اب نظر آتی نہیں چہروں پہ حیرانی بھی کیسے آباد ہوئی شہروں میں ویرانی بھی مجھ میں تھوڑی سی بو باس بھرم ہے تیرا ورنہ مانوس ہے تجھ سے ترا زندانی بھی گویا ہم تو پہلے ہی ترے حق میں تہی دست ہوئے‘ ایسے گھائل یہ نشانے کی ضرورت کیا تھی۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ کہوں‘ نہایت دلچسپ احتجاج کا ذکر مجھے کرنا ہے۔ یہ احتجاج بھارت کے کسان کر رہے تھے۔ بہت ہی پیارا مگر طنزیہ احتجاج تھا اس میں پنجاب کی دیہاتی خواتین لہک لہک کر گا رہی تھیں۔ آپ اس صنف شاعری کو کوئی بھی نام دے لیں۔ اس گیت کے پس منظر میں آپ کو یاد رہنا چاہیے کہ مودی چاہے بیچنے والا تھا جو انسانیت کی بدبختی کہ اقتدار میں آ گیا۔ اب دیکھیے احتجاج: میں چاہ وچ پائی لاچی مودی وی چلنے نہیں دینی چلاکی تساں کہہ پیئو گے اک کپ چاہ میں چااہ وچ پائی کھنڈ مودی نرا جھوٹ دی پنڈ تساں کیہ پیئو گے اک کپ چاہ میں ہنسنے لگا کہ ادھر بھی جھوٹ ہی جھوٹ ہے۔ وہ تو ظالم بھی ہے اور مکار بھی۔ ویسے وہ تو آیا ہی مسلم کش ایجنڈے پر ہے اور اسے امریکہ اور اسرائیل کی آشیرباد حاصل ہے۔ آپ دیکھ لیںکہ اس نے کس بے شرمی اور ڈھٹائی سے مقبوضہ کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے کی شق منظور کروائی اور کشمیری اپنی آزادی کے لیے اسی طرح جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں۔ کشمیر کا معالمہ تو ایک طرف، مودی تو وہاں کے مسلمانوں کو وہاں سے نکال دینے کا عزم رکھتا ہے۔ اب وہاں کے مسلمان ہی نہیں سکھ بھی قائداعظم کی فراست کے قائل ہی نہیں ہورہے ہیںبلکہ قائد کافرن بازگشت کی صورت انہیں تنگ رہا ہے۔ قائد نے فرمایا تھا کہ یہ نادان اپنی باقی عمر ہندوستان کو اپنی وفاداری کا یقین دلاتے ہی گزار دیں گے۔ محبوبہ مفتی تو باقاعدہ اپنے بڑوں کے فیصلوں کو یاد کر کے ماتم کناں ہے۔ کہنے کی بات یہ ہے کہ ہم اپنی آزادی کی قدر کریں اور اس نعمت کو پہچانیں۔ بہت ہی عظیم قربانی کا یہ ثمر ہے: کہ خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا اب آگے میں اپنے موضوع کی طرف آتا ہوں جو کہی گئی بات سے مختلف بھی نہیں کہ ہمیں اپنا اپنا کردار بہ حسن و خوبی ادا کرنا ہوگا۔ صورتحال تصادم کی طرف بڑھ رہی ہے جس کے ہم متحمل نہیں ہورہے۔ اپوزیشن کے مردہ گھوڑے میں خود حکومت کے کمزور عمل نے جان ڈالی ہے۔ اب آ کر وزیراعظم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ ان سے کچھ ڈلیور نہیں ہو سکا۔ فرماتے ہیں کہ اب کارکردگی کا وقت آ گیا‘ کوئی عذر نہیں چلے گا۔ ہائے اس زود پشیماں کا پشیباں ہونا۔ آدھا سیشن آپ نے گزار دیا۔ اب کہہ رہے ہیں کہ انہیں تیاری کے بغیر حکومت میں نہیں آنا چاہیے تھا۔ تب آپ کہتے تھے کہ اسد عمر جیسے افلاطون آپ کے پاس ہیں۔ چٹکی بجاتے ہی معیشت ٹھیک ہو جائے گی۔ اب اڑھائی بعد سوچ رہے ہیں کہ شاید آپ کی سمت درست نہیں چلیے: آواز دے کے دیکھ لو شاید وہ مل ہی جائے ورنہ یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں تو ہے ویسے حالات آپ کے حق میں ہیں۔ ہاں آپ ایک اور کوشش کر دیکھیں۔ اصل تو عوام کی خوشنودی کی بات ہے۔ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ اس وقت لوگ ناراض ہیں۔ ن لیگ کے بیانیے کو تقویت ملنے کی وجہ بھی لوگوں کا موجودہ معیشت سے بے زار ہونا ہے۔ ویسے جو بیانیہ کا ساتھ دے رہے ہیں وہ اس کو پیدا کرنے والے بھی ہیں۔ آپ بلاول کو دیکھ لیں کہ وہ ہاتھ میں پکڑی ایک چڑیا کو جھاری میں بیٹھی دس چڑیوں کے لیے نہیں چھوڑیں گے۔ مولانا فضل الرحمن اور نوازشریف کے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں۔ خدا کرے کہ کوئی بہتری آئے۔ ملک ابتری اور افراتفری کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ ہمارے تو اندر کے بکھیڑے ہی ختم نہیں ہورہے وگرنہ ہمیں تو عالم اسلام سے مل کر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ ایک ترکی ہے جو امید کی کرن ہے ان کے وزیر خارجہ نے بہت اچھی باتیں کی ہیں کہ مسلمانوں کے ساتھ ہونے والا امتیازی سلوک ان کی روایات و اقدار کے لیے بڑا خطرہ ہے۔ یہ وقت کی ضرورت ہے کہ مسلم امہ اکیلے اکیلے قربانی کا بکرا بننے کی بجائے ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہو۔ امریکہ غلام مسلمان مممالک ایک دوسرے کا سہ ارا لے کر اہل اسلام سے بے وفائی کرنا چاہتے ہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ مسلمان اس معاملے میں بہت حساس ہیں۔ ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ پتہ نہیں کیوں اقبال یاد آ رہے ہیں: میر سپاہ ناسزا لشکریاں شکسہ صف آہ وہ تیر نیم کش جس کا نہ ہو کوئی ہدف ہائے اقبال کو ہم سمجھے ہی نہیں کہ وہ ہمیں یہ سب کچھ سمجھانا چاہتا ہے جو اسلام دشمن ہم سے زیادہ سمجھتے ہیں وہ اقبال کی فکر سے آگاہ ہیں اور اسے وہ ہم سے دور رکھنا چاہتے ہیں۔ یورپ کی چکاچوند انہیں خیرہ نہ کرسکی کہ ان کی آنکھ میں روشنی ہی کوئی اور تھی: خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوہ دانش فرنگ سرمہ ہے میری آنکھ کا خاک مدینہ و نجف کاش ہمیں وہ بصیرت عطا ہو سکے کہ فہم اقبال نصیب ہو۔ کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ اقبال سے ایران کا انقلاب برپا ہو گیا اور دوسروں نے اس سے بہت کچھ لے لیا اور ہم نے تو یوم اقبال کی چھٹی بھی ختم کردی اور یوں اپنے ہیرو سے بے زاری اور اہل یورپ کی خوشی کا خیال رکھا۔ عمران خان اقبال سے عشق کا دعویٰ کرتے رہے ہیں ۔ میرا خیال ہے آج کے لیے اتنا ہی کافی ہے۔ ایک بات یہ کہ اقبال کے ذریعے ہم قرآن و سنت سے جڑ سکتے ہیں جو ہماری اساس بھی ہے اور ترقی کا زینہ۔ بات تو یقین اور عمل کی ہے اور قوت فیصلہ کی۔ اقبال کے شعر کے ساتھ اجازت: عروج آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں کہیں ٹوٹا ہوا تارا مہ کامل نہ بن جائے