اب یہ وقت نہیں کہ نیپ اور بھٹو صاحب کی لڑائی کی تفصیل میں جایا جائے۔ قصور دونوں طرف کے مہم جو انقلابیوں کا بھی تو تھا۔جس کے نتیجے میںجنرل ضیاء الحق کا چیختا چنگھاڑتا مارشل لاء تو آنا ہی تھا۔فہمیدہ ان شاعروں ،ادیبوں میں تو تھیں نہیں کہ جو بھٹو مخالفت پر ضیاء الحق کے دور میں اکیڈمی آف لیٹر سے خود کو کیش کرا رہے تھے ۔اب وہ ضیاء آمریت کے خلاف کھڑی پیپلز پارٹی کے جیالوں کے ساتھ کھڑی تھیں۔جو جئے بھٹو کا نعرہ لگا کر ننگے پیٹوں پر کوڑے کھا رہے تھے ۔فہمیدہ نے اس زمانے میں گھر کا چولہا جلانے کے لئے ایک رسالہ ’’آواز‘‘ نکالا ۔جسے اشتہارات تو کیا ملتے۔غداری کے مقدمے بننے لگے۔عدالت پہنچیں تو آج کے گھگھیائے سیاستدانوں کی طرح معافی نہیں مانگی۔بلکہ کھلی عدالت میں یہ بیان لکھوایا: چیتھڑا ہے یہ قانون /باغیوں کے قدموں کی/ اس سے دھول جھاڑیں گے/آمری نحوست ہے /یہ نظام ِاحکامات /بی چوک پھاڑیں گے/وقت آنے والا ہے/احتساب ہم لیں گے/جب حساب ہم لیں گے/پھر حساب دینے کو /پھر کہاں تم ہوگے وارنٹِ گرفتاری نکلے۔تو ملک بدری پر مجبور ہوگئیں۔ فہمیدہ کے پاس اتنے پیسے تو تھے نہیں کہ یورپ جلا وطنی اختیار کرتیں۔ایک شام وہاں لوٹ گئیں کہ جہاں ان کے آبا ء نے ہجرت کی تھی۔دہلی میں سال بھر بعد فہمیدہ سے ملاقات ہوئی تو سرپر پڑی سیاہ چادر اور آنکھوں میں تیرتی تراوٹ کے بعد نہ کچھ کہنے کو رہا نہ سننے کو۔مہینے بھر بعد ایک نظم کے ساتھ وزیر اعظم محمد خان جونیجو کے پاس ایک خط ملا کہ اگر ضیاء الحق کا مارشل لاء واقعی ختم ہوگیا ہے تو مجھے اپنے وطن لوٹنے دیا جائے۔فہمیدہ ریاض کی جونیجو حکومت نے اپیل منظور کی ۔فہمیدہ نے دہلی میں جلاوطنی بڑے سبھاؤ سے کاٹی۔اور یہ کہہ کر کراچی واپس آ گئیں۔ تو سدا سہاگن ہو ناری/مجھے اپنی توڑ نبھانا ہے/ری دِلی چھو کر چرن ترے/مجھے اپنی موڑ مڑ جانا ہے ضیاء الحق کی آمریت ختم ہوئی ۔پیپلز پارٹی کا دور اس اعتبار سے خوش آئند تھا کہ فہمیدہ ریاض کو نیشنل بک کونسل میں نوکری ملی ۔مگر شریفوں کی حکومت کے آتے ہی وہ نوکری بھی چھین لی گئی۔الزام ہندوستان ایجنٹی کا لگا،جو ساری زندگی ان کا پیچھا کرتا رہا۔معذرت کے ساتھ۔مودی کے یار نے قومی اسمبلی کے بھرے اجلاس میں پی پی پی کی حکومت پر دیگر الزامات کے ساتھ یہ الزام بھی لگایا کہ انہوں نے فہمیدہ جیسی بھارتی ایجنٹ کو سرکاری ملازمت دی ۔تصور میں لائیں ۔یہ بیان باقاعدہ پی ٹی وی پر فہمیدہ کی تصویروں کے ساتھ چل رہا تھا۔بڑی دہشت کا سماں تھا۔دوسروں کو تو کیا دو ش دوں۔قریبی دوست بھی ملنے سے گریزاں ہوگئے۔بہر حال ایک اشاعتی ادارے کو کریڈٹ دینا پڑے گا کہ جس نے دہائی اوپر فہمیدہ کو بڑا سہارا دیا۔مگر 2007ء میں وطن سے دور نوجوان بیٹے کبیر کی امریکہ میں مو ت نے فہمیدہ کو بستر سے لگا دیا۔ہئے ہئے کیا نوحہ لکھا ہے۔ ہر اُس ماں کا جس کاجوان بیٹا وطن سے دور اُسے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے چھوڑ جائے۔ لوگ کیوں گودی میں بھر کر لائے ہیں بیٹا مرا/ہوگیا بیمار کیا؟/میں نہ کہتی تھی نہیں رکھتے تم اپنا خیال /اب نہ جانے دوں گی سردی میں تمہیں/ٹھیک ہوں ،وہمی ہوں /وہمی سہی/پڑ ھ کے پاکیزہ کلام/لوگ رخصت ہوگئے/گھر اکیلا ہوگیا /پھولوں بھرا/وہ رہا کمرا تمہارا /اس جگہ سوتے تھے تم/اس میں اب ہم تم رہیں گے کیوں کبیر کبیر کی موت،کچی پکی نوکری ،اُس پر اس سفاک معاشرے اور حکمرانوں کی بے حسی نے فہمیدہ کو مستقل بستر سے لگا دیا۔ فہمیدہ کا اکثرشکایتی فون آتا’’ملتے کیوں نہیں؟‘‘ ہر بار وضاحت سے کہا۔’’عمر کے چار پہر کامریڈیت میں لگادئیے،پیٹ اسکرین سے لگا ہے، نوکری پورے سے زیادہ وقت مانگتی ہے ۔‘‘مگر فہمیدہ ایسی باتوں سے کیوں قائل ہوتیں۔انہوں نے تو اپنی بھرپور جوانی کے دن نہیں۔۔۔ساری زندگی ہی اُس انقلاب کو دے دی کہ جس کے مجسمے کے گرنے پر بھی وہ امید نو کے انتظار میں تھیں۔لاہور جانے سے ایک دن پہلے فون آیا ۔’’میں جارہی ہوں،آکر مل لو۔‘‘فہمیدہ کے ہمیشہ جانے کا یقین ہوتا تو جاکر مل بھی لیتا۔مگر اس طرح اتنی جلدی؟بدھ کو ربیع الاول کی چھٹی کے دن گھر پر ہی تھا۔رات کے دوسرے پہر میں خالد احمد کا فون آیا۔خالد عموماً رات کے اسی پہر میں فون کرتے ہیں۔ڈوبتی ہوئی آواز میں کہا۔’’ہماری دوست چلی گئی۔‘‘عمر کے اس پہر میں اب گھونٹ گھونٹ لینے میں گھنٹہ لگ جاتا ہے۔ہاتھ سے فون گرا تو ایک ہی گھونٹ میں گلاس خالی کردیا۔مہینہ ہونے کو آرہا ہے ۔تعزیتی ریفرنس ہو رہے ہیں۔انہیں علم تھا کہ ان کے لئے وہی سب رسمی کلمات کہے جائیں گے۔جو کسی کی رخصتی پر کہے جاتے ہیں۔اسی لئے اپنی زندگی میں ہی اپنا تعزیت نامہ خود ہی لکھ گئیں۔ تعزیتی قراردادیں یارو! بس اتنا کرم کرنا/پسِ مرگ نہ مجھ پہ ستم کرنا /مجھے کوئی سند نہ عطا کرنا دینداری کی/مت کہنا جوشِ خطابت میں/دراصل یہ عورت مومن تھی/مت اٹھنا ثابت کرنے کو ملک و ملت سے وفاداری/مت کوشش کرنا اپنالیں حکام کم از کم نعش مری یاراں! یاراں! کم ظرفوں کے دشنام تو ہیں اعزاز مرے/منبر تک خواہ وہ آ نہ سکیں/کچھ کم تو نہیں دلبر مرے/ہے سرِ حقیقت جاں میں نہاں/اور خاک و صبا ہمراز مرے/توہین نہ ان کی کرجانا/خوشنودیٔ محتسباں کے لیے /میت سے نہ معافی منگوانا دمساز مرے تکفین مری گر ہو نہ سکے/مت گھبرانا/جنگل میں لاش کو چھوڑ آنا/یہ خیال ہے کتنا سکوں افزا/جنگل کے درندے آلیں گے/بن جانچے مرے خیالوں کو/وہ ہاڑ مرے اور ماس مرا/اور مرا لعلِ بدخشاں دل/سب کچھ خوش ہوکر کھالیں گے وہ سیر شکم ہونٹوں پہ زبانیں پھریں گے/اور ان کی بے عصیاں آنکھوں میں چمکے گی/تم شاید جس کو کہہ نہ سکو/وہ سچائی/یہ لاش ہے ایسی ہستی کی/جو اپنی کہنی کہہ گزری/تا عمر نہ ہرگز پچھتائی(ختم شد)