اخبار کے کونے میں ٹوٹے پتے کی طرح یہ خبر گری پڑی تھی کہ اسلام آباد وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ نے ٹریل فور اور ڈھوک جیون ٹریل بحال کر دیا ۔لوگوںنے نگاہ ڈالی ہو گی اور گزر گئے ہوں گے۔لیکن میں تو اسی پتے کے پاس بیٹھ گیا ۔ سالوں پہلے تپتی دوپہروں اور یخ بستہ شاموں میں اس ٹریل پر خوابوںکے جو درخت بوئے تھے ، یہ پتہ انہی کی ٹہنی سے ٹوٹ کر گرا تھا۔کسی سے مزید تفصیل لینے کی ضرورت نہیں تھی ، جنگل کی یہ پگڈنڈیاں مجھے اپنے گائوں کو جانے والے راستے کی طرح یاد ہیں۔اگلی صبح اور میں ایک ساتھ ہی ٹریل فور کی دہلیز پر اترے۔صبح یہاں روز ہی اترتی ہو گی لیکن میں آج بیس سال بعد یہاں آیا تھا۔بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی نیو کیمپس شفٹ ہوئی تو کویت ہاسٹل خالی کرا لیا گیا۔ ہم نئے ہاسٹل منتقل ہو گئے ۔ وہاں سے نکلے تو وقت کی ندی میں اتنا تیز پانی تھا ، دوستوں کو بہا کر لے گیا۔کوئی سینکڑوںمیل دور جا بسا توکوئی سات سمندر پار۔یہ پگڈنڈی محفل یاراں سے آباد تھی ، پھر وقت کی کشتی میں یہ محفلیں ہی ڈوب گئیں۔یہ راستہ بھی اجاڑ ہو گیاہم بھی مصروف ہو گئے۔ بیس سال بعد آج آیا تو جنگل میں دھند اتری پڑی تھی ۔جاڑے کے موسم میں ندی سو رہتی ہے لیکن جنگل جاگ رہا تھا۔ پرندوں کا شور تھا ۔ سالوں اجاڑ رہنے کے بعد راستہ بحال ہوا تھا تو فطرت ٹھہر سی گئی تھی۔ماضی کو تھامے چلتے چلتے اس دھند میں ، میں بہت دور تک نکل گیا۔ کویت ہاسٹل سے آنے والی ایک پگڈنڈی جب ڈھوک جیون ٹریل سے آکر ملی تو یادوں کا قافلہ ایک بڑے سے پتھر کے پاس بیٹھ گیا۔ جنگل کی ساری دھند آنکھوں میں اتر آئی۔ اسلام آباد میں بہت سے ٹریل ہیں۔ لیکن ٹریل فور جیسا کوئی نہیں۔ٹریل فائیو بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ اسی ٹریل پر چلتے جائیں تو بہت آگے جا کر بوہڑ کا وہ گھنا درخت آتا ہے جس پر مچان لگا کر ’’ مس مصرو‘‘ رہا کرتی تھی۔مس مصرو اس وادی کا پر اسرار کردار تھا۔ بوہڑ کی ایک شاخ پر اس کی بندوق لٹکتی رہتی تھی، جو تیندوے سے اپنے جانوروں کو بچانے کے لیے اس نے رکھی ہوئی تھی۔ بہت سُچا نشانہ تھا اس کا۔ وہ جنگل کوئین تھی۔بیماری کا علاج وہیں جڑی بوٹیوں سے کرتی تھی۔ ایک پہر پہلے بتادیتی تھی کہ کل بارش ہو گی۔جب تک زندہ رہی اس وادی میں اکیلے رہی۔ مر گئی تو سی ڈی نے اس کی جھونپڑی کو ملیا میٹ کر کے آگ لگا دی۔اب میں اس کے گھر کو جاتی پگڈنڈی پر بیٹھا سوچ رہا تھا کیا حکومت میں کوئی ایسا باذوق ہے جو اس جھونپڑی کو پھر سے تعمیرکردے اور ٹریل کی دہلیز پر لکھ کر لگا دے کہ اگر آپ مس مصرو نام کی جنگل کوئین کی جھونپڑی دیکھنا چاہتے ہیں تو ڈھوک جیون ٹریک کی طرف جانے کی بجائے ٹریل فور کی اس پگڈندی کی طرف چلے جائیں جوچک جبی کی جانب جا رہا ہے۔