھی فلسطین کا حمایتی ہو سکتا ہے۔ لاکھوں ایسے یہودی ہیں جو اسرائیل کے سخت مخالف ہیں اور فلسطین کے پْرجوش حامی! سارے یہودیوں کو یکساں جاننا، انسانیت کو بْرا ٹھہرانے کے برابر ہے! یہاں تک لکھ چکا تھا کہ نظر آج کے اخبار پر پڑی۔ پتا چلا کہ یک نہ شْد دو شْد۔ کالم نگار صاحب دوبارہ گویا ہوئے ہیں اور اس بار تو پھٹ ہی پڑے ہیں۔ آخر میں سوال کیا ہے کہ ہماری پالیسی، آخر ہے کیا۔ خْدارا، کوئی مجھے سمجھا دے۔ اس کا ایک جواب تو حضرت ِاکبر الٰہ آبادی دے گئے ہیں: تمہاری پالسی کا حال، کچھ کھْلتا نہیں صاحب ہماری پالسی تو صاف ہے ایماں فروشی کی اور بحیثیت ِقوم، پاکستانیوں کو پالیسی، قائد ِاعظم دے گئے ہیں۔ انہوں نے اسرائیل کو جب خیر سگالی کا پیغام دینے سے انکار کیا تھا تو راہ متعین کر دی تھی۔کالم نگار صاحب کا بنیادی نکتہ، یہ ہے کہ اب تک کی پالسی، چونکہ کامیاب نہیں ہوئی، اس کے برخلاف کر کے بھی دیکھ لینا چاہیے۔ اس کے جواب میں، یہ فرمان یاد آتا ہے کہ "دین میں داخل ہو، پْوری طرح"۔ دین میں ہم آدھے ہی داخل ہوتے ہیں۔ اسی واسطے دنیا سے بھی ہمیں ٹھکروایا گیا ہے۔ ایسے میں، پِٹنے اور پچھڑنے کی شکایت کیوں؟ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے کم از کم معنی یہ ہیں کہ اب تک جو لاکھوں فلسطینیوں کو بے گھر کیا جا چکا ہے، اس پہ ہمیں کوئی اعتراض نہیں! جو سوال فی الحقیقت، پاکستان سمیت پوری دنیا کے سامنے ہے، صرف یہ ہے کہ ساتھ فلسطین کا دینا ہے یا اسرائیل کا؟ یہ مْحرم کا مہینہ ہے۔ چودہ سو سال پہلے، حق اور باطل کے مابین، تفریق کرنے کو ہمارے امام ِعالی مقام اْٹھے تھے۔ اور یوں کہ ع سر داد، نہ داد، دست در دست ِیزید! جسے اْن کی پیروی کرنی ہو، ڈٹا رہے۔ جسے اْٹھنا ہو، اْٹھ جائے۔ اْمت کی اکثریت کے گْمراہی سے بچے رہنے کی ہمیں، نوید دی گئی ہے۔ اسرائیل طاقتور اور بہت طاقتور ہے۔ لیکن ع این حکم و غرور و خشم، تا چند؟ اور ھست از "اْو"، بزرگ تر خْدا وند