فہمیدہ کی اس وقت بلوچ اور سندھی قوم پرستی سے والہانہ وابستگی شعروں میں، شعلہ جوالہ بنی ہوئی تھی… جسم پر پیراہن پارہ پارہ/گولیوں سے بدن پارہ پارہ/بے سہارا لہو بہہ رہا ہے/خون بیدار ہے جلد سوتا نہیں/سینۂ سنگ میں جذب ہوتا نہیں/تازہ تازہ لہو بہہ رہا ہے او ریہ سندھ کی دھرتی سے محبت ہی تھی جس نے انہیں ایک سندھی کامریڈ کی محبت کا اسیر کر دیا … شادی پہلی ہو یا دوسری یا تیسری، یہ ایک ذاتی فیصلہ ہوتا ہے، اس پر پبلک میں گفتگو نہیں کی جاتی… مگر یہی وہ وقت تھا جب ہم سب اپنی اپنی ڈگریاں بغل میں دبائے اس راہ پر کھڑے تھے جہاں ایک راستہ شاندار نوکریوں، غیر ملکی اسکالر شپوں کی طرف جا رہا تھا تو دوسری طرف سرخ پھریروں اور انقلابی نعروں میں، ہم مستقبل سے بے خوف پرسکون گھروں سے دور سرپٹ دوڑے جا رہے تھے… فہمیدہ ریاض جو لندن جیسا شہر چھوڑ کر شدید قسم کی ڈی کلاس ہوئی تھیں اور سندھی، بلوچ قوم پرستوں کے ساتھ بہت آگے جا چکی تھیں اس میں ان کے لیے اس شہر میں نہ تو چار دیواری تھی اور نہ نوکری چاکری… مشاعروں اور رسالوں سے نہ پیٹ بھرتا ہے نہ بچوں کی پرورش۔ اس پر جب ریاست کا جبر تھانوں اور کچہریوں میں بھی پھیرے لگوانے لگے تو پھر دو ہی راستے رہ جاتے ہیں… ایک وہ کہ جس میں سرکاری تمغے ملتے ہیں اپنا حال روشن اور بچوں کا مستقبل تابناک ہوتا ہے… ایک فیض، دو جالب اور تین چار کو چھوڑ کر سب اپنے قلم، اسلام آباد کی دہلیز پر رکھ چکے تھے… فہمیدہ کے پاس اتنے پیسے تو تھے نہیں کہ یورپ کی جلاوطنی اختیار کرتیں… ایک شام خاموشی سے وہاں پلٹ گئیں کہ جہاں سے ان کے آباواجداد نے ہجرت کی تھی… دہلی میں سال بھر بعد فہمیدہ سے ملاقات ہوئی تو سر پہ پڑی سیاہ چادر، اور آنکھوں میں تیرتی تراوٹ کے بعد نہ کچھ کہنے کو رہا نہ سننے کو… مہینے بعد وزیراعظم محمد خاں جونیجو کے نام ایک خط میں ایک نظم ملی اور ایک اپیل کہ اگر ضیاء کا مارشل لاء واقعی رخصت ہوگیا ہے تو مجھے اپنے وطن لوٹنے دیا جائے… اپیل منظور ہوئی، فہمیدہ نے دہلی میں جلا وطنی بڑی سبھائو سے کاٹی اور یہ کہہ کر کراچی واپس آگئیں کہ: ترا مجھ سے کوکھ کا ناتا ہے/مرے من کی پیڑا جان ذرا/وہ روپ دکھاؤں تجھے کیسے/جس پر سب تن واردیا/ہیں جن کے ہاتھ پہ انگارے/میں ان بنجاروں کی چیری /ماں اُن کے آگے کوس کڑے/اور سر پہ کڑکتی دوپہری /میں بندی باندھوں کی باندی/وہ بندی خانے توڑیں گے/ہے جن ہاتھوں میں ہاتھ دیا/سو ساری سلاخیں موڑیں گے/تو سدا سہاگن ہو ناری/مجھے اپنی توڑ نبھانا ہے/ری دلی چھو کر چرن ترے/مجھ کو واپس مڑ جا نا ہے پیپلز پارٹی کی حکومت کا پہلا دور اس اعتبار سے خوش آئند تھا کہ جس میں فہمیدہ ریاض کی اسلام آباد میں پذیرائی ہوئی…مگر شریف حکومت کے ساتھ ہی اُن کی نوکری بھی چلی گئی۔اور پھر اُس کے بعد پیپلز پارٹی کا تیسرا دور آیا تو اردو لغت بورڈ میں لگا دی گئیں جہاں پر انہوں نے و ہ کا م کیا ،جو برسہا برس سے نہیں ہوا تھا۔مگر ایک دم حکم آیا کہ آپ اپنی عمر کے سبب ریٹائرڈ کردی گئی ہیں۔اردو لغت بورڈ جیسے اداروں میں تو ضرورت ہی ان لوگوں کی ہوتی ہے جن کی عمریں لفظوں کو بناتے سنوارتے گزرتی ہوں۔یہ کوئی گریڈوں کی ملازمت تو نہیں ہوتی۔ مگر ہماری سرکاریں یہ کیا جانیں۔ادھر اردو لغت سے فارغ ہوئیں۔تو وعدہ کے نام سے این جی او بنائی جو بچوں کی کتابوں کی اشاعت کا کام کرتی تھی۔