فنکار قومی سرمایہ ہوتے ہیں ، فنکار اور ان کی تخلیقات سے ہی دنیا میں سفارت کاری کا فریضہ بہتر طور پر انجام دیا جا سکتا ہے۔ تاریخ میں اس بات کے حوالے اکثر ملتے ہیں کہ جنگجو حکمرانوں نے ہزاروں انسان قتل کئے مگر ان میں سے کچھ ایسے تھے کہ انہوں نے فنکاروں کو قتل نہ کیا اور وہ ان کو قید کر کے اپنے ملکوں میں لے گئے ، جہاں ان فنکاروں اور ہنر مندوں نے ان ملکوں میں فن کی ترویج میں حصہ لیا اور وہ ملک تہذیب یافتہ ہو گئے ۔ قیام پاکستان کے بعد ذوالفقار علی بھٹو پہلے حکمران تھے جنہوں نے فن کی ترویج کیلئے اقدامات کئے ، ادارے بنائے ، جن میں اکادمی ادبیات ، مقتدرہ کے علاوہ آرٹس کونسلوں کا قیام شامل ہے ۔ ان اداروں کے قیام سے مصور مشرق عبدالرحمن چغتائی ، استاد اللہ بخش، صادقین ، ملک عاشق نقاش ، صادق علی شہزاد ، جیسے فنکاروں کا نام دنیا کے نقشے پر ابھر کر سامنے آیا مگر افسوس کہ ضیاء الحق کے دور میں فنی تخلیقات کی حوصلہ افزائی کی بجائے الٹ ہوا، جس سے ملک میں علم و دانش ، فن و ثقافت کی ترویج میں نہ ہو سکی۔ روزنامہ 92 کی ایک خبر کے مطابق پنجاب کے سیکرٹر ی اطلاعات و ثقافت راجہ جہانگیر انور نے آرٹسٹوں کیلئے ’’ آرٹسٹ سپورٹ فنڈ ‘‘ قائم کیا ہے ۔ جس میں فلم ، ٹی وی ، ریڈیو ،تھیٹر ، میوزک ، ڈانس ، پینٹنگ، خطاطی ، مجسمہ سازی و دیگر فنی شعبہ سے افراد کو امداد دی جائے گی ۔ کم از کم عمر کی حد 50 سال اور متعلقہ شعبہ میں تجربہ کا درانیہ 25 سال ہے ۔ قواعد و ضوابط میں بتایا گیا ہے کہ امداد ان فنکاروں کو دی جائے گی جن کی ماہانہ آمدنی 15 ہزار سے کم ہے۔ وزارت اطلاعات حکومت پنجاب کی طرف سے دیگر فنی شعبہ جات کی وضاحت میں بتایا گیا ہے کہ ان میں ایڈیٹر ز، ساؤنڈ ریکارڈرز، لائٹس مین ، کیمرہ مین ، سٹنٹ مین ، میک اپ آرٹسٹ ، شامل ہیں ۔ قواعد میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ صرف صوبہ پنجاب کے رہائشی فنکار درخواست جماعت کرانے کے اہل ہیں ۔معذور فنکاروں کیلئے عمر و تجربہ کی قید نہیں ہے ۔ تاہم متعلقہ ہسپتال کا معذوری سرٹیفکیٹ لف کرنا ضروری ہے۔ گزشتہ دور حکومت میں راجہ جہانگیر انور سیکرٹری اطلاعات بنے تو انہوں نے آرٹسٹ سپورٹ پروگرام شروع کیا ، جس سے صوبے کے ہزاروں آرٹسٹوں کو ریلیف ملا ، یہ اس لئے بھی ضروری تھا کہ ملک میں ساؤنڈ ایکٹ کے بعد فنکاروں کے چولہے ٹھنڈے ہو گئے تھے اور نوبت فاقہ کشی سے خود کشیوں کی طرف جا پہنچی تھی اور اس دوران بہت سے فنکار کسمپرسی اور فاقہ کشی میں فوت ہوئے ۔ سپورٹ پروگرام سے ان کو ریلیف ملا تھا مگر تحریک انصاف کے بر سر اقتدار آنے کے بعد صوبے کی وزارت اطلاعات و ثقافت کا قلمدان فیاض الحسن چوہان کے پاس آیا تو انہوں نے آرٹسٹ سپورٹ پروگرام ختم کر دیا ، جس سے فن سے وابستہ افراد کو جو چھوٹا موٹا ریلیف ملتا تھا وہ بھی بند ہو گیا ۔ یہ بات قابل تعریف ہے کہ سیکرٹری اطلاعات راجہ جہانگیر انور نے موجودہ وزیر اطلاعات محترم میاں اسلم اقبال سے آرٹسٹ سپورٹ فنڈ 2019-20 کی منظوری حاصل کر لی ہے ۔ اور آرٹسٹوں سے درخواستیں طلب کی گئی ہیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ عمل شفاف ہو اور اس اس کا دائرہ پورے صوبے تک پھیلایا جائے خصوصاً دور دراز دیہی علاقوں کے فنکاروں کو کسی صورت نظر انداز نہیں ہونا چاہئے ۔ سرائیکی وسیب خصوصاً وسیب کے مرکزی شہر ملتان کا فن کی دنیا میں بہت بڑا نام ہے ، سنٹرل ایشیاء کی ریاست آذربائیجان جائیں تو آپ کا استقبال ملتانی سرا اور ملتانی کارواں کے نام سے بنائے گئے ادارے کریں گے ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو صدیوں پہلے علم و ہنر کی ترویج کیلئے ملتان سے وہاں گئے اور وہیں کے ہو کر رہ گئے مگر وہاں کی حکومت نے اعترافِ فن کے طور پر اسی نام کو آج تک برقرار رکھا ہوا ہے۔ 1992ء میں پہلی سرائیکی کانفرنس میں شرکت کیلئے جب ہم دہلی گئے توہمیں آگرہ میں تاج محل کی سیر کرائی گئی ۔ ملاقات پر تاج محل کے ایڈمنسٹریٹر نے ہمیں بتایا کہ دنیا کا یہ عجوبہ ملتان کے ہنر مندوں کی کوشش سے جب پایہ تکمیل کو پہنچا تو ہماری ہندی زبان میں کہاوت شامل ہوئی کہ ’’ آگرہ اگر ، دلی مگر ، ملتان سب کا پِدر ‘‘ ۔ جس طرح ملتان کی تاریخ ہزاروں سالوں پر محیط ہے اسی طرح فن کی دنیا میں بھی ملتان کا نام بہت قدیم ہے ۔ ملتان میں کرافٹ بازار اپنی مثال آپ تھا ۔ مگر گزشتہ دور حکومت میں کرافٹ بازار کو مسمار کر دیا گیا اور کہا گیا کہ عالی شان نیا کرافٹ بازار بنے گا مگر آج تک وہ نوبت نہیں آ سکی ۔ آج موجودہ حکومت کو اس اہم مسئلے کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ماضی قریب کے فنکاروں کی خدمات پر ہم نظر دوڑائیں تو ہمیں ملک عاشق نقاش ( پرائیڈ آف پرفارمنس ) ، استاد عالم ( کاشی گر ) ، استاد اللہ بخش (پرائیڈ آف پرفارمنس ) ،استاد عبدالرشید قریشی ( کیمل بون ورک ) ، رشیدہ بیگم ( ملتانی کڑھائی ) ، استاد ابراہیم ( ملتانی ظروف سازی ) ، صادق علی شہزاد ( مجسمہ ساز ) ، استاد اعجاز نظامی (خطاط) ، استاد ابن کلیم ( خطاط ) ، استاد شوکت ( قالین بافی ) ، استاد عبداللہ ( چھاپ گر ) ۔ یہ وہ فنکار ہیں جو دنیا فانی کو سدھار گئے اور جنہوں نے دنیا کے اکثر ممالک سے اعزازات اور ایوارڈ حاصل کئے ۔ قابل افسوس بات یہ ہے کہ پوری دنیا میں ان کی قدر افزائی ہوئی مگر حکومت پاکستان نے ان کے فن کی قدر افزائی نہ کی ۔ اسی طرح آج بھی معروف آرٹسٹ ضمیر ہاشمی ( پنسل ورک)،راشد سیال ، استاد عبدالرحمن نقاش، اجمل چشتی ( شیشہ کٹ ورک ) ، حق نواز ( اُکیر ساز ) ، استاد منظور ( قالین و کھسہ ورک ) ، محمد واجد (کاشی گر ) ، محمد شفیق ( کمہار ) ایسے لوگ ہیں جنہوں نے دنیا کے ایک سو سے زائد ممالک کا وزٹ کیا اور یہ جہاں بھی گئے انہوں نے اول انعام حاصل کیا ۔ ابھی حال ہی میں تاشقند میں نمائش تھی ، 80 ممالک شریک تھے ، مگر ان میں پہلا انعام استاد عبدالرحمن نقاش نے حاصل کیا ۔ وزارت اطلاعات و ثقافت کے ذیلی ادارے خصوصاً آرٹس کونسلوں کے قیام کا مقصد مصوری ، ادبی ، موسیقی ، ڈرامہ ، نئی کتب کی تقریب رونمائی ، قومی تہواروں پر تقریبات کا انعقاد ، حسن قرات، نعت خوانی کے مقابلے ، غیر ممالک میں فنی نمائشوں کا انعقاد شامل ہے ۔وسیب میں آرٹ اور موسیقی سے وابستہ افراد کسمپرسی کا شکار ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ محروم اور پسماندہ علاقوں کے ان فنکاروں کو بھی اس عمل میں شامل کیا جائے کہ کسی بھی فن کو فنی جِلا محروم اور پسماندہ علاقوںمیں ملتی ہے ۔ بڑے شہروں میں مصنوعی اور نمائشی سلسلے زیادہ ہوتے ہیں جبکہ اصل فنکار اور سننے والے دور دراز کے غریب اور پسماندہ علاقوں میں پائے جاتے ہیں ۔ گودڑی کے یہ لعل ضائع نہ ہو جائیں ، ان کو محفوظ کرنے اور آگے لے آنے کی ضرورت ہے۔