آج کل یہ حال ہوچکا ہے کہ جب کمپیوٹر یا موبائل کے ذریعے سوشل میڈیا ویب سائٹ پر نظرڈالی جائے تو ایک نیا ہنگامہ، نئی قسم کا طوفان آپ کا منتظر ہوتا ہے۔ آدمی نے بیوی کی آنکھ بچا کر چند منٹ نکالے ہوتے ہیں کہ چلیں اپ ڈیٹ ہوجائیں ، دوستوں میں کیا چل رہا ہے؟ہوش اس وقت آتا ہے جب گھنٹہ گزر جانے پر بیگم کی نوکیلی برمے جیسے تیز نگاہوں سے واسطہ پڑتا ہے، ساتھ ہی دھیمے سروں میں یہ شکوہ کہ کم بخت فیس بک گھر میں بھی جان نہیں چھوڑ رہی۔ یہ دھیمے کومل سُروں والی رعایت اپنے حساب سے برتی ہے، ممکن ہے بعض دوستوں کو خوفناک تیور سُروں سے واسطہ پڑتا ہو۔یہ تو خیر اس کا ایک رخ ہے، کئی اور نقصان دہ پہلو ہیں، جن میں سر فہرست کتاب سے فاصلہ ہے۔دوسروں کو کیا الزام دیا جائے، گزشتہ روز میں نے اپنی کتابوںکا جائزہ لیا توا نکشاف ہوا کہ درجن بھر کتابیں ایسی ہیںجنہیں فروری میں بک ایکسپو سے خریدنے کے بعد کھول کر نہیں دیکھا۔ یہ سب سوشل میڈیا کی مہربانی ہے۔افسوس اس پر ہے کہ ہم لوگ اعلیٰ سے اوسط اور پھر سطحی چیزوں کی طرف آ رہے ہیں اور مزید افسوس کہ احساس زیاں نہیں، کم تر پر خوش اور مطمئن ہیں۔ اپنا پچھلا کالم ناولوں کے حوالے سے لکھا، اس کا ایک مقصد ہر طرف سے امنڈتی سیاست اور کرنٹ افیئرز کی یلغار میں چند لمحے نکال کر دوبارہ سے کتابوں ، خاص کر فکشن سے ٹوٹا رابطہ جوڑنا تھا۔آج اردو ناولوں کا ذکر چھیڑتے ہیں۔پہلے ایک نکتہ سمجھ لیں کہ بچپن میں پڑھی چیزیں ضروری نہیں کہ زندگی بھر ساتھ لے کر چلی جائیں۔ابتدائی زمانے سے سب بچوں کی کہانیاں پڑھتے ہیں۔ اردو میں عمرو(درست تلفظ امرہے) عیار، ٹارزن، جنوں، بھوتوں، پریوں وغیرہ کی کہانیاں شروع میں پڑھی جاتی ہیں۔ ہمارے زمانے میں اشتیاق احمد اور مظہر کلیم کا جادو چلتا تھا۔ انسپکٹر جمشید، کامران مرزا سیریز، مظہر کلیم کے عمران سیریز، اے حمید کی ماریا ناگ عنبر وغیرہ پڑھتے رہے۔ فیروز سنز نے دس حصوں میں داستان امیر حمزہ اور گیارہ حصوں میں داستان طلسم ہوش ربا شائع کر رکھی ہے۔ مجھے یہ بے حد پسند رہیں ۔ میں ابن صفی کی طرف نسبتا تاخیر سے آیا، مگر پھر ان کی عمران سیریز اور فریدی سیریز کے تقریباً تمام ناول پڑھ ڈالے۔نسیم حجازی کے ناول کرائے کی لائبریریوں سے لے کر پڑھے اور اس وجہ سے پڑھنے کی رفتار بھی تیز ہوئی کہ ایک دن میں ناول واپس کرنا پڑتا۔ قمر اجنالوی کی بغداد کی رات ، مقدس مورتی، چاہ بابل وغیرہ بھی وہاں سے لے کر پڑھے۔ اجنالوی صاحب کو ان کا اصل مقام نہیں ملا، جدید فکشن کی اصطلاح میں وہ انڈر ریٹیڈ رائٹرہیں۔ عبدالحلیم شرر اور اسلم راہی وغیرہ کے بھی ناول پڑھے۔ نسیم حجازی ان میںزیادہ نمایاں ہیں، ان پر تنقید بھی ہوتی رہی ،ردعمل میں انہیں دیوقامت ادیب یا مورخ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ دونوں رویے درست نہیں۔ نسیم حجازی کے ناولوں نے کسی قسم کی شدت پسندی یا عسکریت پسندی کو جنم نہیں دیا، ہمارے لبرلز کی اس حوالے سے تنقید غلط اور خلاف واقعہ ہے۔اس کے ساتھ ساتھ حجازی صاحب کو مورخ یا تاریخ نگار کہنا بھی غلط ہے۔ وہ ایک فکشن نگار تھے، مختلف تاریخی ادوار پر انہوں نے اپنے حساب سے ناول لکھے،تاریخی واقعات کی ایک جھلک پڑھنے والے کوملتی ہے، مگر اسے باقاعدہ تاریخ سمجھ لینا درست نہیں۔نسیم حجازی کی نثر کو نہ سراہنا البتہ بخل ہوگا۔ بڑے صاف ستھرے انداز میں وہ قاری کی اخلاقی تربیت کرتے ، شائستہ تہذیبی رومان کی جھلک ان کے ناولوں کا خاصہ تھی۔ یہ سب سکول، کالج کے اوائل زمانے کی چیزیں ہیں، میٹرک، انٹر کی سطح کی۔ اپنے ناسٹلجیا کو تازہ کرنے، پرانے دنوں سے حظ اٹھانے کے لئے انہیں دوبارہ پڑھنے میں کوئی حرج نہیں۔ان ناولوںمیں مقید ہوجانا ٹھیک نہیں۔یہ ادب کا پہلا زینہ ہے، یہاںرک جانا اپنے ساتھ زیادتی ہوگی۔ میں نے شائد فرسٹ ائیر میں کالج کی لائبریری سے مستنصر حسین تارڑ کا ناول پیار کا پہلا شہر پڑھا۔ یہ بڑا سویٹ سا ناول ہے، کسی خوبصورت دھیمے سروں والے نغمے کی طرح۔ اوائل میں اسے بھی لازمی پڑھ لینا چاہیے۔تارڑ صاحب ہی کا جپسی، دیس ہوئے پردیس وغیرہ پڑھے، عینی آپا(قرتہ العین حیدر)کا ناول آگ کا دریا کالج لائبریری سے ایشو کرایا اور گھنٹے بعد ہی واپس کر دیا،سرائیکی محاورے کے مطابق ککھ پلے نہ پڑا۔ یہ ناول کئی سال بعد پڑھا، لطف اٹھایا، ابھی چار پانچ سال پہلے تیسری بار پڑھا، اس کا اپنا ذائقہ ہے۔ اردو ناولوں کی فہرست بنائی جائے تو اس میںمرزا ہادی رسوا کاناول امراو جان ادا اور منشی پریم چند کے ناول ضرور شامل کئے جاتے ہیں، ڈپٹی نذیر احمد نے بھی تین چار ناول لکھ مارے تھے، ایک خاص دلچسپی ان سب میں ضرور ہے، مگر خاکسار اپنی فہرست ان سے قطعی شروع نہیں کرے گا۔ میرے لئے اردو کے تین چار نام بڑے اہم رہے ہیں، انہوں نے میری زندگی میں بہت سے حسین لمحات شامل کئے ۔ قرتہ العین حیدر، مستنصر حسین تارڑ اور عبداللہ حسین ۔عینی آپا کے ناولوں میں سے آگ کا دریا اور آخر شب کے ہمسفر بہت اہم ہیں، ان کے دیگر ناول گردش رنگ چمن وغیرہ بھی کم نہیں۔