شیخ رشید نے کہا ہے کہ آصف زرداری نواز شریف سے بھی زیادہ بیمار ہیں۔کون زیادہ بیمار ہے‘ پتہ چل ہی جائے گا لیکن شیخ صاحب نے یہ بیان زرداری کی ہمدردی سے زیادہ نواز شریف سے عدم ہمدردی میں دیا ہے۔ نواز شریف کی حالت تو فوری ہنگامی شدید خطرے کے درجے میں آ گئی ہے۔ زرداری صاحب بھی بیمار ہیں اور ان کے جسم میں پلیٹ لیٹس کی تعداد بھی کم ہوتی جا رہی ہے۔ سوال ہے کہ ان دونوں رہنمائوں کے پلیٹ لیٹس قیدی کے طور پر ہی کیوں کم ہوئے۔ اس مرحلے پر بلاول بھٹو زرداری کا یہ بیان بھی اب ریکارڈ کا حصہ بن گیا ہے کہ دونوں لیڈروں کی جان خطرے میں ہے۔ انہیں کچھ ہوا تو ذمہ دار نیب کے چیئرمین ہی ہوں گے۔ انہوں نے نیب کی تحویل میں مرنے والے متعدد قیدیوں کا ذکر بھی کیا اور اشارہ کیا کہ ان کا مقدمہ احتساب کے چیئرمین پر بنایا جانا چاہیے۔ ٭٭٭٭٭ ایسے لوگوں کی تعداد البتہ بڑھ رہی ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ نیب کی حراست میں دونوں لیڈربیماری کا شکار ہوئے پراسرار طور پر دونوں کے پلیٹ لیٹس بغیر کسی وجہ کے کم ہوئے ہیں۔ اس کی تشریح اس ’’شبہ‘‘ کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے۔ بالخصوص نواز شریف تو مختصر المیعاد نشانے پر تھے۔ پی ٹی آئی کے صادق و امین حضرات سوشل میڈیا پر پوسٹیں کر رہے ہیں کہ اب چاہے نواز شریف کو لندن لے جائیںچاہے نیو یارک‘ کچھ نہیں ہو سکتا ان کی بیماری کافی حد تک بڑھ چکی ہے۔ اب ان کے لئے دعا صحت کریں۔ تصدیق مزید کے لئے آج سے چھ سات ماہ پہلے شیخ جی کے بیانات یاد فرمائیے۔ کیمرے کے سامنے‘ ڈنکے کی چوٹ پر انہوں نے کیا فرمایا تھا؟انہوں نے فرمایا تھا‘ اب ان کے ’’تابوت‘‘ ہی جیل سے باہر آئیں گے۔’’ان‘‘ سے مراد نواز شریف اور زرداری تھے۔ تابعدار اور مودب صحافیوں میں سے کسی نے ان سے سوال نہیں پوچھا کہ آخر کیوں! نواز شریف کو سات سال قید ہوئی۔ سزائے موت تو نہیں ہوئی۔ پھر ان کا تابوت ہی باہر کیوں آئے گا اور زرداری صاحب پر تو ابھی مقدمہ چلا بھی نہیں۔ انہیں تو کوئی سزا ہوئی ہی نہیں۔ یہ علم غیب‘ انہیں کہاں سے ہوا۔ ظاہر ہے‘ یہ علم غیب‘ انہیں دارالغیب ہی سے ہوا جہاں سے غیب کی دوسری خبریں انہیں القا کی جاتی ہیں۔ مثلاً یہ کہ کسے ‘ کب‘ کتنی سزا ہوئی ہے‘ اب کون‘ کس کیس میں پکڑا جائے گا۔ سوائے رانا ثناء اللہ کے ان کی ساری اطلاعات درست ثابت ہوئیں۔ اس کی خبر بھی انہوں نے دی تھی۔ غلط صرف وہ حصہ ہوا جس میں ان کا ’’جرم‘‘ بتایا گیا تھا۔ گرفتاری سے کچھ دن قبل جرم کا تعین تبدیل کر دیا گیا۔ چونکہ فیصلہ جلد بازی میں ہوا۔ ٭٭٭٭٭ نواز شریف کے ساتھ جو ہوا۔ فیصلہ بہت پہلے کر لیا گیا تھا۔ فیصلے کے فیصلہ کن مرحلے پر عملدرآمد نیب کی تحویل کے 13دنوں میں کیا گیا اور مطلوبہ نتائج برآمد ہو گئے۔ آخری مرحلہ بھی طے ہو جاتا لیکن یک بیک نہ جانے کیا ہوا کہ سکیم میں ترمیم ہو گئی اور یہ خدشہ منہ پھاڑ کر سامنے آ گیا کہ معاملہ گلے میں پڑ جائے گا۔ اب چودھری شجاعت نے بھی کہا ہے کہ نواز شریف کو باہر جانے دو ورنہ معاملہ گلے پڑ جائے گا۔ مطلب یہی ہے کہ باہر بھجوا دیں۔ چھ ماہ بعد کوئی شدنی ناشدنی ہو گئی تو ہمارا ذمہ اوش پوش ورنہ بلائیں خانہ بنی گالہ کا رخ کریں گی۔ عرض ہے کہ بلائوں نے جدھر رخ کرنا تھا کر لیا۔مالک غیب بہرحال نہیں ہوتے تو اپنے آقائے ولی نعمت پرویز مشرف کو اس باوردی میں منتخب کرانے کے عزم پر بھی عمل کرا ہی لیتے۔ بہرحال شیخ جی تاریخ کے ریکارڈ پر احسان کر گئے۔ ٭٭٭٭٭ کس نے کتنا جینا ہے۔ خدا ہی جانتا ہے۔ مادر ملت کو شہید کرنے کے بعد ایوب خاں بھی سکوں سے نہ رہ سکا۔ اقتدار کے آخری برس ذلت و رسوائی سے بھرے نعرے سنتے گزاری۔ پھر چند ہی برس بعد چل بسے جنرل ضیاء نے لمبی مدت کے لئے حکمرانی کا خواب دیکھا اور ان کا طیارہ انہیں لے کر عدم کے گھاٹ اتر گیا۔ تاریخ کسی کی مرضی سے نہیں لکھی جاتی۔اس بات کو لے لیجیے۔ دو اڑھائی برس تک ہم نے دیکھا کہ دنیا کی سب سے بڑی پروپیگنڈہ مہم چلائی گئی کہ نواز شریف کا نام کرپشن میں ہے۔ کیا ایسا ہو سکا؟ آج نواز شریف ’’سٹیٹس کو‘‘کی مزاحمت کا نام بن چکا ہے۔ مورخ اور ادیب ڈاکٹر صفدر محمود نے کہ نواز شریف کے سخت ناقدرے ہیں۔ کل پرسوں ہی لکھا کہ اتنی بڑی مہم کے بعد بھی‘ چودہ ماہ میں نواز شریف سے کرپشن کا ایک دھیلا بھی نکلوایا نہیں جا سکا نہ ہی ایک دھیلے کی کرپشن ثابت نہیں ہو سکی۔ پی ٹی آئی کے حامی اس صورت حال پر ’’غم و غصے‘‘ میں ہیں۔ غم اور غصے کا حاصل جمع مایوسی کہلاتی ہے۔ عرض ہے حضور‘ اس میں کسی کا دوش نہیں۔ آپ تو آپ تھے ہی۔ آپ کو ’’فری ہینڈ‘‘ بھی۔پھر کیوں نہیں ایک دھیلے کی بھی کرپشن ثابت کی؟ کس نے روکا؟ بات اتنی ہے کہ جرم کرپشن نہیں وہ ہے جس کی طرف پی ٹی آئی کے وزیر داخلہ نے اشارہ کیا یعنی’’نافرمانی‘‘ کا اور یہ نافرمانی اب تاریخ بن رہی ہے‘ بنا دی ہے۔