برسلز میں نیٹو ہیڈ کوارٹرز کے دورہ اور بلجیم کے وزیر خارجہ سے ملاقات کے دوران وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے افغانستان کی بگڑتی صورت حال کا ذکر کرتے ہوئے بین الاقوامی برادری سے مدد کی درخواست کی ہے۔وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ افغانستان کو دہشت گردوں کی پناہ گاہ بننے سے روکنے کے لئے عالمی تعاون ناگزیر ہے۔انہوں نے کہا کہ انسانی بحران پر قابو پانے ‘معیشت کی بحالی اور دیرپا امن کے لئے عالمی برادری کو سنجیدہ کاوشیں بروئے کار لانا ہوں گی۔ افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد طالبان نے اقتدار سنبھال لیا۔نائن الیون کے وقت عالمی برادری خصوصاً مغربی دنیا کو طالبان سے جو شکایات تھیں موجودہ طالبان حکومت نے ان کا ازالہ کرنے کی کوشش کی ہے۔طالبان نے کابل پر قبضہ کرتے ہوئے کسی طرح کا خون خرابہ نہیں کیا‘آثار قدیمہ کو تباہ کرنے کی بجائے ان کی حفاظت کا انتظام کیا‘لڑکیوں کی تعلیم کی حمایت کی‘ خواتین کو ملازمت کی اجازت دی اور عالمی برادری کو یقین دلایا کہ افغان سرزمین کسی دوسرے ملک کے مفادات کو نقصان پہنچانے کے لئے استعمال نہیں ہو گی۔یہ یقین دہانی زبانی کلامی نہیں طالبان نے اگست 2021ء سے لے کر تاحال اپنے قول کا پاس رکھا ہے۔طالبان کی جانب سے اپنے ہمسایہ ممالک اور خطے کی طاقتوں کے ساتھ مسلسل رابطے اور مشاورت کا نتیجہ ہے کہ کابل میں کئی ممالک کے سفارتی مشن کام کر رہے ہیں۔برطانیہ‘ روس‘ چین‘ پاکستان‘ سعودی عرب اور خود امریکہ قطر کے سفارت خانے کے توسط سے افغانستان میں اپنا مشن چلا رہا ہے۔گویا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان میں سے چار افغانستان میں اپنا سفارتی مشن بحال رکھے ہوئے ہیں۔مسئلہ صرف یہ ہے کہ ان سفارتی رابطوں اور موجودگی کے باوجود یہ طاقتیں افغانستان پر طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کر رہیں۔ان کے تسلیم نہ کرنے کی وجہ سے وہ ممالک جو ان بڑے ممالک کے زیر اثر اپنی پالیسیاں ترتیب دیتے ہیں‘ اب تک گومگو کی کیفیت میں ہیں۔ امریکی انخلا کے بعد قائم ہونے والی طالبان حکومت کے لیے اس وقت سب سے بڑا چیلنج معاشی بحران ہے۔ طالبان حکومت کے وزیر خارجہ ملا امیر خان متقی نے کچھ عرصہ قبل امریکی کانگریس کو ایک کھلا خط لکھا ، جس میں افغانستان کے منجمند اثاثوں کو جاری کرنے کی درخواست کی گئی تھی۔اس خط میں امیر خان متقی نے تنبیہ کی تھی کہ اگر امریکہ نے نو ارب ڈالر مالیت کے اثاثے جاری نہیں کیے اور معاشی پابندیاں ختم نہ کی گئیں تو انسانی بحران شدت اختیار کر سکتا ہے۔اس خط میں انہوں نے لکھا تھا کہ طالبان حکومت نے ملک میں سیاسی استحکام پیدا کیا ہے اور امن قائم کیا ہے لیکن بڑھتی ہوئی معاشی مشکلات پہلے سے موجود انسانی بحران میں اضافہ کر رہی ہیں۔اس معاشی بحران کی جڑ امریکہ کی جانب سے ان اثاثوں کو منجمد کرنا ہے جو ہمارے عوام کے ہیں۔ملاامیر خان متقی کے مطابق حالات اسی رخ پر رہے تو افغانستان میں طالبان کی حکومت اور عوام کی مشکلات میں اضافہ ہو گا جس کی وجہ سے خطے اور دنیا میں بڑی تعداد میں لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوں گے۔ امریکہ کے علاوہ عالمی بینک اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی جانب سے بھی مالی امداد کی مد میں سوا ایک ارب ڈالر کی رقم کو موخر کر دیا گیا جو اسی سال جاری ہونی تھی۔اس مالی بحران کے باعث افغانستان میں طالبان حکومت کو سرکاری ملازمین سمیت ڈاکٹرز اور اساتذہ کو تنخواہیں دینے میں مشکلات کا سامنا ہے بلکہ اس کا اثر نچلی سطح پر بھی دیکھا جا رہا ہے۔ موسم سرما کے آغاز پر غذائی اجناس کی قلت نے بحران کی سنگینی میں اضافہ کر دیا ہے ۔اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام نے خبردار کیا ہے کہ برسوں سے جاری خانہ جنگی اور طول پکڑتے قحط سے افغانستان کی چار کروڑ آبادی میں سے نصف کے لیے موسم سرما فاقوں کا باعث بن سکتا ہے۔افغانستان میںروزگار ، خوراک اور بنیادی ضروریات کی عدم دستیابی کے باعث ہمسایہ ممالک پر مہاجرین کا دباو بڑھ رہا ہے ۔ناروے کی ریفیوجی کونسل کے مطابق تقریبا تین لاکھ افغان شہری ایران جا چکے ہیں جب کہ پانچ ہزار شہری روزانہ کی بنیاد پر غیر قانونی راستوں سے افغانستان کے دیگر ہمسایہ ممالک جا رہے ہیں۔ افغانستان کو کئی شعبوں میں مدد کی ضرورت ہے ۔ دو روز قبل نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی نے واشنگٹن میں امریکی وزیر داخلہ انتھونی بلنکن اور دیگر امریکی حکام کے ساتھ ملاقات میں افغان خواتین کو درپیش مسائل سے آگاہ کیا۔ میڈیا سے گفتگو میں ملالہ یوسف زئی نے بتایا کہ ہم نے لڑکیوں کی تعلیم کے منصفانہ مواقع پر بات کی اور افغانستان مین لڑکیوں کو ثانوی تعلیم تک رسائی کے محدود مواقع پر تشویش کا اظہار کیا۔ملالہ نے افغان خواتین کی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ امریکی حکام افغانستان میں خواتین کو ملازمت اور تعلیم جاری رکھنے میں مدد دینے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔اس موقع پر امریکی وزیر خارجہ نے بھی میڈیا سے گفتگو کی تاہم انھوں نے افغانستان کا ذکر نہیں کیا اور ملالہ یوسف زئی کے تعلیم کے میدان میں کیے گئے کاموں کو سراہتے رہے۔ پاکستان اپنی استعداد کے مطابق افغان بھائیوں کی مدد کر رہا ہے لیکن پورے ملک کی معاشی ضروریات کو اکیلے پورا کرنا ناممکن ہے ۔دنیا کو سمجھ لینا چاہئے کہ معاشہی مواقع کی کمی نے اب تک افغانوں کو تشدد کے ساتھ جوڑا ہوا ہے ،افغان سر زمین پر امن کاشت کرنے کے لئے لازم ہے کہ دنیا معاشی بحالی کے لئے جنگ سے تباہ حال ملک کی مدد کرے ۔