انتظار حسین کا’’ بستی‘‘،’’ آگے سمندر ہے‘‘ مناسب لگے ، مگر ان کے افسانے زیادہ اہم ہیں۔ تارڑ صاحب کے توشہ دان میں بہت کچھ ہے۔ میری سوچی سمجھی رائے ہے کہ اردو نقادوں نے تارڑ صاحب کو بڑی بے رحمی سے نظرانداز کیا۔ وہ اردو کے اہم ترین ناول نگار ہیں، کسی بھی ٹاپ ٹین فہرست میں ان کے تین سے پانچ ناول شامل کئے جا سکتے ہیں۔ ان کے ناولوں بہائو اور راکھ کوالبتہ پزیرائی ملی، ایک بہت اہم اور ضخیم ناول ’’خس وخاشاک زمانے‘‘البتہ نظرانداز ہوا۔ ہمارا نقاد اور قاری شائد اتنا ضخیم ناول دیکھ کر پیچھے ہٹ گیا۔ پوری ایک صدی کا پنجاب اس میں کمال خوبصورتی سے پیش کیا گیا۔ ذوق رکھنے والوں کو اسے ضرور پڑھنا چاہیے۔تارڑ صاحب کا’’ قربت مرگ میں محبت‘‘بھی مجھے پسند آیا، ’’ڈاکیہ اور جولایا‘‘ تو ایک عجب انداز کی طوفانی محبت کی کہانی ہے، اردو میں شائد اس سے پہلے نہیں لکھی گئی۔’’اے غزال شب ‘‘ماسکو کے لوکیل پر لکھا گیا ، یہ بھی کسی سے کم نہیں۔عبداللہ حسین کا ناول اداس نسلیں بڑا مشہور اور مقبول رہا، درجنوں ایڈیشن چھپ چکے۔ وہ اپنے ناول باگھ کو بہت پسند کرتے تھے، اگرچہ مجھے ان کا آخری ناول ’’نادار لوگ‘‘ بھی اچھا لگا، اس میں سول ملٹری سیاسی تنائو کا ٹچ بھی موجود ہے۔تارڑ صاحب کی تمام کتابیں سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور نے شائع کیں، عبداللہ حسین اور شائد قرتہ العین حیدر کی کتابیں بھی وہاں سے مل جائیں گی۔ بھارتی نقاد، محقق اور فکشن نگار شمس الرحمن فاروقی نے اپنا پہلا ناول ’’کئی چاند تھے سرآسماں‘‘لکھ کر ادبی دنیا میں تہلکہ مچایا۔ یہ اردو کے بہترین ناولوں میں سے ایک ہے۔ اسے ڈاکٹر آصف فرخی کے ادارے دنیا زاد نے شائع کیا، فضلی سنز ، کراچی سے لیا جا سکتا ہے۔فاروقی صاحب کا دوسرا ناول’’ قبض زماں‘‘ پڑھ کر البتہ مایوسی ہوئی۔جمیلہ ہاشمی کا ناول’’ دشت سوس ‘‘زیادہ زیربحث نہیں آیا، حسین بن منصور حلاج پر لکھا گیا یہ ناول توشہ خاص سے کم نہیں۔ جمیلہ ہاشمی کے ناول تلاش بہاراں کو آدم جی ادبی ایوارڈ ملا تھا، مگر دشت سوس اور ان کا ایک نایاب ، آئوٹ آف پرنٹ ناول(بہائی، ایرانی شاعرہ قرتہ العین طاہرہ پر لکھا گیا)’’طاہرہ ‘‘کمال ہیں۔بانو آپا نے کئی ناول لکھے، راجہ گدھ ان میں اہم اور سرفہرست ہے۔ ہمارے لبرل دوست اس پر بلاجواز تنقید کرتے ہیں، مگر آپ اسے پڑھ کر ہی فیصلہ کیجئے گا۔ خدیجہ مستور کے آنگن، الطاف فاطمہ، نثار عزیز بٹ کے ضخیم ناولوں کی ہمارے کئی نقاد بڑی تعریف کرتے ہیں، سچ کہتے ہوں گے، مگر …۔ شوکت صدیقی ہمارے سینئر صحافی اور ادیب تھے ، ان کے ناول’’ خدا کی بستی ‘‘نے ایک زمانے میں اردو دنیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا، بہت سی زبانوں میں اس کے ترجمے ہوئے، اس پر دو مرتبہ ٹی وی سیریلز بنیں۔ ان کا دوسرا ناول جانگلوس سب رنگ ڈائجسٹ میں قسط وار شائع ہوا۔اسے پڑھنا ایک شاندار تجربہ ہے۔ ممتاز مفتی نے’’ علی پور کا ایلی‘‘ ناول کے انداز میں لکھا، بعد میں خود ہی اعتراف کر ڈالا کہ یہ میری سوانح ہے۔ مجھے علی پور کا ایلی اچھا لگا، اس میں ناول کے پورے مسالے موجود ہیں اور ذائقہ بھی کمال کا ہے۔یہ ایک پورے سکول آف رائٹنگ(شہاب، مفتی، اشفاق احمد ) کی عکاسی کرتا ہے۔ احمد بشیر نے اپناسوانحی ناول بھی اسی انداز میں لکھا، اس ناول کو بھی نظرانداز کیا گیا۔رحیم گل کا ناول جنت کی تلاش ایک زمانے میں پڑھا ،نثر دلکش لگی۔ جدید ناولوں یا یہ کہہ لیجئے کہ اکیسویں صدی کے ناولوں میں کئی نام آتے ہیں۔ سید محمد اشرف کا ناولٹ’’ نمبردار کا نیلا‘‘بڑا مشہور ہو اتھا، انہی اشرف صاحب کا ناول ’’آخری سواریاں‘‘پچھلے دنوں پڑھا، بہت اچھا لگا۔ بھارت ہی سے انیس اشفاق کا ناول ’’دکھیارے‘‘ پچھلے ماہ پڑھا۔ سیدھی سادی کہانی ہے، ختم ہونے پر معلوم ہواکہ دل میں کھب گئی۔ مرزا اطہر بیگ ہمارے فلسفے کے استاد اور جدید ناول نگار ہیں۔ ان کا پہلا ناول ’’غلام باغ‘‘اردو کے چند اہم ترین ناولوں میں ہے۔ علامتی انداز ہے، انہوں نے کئی تجربات بھی کئے، قاری کو تحمل سے پڑھنا ہوگا۔ مرزا صاحب کا دوسرا ناول’’ سائبر سپیس کے منشی‘‘ بھی دلچسپ تھا، تیسرا ناول ’’حسن کی صورتحال‘‘البتہ ضرورت سے زیادہ تجربات کی نذر ہوگیا۔عاصم بٹ کا پہلا ناول’’ دائرہ‘‘ مختلف اور دلچسپ لگا۔علی اکبر ناطق ہمارے نوجوان لکھاری ہیں، افسانہ نگار، شاعر، مترجم، نقاد اور نولکھی کوٹھی جیسے ناول کے مصنف۔ ناطق خاصے آئوٹ سپوکن ہیں ، سوشل میڈیا پر اپنے تند وتیز تبصروں کی وجہ سے متنازع ہو جاتے ہیں، مگر ان کے جینوئن تخلیق کار ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔اختر رضا سلیمی نے دو ناول لکھے، دونوں اچھے ہیں، ’’جندر‘‘ ان کا دوسرا ناول ہے، جسے تارڑ صاحب جیسے بڑے فکشن نگار نے دل کھول کر سراہاہے۔چند ماہ پہلے سید کاشف رضا کا ناول’’ ایک کچھوا اور چار درویش‘‘کتابی سلسلہ’’ آج‘‘ کے خاص نمبر میں پڑھا۔ کاشف رضا سنجیدہ لکھاری ہیں، یہ ناول اردو کے جدید ناولوںمیں اچھا اضافہ ہے۔