دنیا سیاحوں کو اپنی فرضی کہانیاں بیچتی ہے ہم سیاحوں کو اپنی سچی کہانی نہیں سنا پا رہے۔ٹریل فور کے حسن سے لطف اندوز ہونا ہے تو وقت لے کر آئیے۔یہ کافی مشکل ، طویل اور حسین ٹریل ہے جو اوپر چک جبی اور تلہاڑ تک جاتا ہے۔ لیکن شام سے پہلے لوٹ آئیے کہ اس پگڈنڈی پر صرف لومڑی، غورال، مشک بلائو،جنگلی بلی اورہرن ہی نہیںرہتے،یہاں تیندوے اور شاہین بھی پائے جاتے ہیں۔اوپر پہاڑ پر اب کوئی مس مصرو بھی نہیں ہے جس کی بندوق آپ کی حفاظت کر سکے۔گوگل میپ پر ٹریل فور کا جو نقشہ موجود ہے وہ غلط ہے۔ یہ ٹریل فور کے پہلے دوراہے سے آپ کو ٹریل سکس کی طرف لے جاتا ہے اور آپ کویت ہاسٹل کے پہلو سے ہوتے ہوئے جنگل ہٹ پر ، مرغزار کے سامنے پہنچ جاتے ہیں۔ دائرے کا یہ سفر ٹریل فور نہیں ہے۔ٹریل فور ندی کی دوسری جانب پہاڑ کے ساتھ ساتھ اوپر جاتا ہے اور چونکہ سالوں سے متروک اور ویران پڑا ہے تو گوگل میپ پرا بھی یہ راستہ نظر نہیں آتا۔ کچھ وقت کے ساتھ البتہ اس کے نقوش واضح ہو جائیں گے۔ مارگلہ کے جنگل کے یہ ٹریلز اصل میں وہ پگڈنڈیاں ہیں جو قدیم زمانوںسے لوگوں کے استعمال میںر ہیں۔ نیچے پہاڑ کے ساتھ ساتھ گائوں آباد تھے ۔پہاڑ کے اوپر کی بستیوں سے ان گائوں تک آنے والے ان راستوں کو آج کل ہم ٹریلز کہتے ہیں۔فیصل مسجد سے آگے کالنجر گائوں کے ساتھ ایک پگڈنڈی ہے، یہ کالنجر ٹریل ہے ۔اسے ٹریل ون بھی کہتے ہیں۔ کالنجر اور فیصل مسجد کے بیچ گاندیاں گائوں تھا۔ یہاں سے ایک پگڈنڈی اوپر جاتی ہے اسے گاندیاں ٹریل کہتے ہیں۔ جہاں فیصل مسجد ہے یہاں ٹیبما نام کا گائوں تھا ۔ یہاں سے بھی ایک پگڈنڈی اوپر تلہاڑ کی طرف جاتی ہے ، اسے آپ ٹریل سکس کہہ لیں یا ٹیمبا ٹریل کہہ لیں۔ٹریل فائیو کو درہ جنگلاں ٹریل بھی کہا جاتا ہے کیونکہ ریڈ زون کی دہلیز پر اس کا جہاں سے آغاز ہوتا ہے وہاں کسی زمانے میں درہ جنگلاں نام کا گائوں موجود تھا۔ یہیں بوہڑ کے ایک ساڑے چار سو سالہ پرانے درخت کے نیچے بری امام کی چلہ گاہ بھی ہے اور اس کے ساتھ اس گائوں کے قبرستان کے نقوش بھی موجود ہیں۔قبروں کے کتبے بتاتے ہیں کہ ریڈ زون میں واقع اس قبرستان میں 1985 تک لوگوں کی تدفین ہوتی رہی۔ ٹریل فور ہی میں پیوست ایک ٹریل کا نام ڈھوک جیون ٹریل ہے۔ اسے ڈھوک جیون ٹریل اس لیے کہتے ہیں کہ یہ تلہاڑ اور جابہ سے ڈھوک جیون نامی گائوں کو جانے والی پگڈنڈی تھی۔ڈھوک جیون کو آج کل ای سیون کہا جاتا ہے۔پہاڑوں کے اندر ہی اندر سے ڈھوک جیون سے ایک راستہ دامن کوہ سے ہوتا ہوا اوپر گوکینہ اور پیر سوہاوہ کی طرف جاتا ہے اس کے جزوی حصے کو’’ ٹریل ٹو‘‘ کہا جاتا ہے۔یہ ٹریلز اسلام آباد کی قدیم تہذیب کے آخری نقوش ہیں اور ٹریل فور ان سب کا جھومر ہے ۔دامن کوہ جاتے ہوئے سڑک پر گاڑی روکیے۔ چند قدم پر جنگل ہے۔ صدیوں کی مسافت یہاں لمحوں میں طے ہو جا تی ہے۔ پکا رستہ، کچی سڑک اور پھر پگڈنڈی جیسے کوئی چلتے چلتے تھک جاتا ہے