آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ دفاعی بجٹ میں سالانہ اضافہ نہ لینے کا فیصلہ قوم پر احسان نہیں۔ ہم ایک ہیں اور یہ اقدام ہر قسم کے حالات میں یکجہتی کے عزم کا اعادہ ہے۔ پاک فوج کے افسران کی بجٹ میں تنخواہیں بھی نہیں بڑھیں گی جبکہ عام نوجوانوں کی سالانہ تنخواہ میں حسب معمول اضافہ ہو گا۔ فوج ہمیشہ حکومت وقت کی پالیسیوں کے مطابق کام کرتی ہے۔ اس کی تعداد‘ بجٹ اور ضروریات میں کمی زیادتی بھی ہمیشہ حکومت کی صوابدید ہوتی ہے اور فوج کے سربراہ درپیش داخلی اور خارجی چیلنجز سے حکومت کو آگاہ کرتے رہتے ہیں اور اسی تناسب سے سالانہ بجٹ کے موقع پر دفاعی بجٹ میں اضافے کا اعلان کیا جاتا ہے۔ امسال نامساعد معاشی حالات کے پیش نظر پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے خیر سگالی طور پر دفاعی بجٹ میں سالانہ اضافہ نہ لینے کا اعلان کر کے 21کروڑ عوام کے دل جیت لئے ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہمارا شاطر ازلی دشمن اب بھی پاک سرزمین پر اپنے منحوس پنجے گاڑھنے کے لئے بیتاب بیٹھا ہے۔ پاک فوج نے 27فروری 2019ء کو بھارت کے دو طیارے مار گرائے تھے دشمن وہ ہزیمت مٹانے کی سرتوڑکوششوں میں ہے ۔ مغربی سرحد پر خطرات کے بادل منڈلا رہے ہیں جبکہ داخلی حالات بھی کافی پریشان کن ہیں۔ خیبر پی کے اور وزیرستان میں پی ٹی ایم کی شرانگیزیاں جاری ہیں۔ بلوچستان میں بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں نے سر اٹھا رکھا ہے جبکہ پاک فوج کئی برس سے کراچی میں شر پسند عناصر کے خلاف آپریشن کر رہی ہے۔ ان حالات میں آرمی چیف کا قوم کی معاشی مشکلات کو اپنی پریشانی تصور کرتے ہوئے دفاعی بجٹ میں اضافہ نہ لینا خوش آئند فیصلہ ہے۔دفاعی بجٹ کا تعلق آپ کے دشمن کی طاقت سے ہوتا ہے ،جس قدر آپ کا دشمن مضبوط ہو اسی تناسب سے تمام ممالک دفاعی بجٹ میں اضافہ کرتے ہیں کیونکہ دشمن سے نبردآزما ہونے کے لئے ہتھیاروں کی تیاری مرکزی حیثیت رکھتی ہے، اس وقت ہمارا دشمن جنگی جنون میں مبتلا ہے، اس کا دفاعی بجٹ66ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے۔ ایسے حالات میں تو قومیں اپنے پیٹ پر پتھر باندھ کر فوج کی ضروریات پوری کرتی ہیں لیکن صد آفرین پاک فوج کے سا لار پر جس نے برملا کہا کہ بجٹ میں اضافہ نہ لینے کی وجہ دگرگوں معاشی حالات ہیں۔ لیکن ملکی سرحدات کی حفاظت میں کسی قسم کی کمی واقع نہیں ہو گی۔ ہمارے ملک میں ایک ایسا طبقہ موجود ہے جو اس ملک کا کھا کر اس کی ہی سلامتی کے درپے ہے، یہی طبقہ پاک فوج کے بجٹ پر بھی تنقید کرتا ہے۔ اس وقت ہمارے دشمن کی فوج کا بجٹ بڑھ رہا ہے اس لحاظ سے پاک فوج کا بجٹ بھی کم نہیں ہونا چاہیے ۔ پاک فوج جب بھی اپنے ملکی دفاع میں اضافہ کرتے ہوئے میزائل تجربہ کرتی ہے تو قوم پرست سیاسی جماعتوں کے لیڈروں کے پیٹ میں مروڑ اٹھنے شروع ہو جاتے ہیں اور سوشل میڈیا پر پروپیگنڈہ شروع ہو جاتا ہے کہ فوج سارا بجٹ کھا گئی۔ لیکن کسی سیاستدان ‘وزیر ‘ سنیٹر‘ ایم این اے اور ایم پی اے میں اتنی ہمت بھی نہیں ہوئی کہ وہ عید کے تین دن پاک فوج کے جوانوں کے ساتھ اگلے مورچوں پر گزار کر ان کے ساتھ خوشیاں بانٹنا۔ اس وقت سینٹ ‘ قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے ارکان ماہانہ طور پر تنخواہ اور دیگر مراعات کی مد میں اربوں روپے وصول کرتے ہیں۔ بلوچستان اسمبلی کا سپیکر 6لاکھ 19ہزار روپے جبکہ ایک رکن الائونسز سمیت ماہانہ 4لاکھ 40ہزار روپے وصول کرتا ہے جبکہ دیگر مراعات الگ ہیں۔ اسی طرح سپیکر پنجاب اسمبلی 2لاکھ 60ہزار روپے اورہر رکن 1لاکھ 95ہزار روپے ماہانہ تنخواہ وصول کرتا ہے۔ سندھ اسمبلی کے سپیکر کی تنخواہ 2لاکھ 80ہزار جبکہ وہاں کا رکن اسمبلی 1لاکھ 45ہزار روپے تنخواہ وصول کرتا ہے۔ اسی طرح خیبر پی کے اسمبلی کا سپیکر 1لاکھ 93ہزار روپے جبکہ وہاں کا ہر رکن ایک لاکھ 53ہزار 800روپے تنخواہ وصول کرتا ہے۔ اسی طرح صدر پاکستان‘ وزیر اعظم ‘ سپیکر قومی اسمبلی‘ چیئرمین سینٹ‘ ارکان قومی اسمبلی اور چاروں اسمبلیوں سمیت وفاقی اور صوبائی وزراء اور قائمہ کمیٹیوں کے چیئرمین ہر مہینے اربوں روپے وصول کر رہے ہیں جبکہ ان کے ووٹر غربت و افلاس کی چکی میں پیس کر بھوک اور پیاس کے سبب مرنے پر مجبورہیں۔ ان معاشی حالات میں محب وطن سیاستدانوں کو بھی اپنی مراعات سے دستبردار ہوجانا چاہیے اس سلسلے میں پہل صدر پاکستان جناب عارف علوی کریںکیونکہ انہوں نے تو قوم سے ایوان صدر میں نہ رہنے کا وعدہ بھی کیا تھا۔ اس کے بعد وزیر اعظم اور ان کی کابینہ اور تحریک انصاف کے ایم این ایز تمام سرکاری مراعات سے دستبرداری کا اعلان کریں۔ اس کے بعد اپوزیشن کے پاس کوئی جواز نہیں رہ جائے گا کہ وہ اربوں روپے قومی خزانے سے بٹور کر ایوان میں گھنٹوں لڑائی کرے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور مسلم لیگ( ن) کے صدر بھی اگر واقعی قوم کی خدمت کرنا چاہتے ہیں تو اپنے ارکان سمیت خود بھی تمام سرکاری مراعات سے دستبردار ہوں اس ملک نے ان سیاستدانوں کو بہت کچھ دیا اب اگر یہ ملک پر کچھ قربان کر دیں گے تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔پاک فوج اپنے بجٹ میں اضافہ نہ لینے کا اعلان کرسکتی ہے تو صبح و شام عوام کے خیر خواہ اور محب وطن ہونے کے گن گانے والے سیاستدان ایسا کیوں نہیں کر سکتے؟ اس کے علاوہ بیورو کریسی کو بھی ان مشکل حالات میں قوم کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے اور بغیر کسی کے کہے خود بخود کفایت شعاری اپنانی چاہیے۔ اگر اس موقع پر ساری قوم یک زبان ہوکر کھڑی ہو گی تو ہم نہ صرف اپنی معیشت کو سہارا دے سکیں گے بلکہ غیر ممالک سے قرض لینے کی بھی ضرورت محسوس نہیں ہو گی۔ فوج کے بعد اب سیاستدانوں کی باری ہے کہ وہ ملک قوم کے ساتھ کتنے مخلص ہیں۔