فورٹ منرو جنوبی پنجاب کا مری ہے ۔ 1868ء میں کرنل منرو نے اِس خوب صورت وادی کو اپنے نام پر بسایا جبکہ اِس سے قبل یہ خوب صورت پہاڑی سلسلہ جس میں کھر اور فورٹ منرو شامل تھے ۔اِن کو اناری مول کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ انگریزوں نے ہم بر صغیر کے مسلمانوں اور دیگر اقوام کا استحصال کیا ہمارے بنیادی حقوق غصب کیے اور بھی سب سے بڑی زیادتی جو ہمارے ساتھ کی وہ غلامی کی زندگی تھی۔ ا ِس غلامی کے ایک سو سال بعد ہمارے حصے میں قائد اعظم آئے اور اُنہوں نے ہمیں انگریزوں کی غلامی سے نجات دلائی۔ انگریزوں نے ہندوستان میں بہت سے اچھے اقدامات بھی کیے جو آج بھی تاریخ کا حصہ ہیں مثلاً یہ کہ ریل کا نظام متعارف کرایا نہری نظام کو منظم کیا اور مزید اِس کو ترقی دی سڑکوں کا جال بچھایا حالانکہ انگریزوں سے بہت پہلے غلام فرید خان شیر شاہ سوری نے جرنیلی سڑک تعمیر کرا کے کلکتہ اور پشاور کو آپس میں ملایا تھا ۔ ہم مسلمانوں میں انتہائی قابل اور ذہین لوگ پیدا ہو ئے ہیں لیکن المیہ یہ کہ ہم نے اپنوں کی ہمیشہ حوصلہ شکنی کی ہے اور غیروں کی کچھ زیادہ ہی تعریفیں کی ہیں۔ انگریزوں نے سب سے پہلے بلوچستان کو فتح کر نے کے لیے ایک سڑک کی تعمیر شروع کی جو ڈیرہ غازی خان سے فورٹ منرو اور آگے بلوچستان تک چلی جاتی ہے یہ ایک تاریخی سڑک ہے کہ جہاں سے بلوچستان بھر سے فروٹ اور سبزیاں پورے ملک میں سپلائی کی جاتی ہیں۔ اِس تاریخی سڑک کی تعمیر بھی انگریزوں نے1868ء میں شروع کر دی تھی تین سال کی سر توڑ کوششوں سے یہ سڑک تعمیر ہوئی تھی۔ سخی سرور سے آگے مٹھاون ندی سے گردو تک اِس سڑک کی تعمیر میں انگریز انجینئرز کو بڑی چٹانوں کو کاٹ کر یہ راستہ بنانا پڑا تھا ۔ 1990ء تک انگریز کی بنائی ہوئی سنگل سڑک پر سفر جاری رہا پھر بعد میں سابق صدر سردار فاروق احمد لغاری نے اِس سڑک کو چوڑا کر ا کے نئے سر سے تعمیر کرایا اور راستے میں آنے والی تین رود کوہیوں پرپل بھی تعمیر کرائے ۔وگرنہ اِس سے قبل جب جولائی اور اگست کے مہنیوں میں بارشوں کی وجہ سے رود کوہیوں کا جو بن ہوا کرتا تو سخی سرور رود کوجانے والی یہ سڑک مٹھاون رود کوہی اور راستے میں آنے والی دیگر رود کوہیوں کی وجہ سے بند ہو جایا کرتی تھی اور مسافر دو سے تین دنوں تک پانی کم ہونے تک سڑک کے دونوں کناروں پر رات بسر کیا کرتے تھے لیکن پل بن جانے کی وجہ سے یہ مشکلات ختم ہو گئیں لیکن اِس دفعہ جولائی اور اگست میں آنیو الی شدید بارشوں نے جہاں پر ملک بھر کے نظام کو درہم برہم کر دیا ہے تو وہاں پر ڈیرہ غازی خان کی یہ تاریخی سڑک بھی تباہ ہو گئی ہے آج دو ماہ ہونے کو ہیں یہ سڑک بند ہے روزانہ بلوچستان سے آنے والے بڑے ٹرکوں پر سبزیاں اور فروٹ ضائع ہو رہے ہیں۔ مسافروں کو زبردست پریشانی کا سامنا ہے ۔ جو سفر ڈیرہ غازی خان سے فورٹ منرو تک پونے دو گھنٹوں میں طے ہوا کرتا تھا اب یہ سفر 12 گھنٹوں میں بھی پورا نہیں ہو رہا ۔ درمیان میں تین چار مرتبہ سڑک کو ٹریفک کے لیے کھولا گیا لیکن اب پھروہی صورت حال ہے۔ ایک طرف سے پانچ چھ گھنٹوں تک سڑک کو کھولا جاتا ہے تو پھر سڑک ڈرائیوں کی بد نظمی کی وجہ سے پھر ٹریفک بلاک ہو جاتی ہے۔ جس سے کوئٹہ سے آنے ولی بسیں رک جاتی ہیں جن میں زیادہ تر بچے اور خواتین ہوتے ہیں پھر دوسری طرف فورٹ منرو اور قرب جوار کے دکان داروں کی لوٹ مار شروع ہو جاتی ہے۔ مسافروں سے اپنی مرضی کے ریٹ لیے جا رہے ہیں۔ مسافر اِس روڈ کی بندش کی وجہ سے ذلیل ہو رہے ہیں۔ ڈیرہ غازی خان انتظامیہ نے روڈ کو کھولنے کے لیے بھاری مشینری کے ذریعے پتھر ہٹوائے ہیں لیکن ابھی تک راستہ صحیح معنوں میں بحال نہیں ہو سکا۔ گڈز ٹرانسپورٹ کے صدر عبدالسلام خان ناصر بڑی محنت کے ساتھ ٹرک ڈرائیوں کے ساتھ مذاکرات کر کے یکطرفہ ٹریفک کھلوانے میں کامیاب ہو چکے ہیں لیکن پھر ٹریفک بند ہی رہتی ہے ۔ عبدالسلام خان ناصر کا کردار کافی مثبت ہے۔ گزشتہ دنوں مسلسل پانچ روز تک سڑک بند ہو جانے سے مسافروں کا برا حال ہوا تھا لیکن یہ مجاہداپنی طرف سے بڑی مقدار میں کھانا اور پانی لے کر فورٹ منرو روڈ پر مسافروں کے پاس پہنچ گیا یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے بڑے بڑے پتھروں کے گرنے سے روڈ بند ہے ڈیرہ غازی خان انتظامیہ اورنیشنل ہائی وے کو ہنگامی بنیادوں پر کام کرا کے اِس اہم ترین سڑک کو فعال کرانا ہو گا۔ مسافر دو گھنٹوں کا سفر 12 گھنٹوں میں کرنے پر مجبور ہیں جبکہ مقامی بلوچ اور پشتون کسانوں کی سبزیاں اور فروٹ ٹرکوں پر لادے ہوئے ضائع ہو رہے ہیں خصوصاً آج کل پہاڑ کی گو بھی ملک بھر کی منڈیوں میں سپلائی کی جارہی تھی لیکن راستہ بند ہونے کی وجہ سے گوبھی ضائع ہو رہی ہے۔ ٹرانسپورٹر حضرات اِن حالات میں بہت ہی پریشان ہیں۔ ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن کے صدر عبدالسلام خان ناصر نے وفاقی حکومت خصوصاً نیشنل ہائی وے افسران سے پر زور مطالبہ کیا ہے کہ راکھی منہ سے لے کر گردو اور فورٹ منرو تک 15 کلومیٹر کا ایسا راستہ ہے کہ جہاں پر پہاڑوں سے پتھر گرنے سے راستہ بند ہو جاتا ہے جبکہ نیلی مٹی کی جگہ پر اکثر اوقات پتھر گرنے سے راستہ بن ہو جاتا ہے اُنہوں نے کہا ہے کہ اگر اِس مختصر ٹکڑے کو محفوظ بنا دیا جائے تو پھر بلوچستان سے لے کر پنجاب ڈیرہ غازی خان تک کہیں بھی راستہ بن نہیں ہو سکتا۔ نیشنل ہائی وے کے پاس اربوں روپے کے فنڈز ہر وقت موجود ہوتے ہیں کہ ا ِن کوچاہیے کہ اِس اہم ترین سڑک کے اِس 15 کلومیٹر ٹکڑے کی مستقل بحالی کے لیے ہنگامی طور پر وسیع اور مضبوط بنیاد پر کام شروع کرے لوگوں کی مشکلات ختم ہوں اور سب سے اہم بات یہ کہ بلوچستان اور پنجاب کو ملانے کے لیے یہ سب سے آسان اور مختصر راستہ ہے جس کی بحالی اشد ضروری ہے ۔