مگر فہمیدہ کی این جی او ایسی نہ تھی جس کے سربراہوں کو پجیرو گاڑیاں ملتی ہیں ،فائیو اسٹارہوٹلوںمیں اجلاس ہوتے ہیں،غیر ملکی دورے ہوتے ہیںاورجعلی کھاتے بنائے جاتے ہیں۔بدقسمتی سے ہماری ان این جی اوز میں ڈونرز کے ساتھ مل بانٹ کر کھایا جاتا ہے ۔فہمیدہ نے ساری زندگی جس طرح گزاری اس میں وہ یہ سودا کیسے کرسکتی تھیں۔سو ایک دن روزگار کا یہ در بھی بند ہوگیا۔ادھر کچھ عرصے سے ایک اشاعتی ادارے سے منسلک تھیں۔جس سے گھر کا چولہا جل رہا تھا۔فہمیدہ نے اس ادارے میں اتنا بڑا کا م کیا تھا کہ اگر کسی غیر ملکی ادارے کے لئے کرتیں تو پیسوں سے مالا مال ہوجاتیں۔مگر وطن عزیز میں لکھنے پڑھنے سے بھی گھر بار چلا کرتا ہے؟ چند برس پہلے اُن کے نوجوان بیٹے کبیر کی ناگہانی موت نے فہمیدہ کو نڈھال کر کے رکھ دیا تھا۔ یقین سے کہہ سکتا ہوں کسی ماں نے اپنے بیٹے کی موت پر ایسا دل دہلا دینے والا مرثیہ نہ لکھا ہوگا۔’’تم کبیر‘‘ ایک طویل نظم ہے جو کتابی صورت میں آچکی ہے۔ جس کی ایک ایک سطر پڑھنے والوںکو رُلا دیتی ہے۔اور سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ ایک ایسی نظم ہے کہ جس ماں کا بھی نوجوان بیٹا اُس سے جدا ہو ا ہوگا،وہ اِسے اپنا ذاتی نوحہ ہی سمجھے گی۔۔۔اپنے بیٹے کی پہلی سالگرہ پر فہمیدہ نے کس طرح اُسے یاد کیا۔ جس دن تجھ کو مان بھری ممتا کا دودھ پلایا/خون چوستا وحشی اُس دن شہروں میں در آیا/جب ترے ماتھے میں نے پہلا کاجل ٹیک لگایا/گھر گھر پر چھایا تھا اس دن سنگینوں کا سایا/سالگرہ کا کیا تحفہ دوں ،ہر سو برسے آگ /ہاں یہ مرے اگن کھلونے ہاں یہ مرے راگ/باٹ کے کانٹے تجھے پکاریںیہ لے مرا ہاتھ/پہلا قدم اٹھا دھرتی پراپنی ماں کے ساتھ اور پھر آہستہ آہستہ زیادہ وقت اُن کا بستر پر گزرنے لگا۔یہاں بھی المیہ یہ ہوا کہ کراچی کے ایک بہت بڑے اسپتال کے معالج ان کا مرض ہی نہیں جان سکے ۔سال بھر ٹی بی کا علاج کرتے رہے ۔معلوم ہوا کہ وہ تو ان کو تھی ہی نہیں۔پھر دوسرا مرض دریافت کیا اور اس میں ایسے ایسے ٹیسٹ کئے گئے کہ مستقل بستر ہی سے لگ گئیں ۔فہمیدہ جیسی شاعرہ کے ساتھ اس سفاک معاشرے نے کیا سلوک کیا،اس نے اتنا افسردہ کیا ہے کہ مزید قلم نہیں اٹھ رہا۔ برسوں پہلے انہوں نے ممتاز ادیب سید سبط ِ حسن کی موت پرایک نظم لکھ دی تھی۔’’تعزیتی قراردادیں‘‘۔ایسا لگتا ہے جیسے وہ خود اپنا تعزیت نامہ لکھ چکی تھیں۔ یارو! بس اتنا کرم کرنا/پسِ مرگ نہ مجھ پہ ستم کرنا /مجھے کوئی سند نہ عطا کرنا دینداری کی/مت کہنا جوشِ خطابت میں/دراصل یہ عورت مومن تھی/مت اٹھنا ثابت کرنے کو ملک و ملت سے وفاداری/مت کوشش کرنا اپنالیں حکام کم از کم نعش مری/یاراں! یاراں!/کم ظرفوں کے دشنام تو ہیں اعزاز مرے/منبر تک خواہ وہ آ نہ سکیں/کچھ کم تو نہیں دلبر مرے/ہے سرِ حقیقت جاں میں نہاں/اور خاک و صبا ہمراز مرے/توہین نہ ان کی کرجانا/ خوشنودیٔ محتسباں کے لیے /میت سے نہ معافی منگوانا/دمساز مرے/تکفین مری گر ہو نہ سکے/مت گھبرانا/جنگل میں لاش کو چھوڑ آنا/یہ خیال ہے کتنا سکوں افزا/جنگل کے درندے آلیں گے/بن جانچے مرے خیالوں کو/وہ ہاڑ مرے اور ماس مرا/اور مرا لعلِ بدخشاں دل/سب کچھ خوش ہوکر کھالیں گے /وہ سیر شکم/ہونٹوں پہ زبانیں پھریں گے/اور ان کی بے عصیاں آنکھوں میں چمکے گی/تم شاید جس کو کہہ نہ سکو/وہ سچائی/یہ لاش ہے ایسی ہستی کی/جو اپنی کہنی کہہ گزری/تا عمر نہ ہرگز پچھتائی