اگر فواد چودھری وزیر اعلیٰ ہوتے؟ جن دنوں پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے لئے گھمسان کا رن تھا‘ انہی دنوں اس عنوان کے ساتھ کالم لکھنے کا ارادہ تھا لیکن ارادہ تکمیل تک نہ پہنچا۔2018ء انتخابات کے وقت حالات غیر معمولی غور و فکر کا تقاضا کرتے تھے‘ عمران خاں کو مرکز اور پنجاب میں اگرچہ اپنے مخالفین پر برتری حاصل تھی لیکن حکومت سازی کے لئے مطلوب اکثریت نہیں تھی اس لئے انہیں بعض چھوٹے گروپوں اور آزاد ممبران اسمبلی کو ساتھ ملا کر مخلوط حکومت بنانا پڑی، اس طرح کی کمزور حکومت کے ساتھ کوئی قابل قدر کارنامہ انجام نہیں دیا جا سکتا‘ عثمان بزدار جیسے کمزور اور ناتجربہ کار کے ساتھ ہرگز نہیں مرکز کو پنجاب سے مدد درکار تھی، ان حالات میں مرکز کو بروقت پنجاب حکومت کی دیکھ بھال کرنا پڑی‘ ان حالات میں اگر فواد چودھری پنجاب کے وزیر اعلیٰ ہوتے تو یقینا وہ کچھ دیکھنا نہیں پڑتا، جس نے بالآخر پاکستان کی چولیں ہلا کر رکھ دیں۔تب فواد چودھری آزمودہ نہیں تھے۔مختلف وزارتوں اور ذمہ داریوں کو نبھانے کے بعد انہوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا لیا ہے، یقینا وہ مستقبل میں زیادہ اہم اور بڑی ذمہ داریوں کو نبھانے اور سنبھالنے کے لئے تیار ہو چکے۔چوہدری پرویز الٰہی کی چھوٹی سی بھول نے انہیں پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا مضبوط امیدوار بنا دیا ہے گزشتہ انتخاب کے بعد وہ وزارت اعلیٰ کے امیدوار نہیں تھے شاید ہو بھی نہیں سکتے تھے تب ان کی راہ میں دو ایک بڑی رکاوٹیں تھیں۔پہلی یہ کہ جنوبی پنجاب کی تحریک الگ صوبے کا مطالبہ لے کر ایک پورا گروپ شامل ہوا تھا‘ چنانچہ ان کی تالیف قلب کے لئے سرائیکی خطے سے وزیر اعلیٰ کا انتخاب ناگزیر تھا۔دوسری وجہ تحریک انصاف کے بڑے اس منصب کے لئے میدان میں تھے یعنی جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی‘ ایک سیکرٹری جنرل دوسرا ڈپٹی چیئرمین‘ ان دونوں کی کشمکش میں یہ ہوا کہ لڑتے لڑتے ہو گئی گم‘ ایک کی چونچ اور ایک کی دم‘ ترین صاحب سپریم کورٹ میں نااہل قرار پائے انہوں نے سیاست میں نااہلی کے باوجود شاہ محمود سے شہباز کو آرائیں گھرانے کے معمولی ’’ممولے سے لڑوا‘‘ دیا۔ صرف لڑوایا ہی نہیں ہروا بھی دیا، اب کے بار فواد چودھری سیاسی قدو قامت میں ان کے برابر ہو چکے ہیں، دوسرے یہ کہ جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کا قطعی فیصلہ ہو چکا ہے لہٰذا جنوبی پنجاب کو وزارت اعلیٰ دے کر خوش کرنے کے بجائے ایسے شخص کی ضرورت ہے جو پنجاب میں نئے صوبوں کے قیام کے لئے ٹھوس اور جرات مندانہ فیصلے لے سکے‘ اس میں نہ صرف انتظامی قابلیت ہو بلکہ وہ لوگوں کو قائل کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہو۔ممکن پنجاب میں ایک سے زیادہ صوبے اور ہائی کورٹ کے مزید بنچ تشکیل دینا پڑیں‘ لاہور سے تعلق رکھنے والے جج صاحبان اور بااثر وکلاء نے طویل عرصے سے اس مطالبے کو نظرانداز کر رکھا ہے۔ممکن ہے بہاولپور کو بھی صوبہ بنانا پڑے اور جنوبی پنجاب کے علاوہ شمالی پنجاب بھی ایسا ہی مطالبہ کرنے لگے‘ ان حالات میں فواد چوہدری کارآمد ثابت ہو سکتے ہیں۔فواد چودھری کو تحریک انصاف یا عمران خاں نے جو بھی ذمہ داری سونپی اس نے بہترین صلاحیت کا مظاہرہ کیا‘ وزارت اطلاعات میں ان کی کارکردگی شاندار رہی‘ انہوں نے بھڑوں کے چتھے میں ہاتھ ڈالا اور سلامت نکل آئے۔نہ صرف سلامت نکل آئے بلکہ انہوں نے بعض بڑی بڑی اور زہریلی بھڑوں کے ڈنگ بھی نکال دیے۔تب رقیبوں نے رپٹ لکھوائی جا جا کے تھانے میں’’تو انہیں وزارت اطلاعات سے وزارت سائنس اور ٹیکنالوجی میں بھیج دیا گیا۔