معزز قارئین!۔ اسلام آباد پسندؔ امیر جمعیت عُلماء اسلام فضل اُلرحمن گروپ کی طرف سے پارلیمنٹ میں صِرف پندرہ ارکان کے ’’بَل بوتے پر ‘‘متبرک مہینے ربیع الاوّل میں ،دھما چوکڑی مچاتے ہُوئے نہ صِرف وزیراعظم عمران خان اور اُن کی حکومت پر زبان و بیان کے گُل کھلائے جا رہے ہیں بلکہ ، قومی اداروںکے بارے میں بھی ناروا روّیہ اختیار کِیا جا رہا ہے ؟۔ اداروںؔ کے حوالے سے فضل اُلرحمن صاحب نے ، پاک فوج پر جس طرح زبان طعن دراز کی ، اُس پر پاکستان کے محب وطن حلقوں کی طرف سے ناپسندیدگی کا اظہار کِیا گیاہے ۔ 7 ربیع الاوّل ، 5 نومبر کو راولپنڈی میں کور کمانڈر کے 26 ویں اجلاس سے ، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے خطاب کِیا ۔ آئی ۔ ایس ۔ پی ۔ آرکے مطابق جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ ’’ پاک فوج۔ ریاستِ پاکستان کا ادارہ ہے اور آئین پاکستان کے مطابق،جب اُسے کہا جائے گا تو، وہ دشمن طاقتوں کو شکست دینے اور استحکام پاکستان کی کوششوں کی حفاظت کے لئے قومی اداروںؔ کی حمایت جاری رکھے گا ‘‘۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے یہ بھی کہا کہ ’’ داخلی سلامتی کو کسی مذموم ؔمقصد کی بھینٹ نہیں چڑھنے دِیا جائے گا، مشرقی سرحد "L.O.C" مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر کی صورت حال کی نگرانی ، جائزہ اور دفاعِ پاکستان کا مکمل خیال رکھا جائے گا‘‘۔ معزز قارئین!۔ جنرل قمر جاوید باجوہ اِس سے پہلے بھی وطن عزیز اور اہلِ پاکستان کی تسلی اور اطمینان کے لئے اِسی طرح کے جذبات اور احساسات کا اظہار کرتے رہے ہیں لیکن ، اسلام آباد میں آزادی ماؔرچ کے نام پر نا محرم چہروں کی نمائش نے محبِ وطن پاکستانیوں کے لئے بے چینی اور تشویش کا ماحول پیدا کردِیا ہے ؟۔ ’’ عدالتی انقلاب کے بعد ؟‘‘ 28 جولائی 2017ء کو ’’ سپریم کورٹ کے (اُن دِنوں ) جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس اعجاز افضل خان ، جسٹس گلزار احمد ، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز اُلاحسن پر مشتمل سپریم کورٹ کے لارجر بنچ نے اُن دِنوں کے وزیراعظم میاں نواز شریف کو اپنے اثاثوں کو ظاہر نہ کرنے اور جھوٹا بیان حلفی جمع کرانے پر آئین کی دفعہ "62-F-1" کے تحت صادق ؔاور امینؔثابت نہ ہونے پر ، تاحیات نااہل قرار دے دِیا تھا تو ، 30 جولائی کو میرے کالم کا عنوان تھا۔ ’’ سلام !۔ ’’ عدالتی انقلاب‘‘ ۔ تو شروع ہوگیا ؟‘‘۔ مَیں نے لکھا تھا کہ ریاست پاکستان کے چارستون ہیں۔ پارلیمنٹ،حکومت،عدلیہ اور میڈیاہیں لیکن ، ہمارے پیارے پاکستان میں عرصۂ دراز سے صرف ’’ Judiciary‘‘ اور ’’Media‘‘ ہی ریاست پاکستان کے دو خیر خواہ ستون ہیں۔ اگر کبھی ’’Legislature‘‘ اور ’’Executive‘‘ عوام کی بھلائی پر توجہ دیتیں تو ،آج پاکستان میں 60 فی صد لوگ غُربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کیوں کر رہے ہوتے؟۔ مَیں نے لکھا تھا کہ ’’ سپریم کورٹ کے لارجر بنچ کی طرف سے وزیراعظم نواز شریف کو نا اہل اور اُن کے اور اُن کے اہلِ خاندان کے خلاف نیب کو مقدمات چلانے کی ہدایت سے پتہ چلتا ہے کہ ’’ پاکستان میں ’’Judicial Revolution ‘‘ (عدالتی انقلاب ) آگیا ہے اور اب جاری رہے گا ۔ پاکستان میں قومی دولت لوٹنے والا صِرف شریف خاندان ہی نہیں بلکہ آصف زرداری اور اُس قبیل کے اور بھی کئی گروپس ہیں۔ اب عدالتی انقلاب کا ’’Law Roller‘‘ تیز رفتاری سے چلے گا۔ اِنشاء اللہ۔ مَیں نے اپنے اُس کالم میں صِرف ریاست پاکستان کے چارؔ ستونوں کا تذکرہ کِیا تھا اور ریاست پاکستان کے پانچویں ستون ۔ فوج کا ذکر نہیں کِیا تھا حالانکہ ، 9 جون 1992ء کو ’’نوائے وقت ‘‘ میں اور 8 اکتوبر 2013 کو میرے کالم کا عنوان تھا ۔ ’’ فوج۔ مملکت کا پانچواں ستون!‘‘ ۔ یعنی۔ "Fifth Piller of the State" ۔ 31 اگست 2014ء کو میرے کالم کا عنوان تھا ۔’’ دھکاّ سٹارٹ جمہوریت ۔ سہولت کار فوج!‘‘۔ معزز قارئین!۔ آج پارلیمنٹ میں حزب اختلاف کی دو بڑی پارٹیاں نواز شریف برادرِ خورد میاں شہباز شریف ، کی قیادت میں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور ’’دامادِ بھٹو ‘‘ آصف زرداری کی صدارت میں ’’ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز ‘‘ ( پی۔ پی۔ پی۔ پی) ۔ بے شمار مقدمات میں ملوث ’’بیمارانِ سیاست ‘‘ اور اُن کے افراد خانہ کو بچانے کے لئے سرگرم عمل ہیں ۔ تحریکِ پاکستان کے مخالفین کانگریسی مولویوں کی باقیات فضل اُلرحمن صاحب کو اُنہوں نے اپنا لیڈر بنا رکھا ہے ؟۔ اِس سے زیادہ سیای پستی اور کیا ہوسکتی ہے؟۔ کیوں نہ ہم آج اُن "Chiefs of Army Staff" کو سلام پیش کریں ، جنہوں نے اپنے چاہنے والوں کی خواہشات کے باوجود ملک میں مارشل لاء لگا کر ’’ نام پیدا‘‘ نہیں کِیااور نہ ہی بدنامی مول لی؟۔ "Living Legend" جنرل راحیل شریف پاکستان کے پہلے آرمی چیف تھے ، جنہوں نے 25 جنوری 2016ء کو ہی اعلان کردِیا تھا کہ ’’ مَیں اپنے عہدے کی مدّت ختم ہونے ، مقررہ وقت پر ( 29 نومبر 2016ء کو ) ریٹائر ہو جائوں گا ‘‘۔ جنرل راحیل شریف ، اِس سلسلے میں بھی دوسرے آرمی چیفس سے منفرد ہیں کہ اُنہوں نے 18 دسمبر 2015ء کو (حکومتِ پاکستان کی طرف سے قومی خدمات پر ملنے والے ) اربوں روپے کے مالیتی قیمتی پلاٹ ( دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں شہید ہونے والے فوجیوں کے ) شُہداء فنڈ کے لئے وقف کردئیے تھے ۔ مَیں نے اپنے کالم میں جنرل راحیل شریف کو "Living Legend" قرار دیتے ہُوئے لکھا تھا کہ ’’ قائداعظم ؒ نے اپنی ساری جائیداد کا ایک ٹرسٹ بنا کر اُسے قوم کے نام کردِیا تھا اور اُس سے قبل جمہوریہ تُرکیہ کے بانی ’’ اتا تُرک‘‘ غازی مصطفی کمال پاشا نے بھی ایسا ہی کِیا تھا لیکن، عُلماء سُو نے ملّت اسلامیہ کے اُن دونوں قائدین کے خلاف کُفر کے فتوے دئیے تھے ؟۔ ’’پاکستان کے شایان شان فوج!‘‘ معزز قارئین!۔ قیام پاکستان کے بعد 11 اکتوبر 1947ء کو افواج پاکستان سے خطاب کرتے ہُوئے حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ نے فرمایا تھا کہ ’’ اگر ہم جنگ میں کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں فوق اُلبشر محنت اور جدوجہد کرنا ہوگی۔ یہ ذاتی ترقی ، عہدے اور مرتبے حاصل کرنے کا وقت نہیں ہے ۔ یہ وقت ہے تعمیری کوشش کا ، بے لوث جدوجہد کا اور مستقل مزاجی اور فرض شناسی کا ‘‘۔ حیرت ہے کہ ’’ قیام پاکستان کے مخالفین ، کانگریسی مولویوں کی باقیات ، جن کے مدرسوں میں خُود کُش حملہ آور پیدا ہُوئے اور پھلے پھولے وہ اِس وقت ’’ آئین اور جمہوریت ‘‘ کی بات کر رہے ہیں ۔ مجھے یقین ہے کہ ’’ ریاست ِ پاکستان کا پانچواں ستون ‘‘ بیرونی دشمنوں کی نسبت اندرونی دشمنوں پر زیادہ نظر رکھے گا۔ ’’مصّور پاکستان ‘‘ علاّمہ اقبالؒ نے بہت پہلے فرمایاتھا کہ … الفاظ و معانی میں تفاوت نہیں لیکن! مْلّا ؔکی اذاں اور، مجاہد ؔکی اذاں اور! …O… شیر میسور حضرت ٹیپو سُلطان ؒکے مزار پر یہ شعر کُندہ ہے … بہر تسخیرِ جہاں شُد، فتحِ حیدر آشکار! لافتی اِلاّ علی ؑ ، لاسَیف اِلاّذُوالفقار! …O… یعنی۔ ’’ دُنیا کے فتح کے لئے فتح حیدر کا ظہور ہُوا۔ حضرت علی ؑ سے بہتر کوئی جواں مرد نہیں اور اُن کی تلوار ذُوالفقار ؔسے بہتر کوئی تلوارنہیں ہے‘‘۔پاک فوج کی داستان ۔ غازیوں اور شہیدوں کی داستان ہے۔ پاک فوج کا سب سے بڑا اعزاز (نشان ) ہے ’’ نشانِ حیدر‘‘ ۔ حیدرؔ کے معنی ہیں شیرؔ اور یہ حضرت علی مرتضیٰ ؑ کا صفاتی نام ہے ۔ جب پاک فوج کے افسران اور جوان ’’نعرۂ تکبیر ۔ اللہ اُکبر ۔نعرۂ رسالت ۔ یا رسول ؐاللہ ! ۔ نعرۂ حیدری ۔ یا علی ؑ ‘‘کا نعرہ لگاتے ہیں تو، دشمنوں کی صفیں درہم برہم ہو جاتی ہیں ۔معززقارئین!۔ قیام پاکستان سے قبل قائداعظمؒ سے کسی صحافی نے پوچھا کہ ’’ کیا آپ شیعہ ہیں سُنی؟ تو آپؒ نے جواب دِیا کہ ’’ نہ شیعہ نہ سُنی لیکن ، ہم سب مسلمان حضرت علی مرتضیٰ ؑ کا یوم ولادت اور شہادت مل کر مناتے ہیں‘‘۔