فلسطین اور اسرائیل میں حالیہ بموں اور راکٹ حملوں کے دھویں نے مسئلہ کو مزید پیچیدہ بنادیا ہے۔ ان کرب ناک لمحات میں، میں نے شلف میں پرانی کتابوں کی گرد جھاڑ کر فریقین کے امن کے حوالے سے موقف کو ایک بار پھر سمجھنے کی جستجو کی۔ ایک کتاب میں اس کرب ناک صورت حال کو محسوس کیا گیا ہے یہ جو نوایگزٹ کی صورت حال بن چکی ہے اس کو اسرائیل اور فلسطین کی قیادت کو بھی محسوس کرنا چاہیے جو ایک بار پھر حالت جنگ میں چلے گئے ۔ یہ کتاب ییلو ونڈyallow wind(زرد ہوا )دراصل اسرائیل کے ناول نگار ڈیوڈ گراس مین کی یادداشتوں پر مشتمل ہے اس میں 1998ء میں فلسطین ویسٹ بنک میں فلسطینیوں اوریہودی آباد کاروں کے درمیان گزرے وقت کو تحریر کیا گیا ہے اس کا کہنا ہے کہ فلسطین اور اسرائیل کے درمیان مستقل جنگ نے فریقین کے وقار کو مجروح کیا ہے۔ حالیہ جنگ کے دوران مجھے یہ افسوس ہوا کہ اس نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ مجھے ڈر ہے کہ یہ تنازعہ اگلے دس یا پھر بیس سال یونہی جاری رہے گا ۔اس کے مطابق وہ یہ بات اس لئے یقین سے کہہ رہا ہے کہ انسانی حماقت اور خواہش فریقین کو خطرے کا احساس تک نہیں ہونے دیتی۔ گراس میں نے یہ بات 30 بس پہلے لکھی تھی مگر ثابت یہی ہو رہا ہے کہ گراس مین کی سوچ آج بھی درست ثابت ہو رہی ہے ۔آج کے حالات میں اگر کوئی فرق ہے تو وہ اسرائیل اور فلسطین کے سیاسی حالات ہیں۔ آج اسرائیل کی فوج پہلے کی طرح ہی طاقت ور ہے اور یہ بات اسرائیل کی طرف سے غزا میں سفاکانہ بمباری نے ثابت کر دی ہے لیکن اسرائیل کے سیاسی حالات حالیہ چند برسوں میں ماضی کی نسبت بہت مختلف اور بدتر ہیں۔ اسی طرح فلسطین اتھارٹی کی کرپشن کے قصے بھی زباں زد عام ہیں فلسطین کا عملی کنٹرول حماس کے ہاتھوں میں ہے اور حماس بھی اسرائیلیوں شہریوں کو خوف زدہ کرنے سے کچھ زیادہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ مضبوط سیاسی قیادت کی عدم موجودگی میں اسرائیلی اور فلسطینی مایوسی میں اقدامات اٹھا رہے ہیں۔ فلسطین اسرائیل میں رہائش پذیر عرب اپنے آباد کار ہمسایوں کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں اور ردعمل میں نقصان برداشت کرتے ہیں زیپی لیوینی جو اسرائیل کی کابینہ کے سابق ممبر رہ چکے ہیں اور میری طرح بہت سے اسرائیلیوں کو اس بات کا علم ہے کہ وہ امن کے بہت بڑے داعی رہے ہیں مگر حالیہ جھڑپوں کے دوران وہ بھی مایوس نظر آتے ہیں انہوں نے نیو یارک ٹائمز کو ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ اس بار جو فلسطین میں ہوا اس کے لئے خانہ جنگی کے الفاظ استعمال نہیں کرنا چاہتا مگر جو ہوا یہ نیا اور مختلف تھا جو ناقابل برداشت اور خوفناک ہے میں حالات دیکھ کر افسردہ اور پریشان ہوں۔ کوئی وقت ہوا کرتا تھا کہ امریکہ کی طرف سے امریکی قیادت میں امن عمل کے حوالے سے اپنے عزم کا اظہار کیا جاتا تھا۔ اس خالی عزم کی بھی کم از کم اتنی اہمیت تو ہوتی تھی کہ یہ عزم، سفارتی ’’پریشر والو ‘‘کی حیثیت رکھتا تھا مگر اب تو یہ پریشر والو بھی نہیں رہا اور یہ المیہ محض ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے دو ریاستی حل سے بیزاری کی وجہ سے ہی نہیں ہوا بلکہ اس میں اسرائیل اور خود فلسطینیوں کی اپنی عدم دلچسپی کا بھی ہاتھ ہے۔ فلسطینیوں کی الگ ریاست کے روایتی قیام کی بات تو اب گزرے زمانوں کی بات لگتی ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے دو ریاستی حل کے دو متبادل حربے بھی استعمال کر کے دیکھ لئے ایک حربہ تو عرب ریاستوں کو اسرائیل کے ساتھ تعلقات نارمل کرنے پر قائل کرنے کا استعمال کیا گیا تاکہ فلسطینیوں کی عسکری قوت کو عربوں کی صورت میں جو ویٹو پاور کا اختیار حاصل ہے اس کو زائل کر دیا جائے جبکہ دوسرا حربہ فلسطین کو معاشی اور سماجی ترقی کے ساتھ سیاسی حقوق کی فراہمی تھی تاکہ فلسطینیوں کو اسرائیل کے ساتھ مفاہمت کے ساتھ رہنے پر مائل کیا جا سکے۔ ابراہم اکارڈ خلیجی ریاستوں کے لئے تو مفید اور موثر تھا مگر فلسطین میں یہ حل بری طرح ناکام ہوا ہے۔فلسطینی مذاکرات کی میز پر سودے بازی کی صلاحیت اپنی غلطیوں کی وجہ سے ہی بری طرح کھو چکے ہیں مگر اس کے باوجود بھی نا ہی اپنی شکست کے اسباب پر نظرثانی کرنے پر آمادہ ہیں نا ہی اپنی باقی ماندہ جائیدادوں کے حق سے دستبردار ہونے کو تیار ہیں جو یقینًا ان کی عظمت اور وقار کی علامت ہے۔ موجودہ اسرائیلی قیادت اب فلسطینیوں کے ساتھ کسی قسم کی بات چیت کے لئے تیار نہیں ایک سفارت کار نے مجھے بتایا کہ ٹرمپ انتظامیہ اسرائیل کے غزا میں توسیع پسندانہ عزائم کی حمایت پر آمادہ تھی۔ بشرطیکہ اسرائیل فلسطین کو مغربی کنارے میں سیاسی اور قانونی حقوق دینے پر آمادہ ہو جاتا مگروزیر اعظم نیتن یاہو اتنی قیمت بھی ادا کرنے پر تیار نہ تھے نا ہی ان کو 2014ء میں اوبامہ کی ڈیل قبول تھی جس میں جنرل ایلن نے اسرائیل کے لئے جامع سکیورٹی پلان بھی مرتب کیا تھا۔ نیتن یاہو نے تنازعہ سے نکلنے کا راستہ قبول نہیں کیا۔ انہوں نے اس قسم کی ڈیل اس لئے قبول نہیں کی کہ ایسا کرنے سے ان کی اتحادی حکومت کو خطرہ ہو سکتا تھا حکومت بچانے کے لئے ہی انہوں نے آبادکاری جاری رکھی۔اس قسم کے حالات میں قومی قیادت کو کسی قسم کا رویہ اختیار کرنا چاہیے اس کے بارے میں میرے پاس ایک اور کتاب ہے۔ یہ رابن وچ کی بائیو گرافی ہے رابن ایک سپاہی اور سیاستدان تھے جنہوں نے 1993ء میں اوسلو معاہدے کی صورت میں حقیقی امن کی کوشش کی تھی ان حالات میں دو ہی آپشن بچتے ہیں پہلی یہ کہ امن کے لئے سنجیدہ کوشش کی جائے یا پھر دنیا اسی طرح تباہی کا نظارہ کرتی رہے۔ رابن جب وزیر اعظم بنے تو انہوں نے 1992ء میں وائٹ ہائوس میں ایک سال بعد ہی پی ایل او کے یاسر عرفات سے زوردار مصاحفہ کیا تھا اور دو سال بعد رابن کو اسرائیل کے شدت پسندوں نے قتل کر دیا تھا۔اس وقت فلسطین پر بمباری دیکھ کر دل گرفتہ ہے لیکن اس مسئلے کا حل باہر سے ممکن نہیں اس مسئلے کا واحد حل اسرائیل اور فلسطین کی قیادت کے پاس ہے اور وہ سابق اسرائیلی وزیر اعظم کی طرح فلسطینیوں کا ہاتھ تھامنا ہے جو بظاہر مشکل نظر آتا ہے۔ (ترجمہ:ذوالفقار چودھری)