ڈاکٹر عطاء الرحمن کے بعد یہ وزارت سونی پڑی تھی‘ کوئی بھی اس سونی نگری کو بسانے کو تیار نہیں تھا‘ فواد چوہدری کے قدم رکھتے ہی بے جان بولتا تھا مسیحا کے ہاتھ میں ‘ ہر طرف وزارت سائنس اور ٹیکنالوجی کا طوطی بولنے لگا اب یوں لگتا تھا کہ گویا یہی وزارت دراصل وزارت اطلاعات ہے بلکہ وہ اس کا تتمہ بن کر رہ گئی‘ نئی ایجادات کا ڈول ڈالا گیا کرونا کی وبا نے سر اٹھایا تو بڑے مسائل درپیش سے مالک اور سینی ٹائزر سے لے کر وینٹی لیٹر تک بنا ڈالے بالآخر انہیں وزارت اطلاعات میں لایا گیا‘ بعد میں تحریک انصاف کے ترجمان مقرر کیا گیا اقتدار میں رہنا‘ وزارت سنبھالنا‘ مختلف محکموں کی کارکردگی بڑھانا‘ بہتر کرنا ان کی ذمہ داری اس نے خوب نبھائی لیکن اقتدار سے الگ ہونے کے بعد آزمائش نے آن لیا تو وہ اس بڑے چیلنج کو قبول کیا اور آزمائش پر پورے اترے۔ حالانکہ آزمائش سے پہلے آزمائے جانیوالوں کو نشان عبرت بنایا گیا‘شہباز گل اور اعظم سواتی کے ساتھ ہونے والا سلوک کسی بھی بہادر سے بہادر شخص کو بھی حواس باختہ کرنے اور جھک جانے پر مجبور کرنے کے لئے کافی تھا اگرچہ فواد چوہدری‘ شہداء اور غازیوں کی سرزمین کا سپوت کافی تھا اس کیساتھ ہی اس کے ہوش مند والدین نے قیمتی تحفے سے نواز رکھا تھا اس تحفے نے آزمائش میں خوب ساتھ نبھایا۔ میرا اشارہ حبأ فواد کی طرف ہے‘ حبأ جس کا بجائے خود مطلب ہی تحفے کا ہے۔حقیقتاً نہ صرف فواد چودھری کے لئے گراں قدر تحفہ ثابت ہوئیں بلکہ مستقبل میں تحریک انصاف کے لئے بھی قیمتی اثاثہ ثابت ہونے والی ہیں‘ فرخ الطاف فواد کے چچا زاد اور سابق گورنر چودھری الطاف کے فرزند جو تحریک انصاف کے ایم این اے تھے خیال کیا جاتا تھا کہ وہ اپنے والد کے صحیح جانشین ثابت ہونگے۔نہیں معلوم وہ زرداری کی ترغیب کی نذر ہو گئے یا نقاب پوشوں کے دبائو میں آ گئے اس طرح چودھری الطاف حسین کی سیاسی وراثت خود بخود چودھری فواد کے حصے میں آ گئی۔حبا فواد‘ فواد کے لئے واقعی better halfثابت ہوئیں(نصف بہتر) کو گھر میں چھپا رکھا تھا‘ فواد پر کڑا وقت پڑنے پر ان کی اہلیہ شیرنی کی دھاڑ کے ساتھ اپنی کچار سے نکلی، اس کی شان‘ کاٹ اور دھاڑ ایسی تھی کہ غینم کے ہوش خطا ہو گئے ۔وہ جلد ہی اس نتیجے پر پہنچ گئے فواد کو فوراً باہر نکال دیا جائے ،ورنہ دہاڑتی ہوئی شیرنی سب کی نیندیں حرام کر سکتی ہے فواد کو بھی تھوڑا گھبرانا چاہیے کہ اس کے اپنے آنگن متبادل تیار ہے جو تحریک انصاف کی ترجمانی کے لئے کچھ کم نہیں ہوں گی‘ فرخ کی وجہ سے خاندان کی ایک قومی اسمبلی کی نشست خطرے میں پڑنے والی تھی حبا فواد اسے محفوظ بنا سکتی ہے۔ بہتر ہو گا کہ چوہدری فواد صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑیں اور بیگم صاحبہ کو قومی اسمبلی کے لئے تحریک انصاف کا امیدوار بنا دیں، اسمبلی میں ان کی موجودگی فواد چوہدری کی طاقت اور اہمیت کو بہت بڑھا دے گی‘ وزارت اعلیٰ کی امیدواری کے لئے انہیں ابھی سے پورے اعتماد کے ساتھ خم ٹھونک کر میدان میں اترنا چاہیے، حبا فواد جس بے جگری سے للکارتی ہوئی میدان میں اتری وہ سب کے لئے خصوصاً تحریک انصاف کے کارکنوں کے لئے خوشگوار حیرت کا باعث بنی۔اگرچہ فواد چوہدری کی گرفتاری پر عمران کی بہت ہی طاقتور اور توانا آواز کے ساتھ تحریک انصاف کی انگننت آوازیں اٹھیں اور فضاکو مرتعش کر دیا تھا۔خدانخواستہ یہ آوازیں دستیاب نہ ہوتیں تو بھی ان کا نصف بہتر ہی ان کے لئے کافی تھا۔محترم خاتون نے رونے دھونے آنسو بہانے کی بجائے مردانہ وار میدان میں اترنے کا فیصلہ کیا، اس کے چہرے پر رنج اور ملال کی بجائے لڑ جانے کا عزم اور ارادہ ظاہر تھا، وہ فتح یاب ہونے کے قومی احساس کے ساتھ آئی اور کامران واپس لوٹ گئی، اس نے عدالت کے باہر اعلان کیا کہ میں آج فواد کے بغیر نہیں اسے لے کر ہی گھر جائوں گی، اس نے اپنے کہے کو سچ کر دکھایا ۔ غالب نے کہا تھا: دھمکی میں مر گیا جو نہ باب بزد تھا عشق بزد پیشہ طلب گار مرد تھا