مکرمی ! مطالعہ پاکستان'' کی پھبتی تو ہم نے بہت سن لی کیوں نہ اب محققین کرام کے ممدوحین کا کچھ تذکرہ ہو جائے؟ کیا انہیںکچھ خبر ہے برطانیہ اور امریکہ کے تعلیمی اداروں میں کون سی تاریخ پڑھائی جا رہی ہے؟ امرتسر کے جلیانوالہ باغ میں جو ہوا کیا وہ برطانیہ کے نصاب کا حصہ ہے ؟ کیا نصاب یہ بتاتا ہے جس جنرل ڈائر کو قومی ہیرو بنا کر اظہار تشکر کے لیے برطانوی قوم نے 26 ہزار پائونڈ اکٹھے کیے تھے اس کا اصل چہرہ کتنا گھنائو نا تھا ؟ کیا برطانیہ کے نصاب میں کہیں لکھا ہے ۔جب برطانیہ نے ہندوستان پر قبضہ کیا تو ہندوستان کی معیشت دنیا کی معیشت کا 24 فیصد تھی اور جب برطانوی راج ختم ہوا تو یہ محض 4 فیصد رہ گئی تھی ؟ کیا کہیں یہ ذکر موجود ہے جب 1943 میں بنگال میں قحط سے 41 لاکھ لوگ مر گئے تو چرچل نے کہا تھا : میں ہندوستانیوں سے نفرت کرتا ہوں، انہیں مر جانا چاہیے یہ خرگوش کی طرح کھاتے ہیں برطانیہ جمہوریت کی ماں ہونے کے باوجود بادشاہت کو سینے سے لگا لے تو یہ شعور اجتماعی قرار پاتا ہے ، ہمارے ہاں مغلوں یا سلطنت عثمانیہ کا ذکر ہو جائے تو یاروں کے مزاج برہم ہو جاتے ہیں۔ ہمیں سمجھایا جاتا ہے کہ دیکھیے صاحب ہمارے شہنشاہ تو ہم پر مسلط تھے لیکن برطانیہ نے تو جمہوری انداز سے فیصلہ کیا بادشاہت کو برقرار رکھنا ہے لیکن ہمیں یہ نہیں بتایا جاتا برطانوی قانون میں ملکہ برطانیہ کو بادشاہت سے پر امن طریقے سے ہٹانے کی بات کرنا بھی جرم ہے۔ برطانوی وزارت قانون وضاحت کر چکی ، 1848ء کا ٹریزن فیلونی ایکٹ آج بھی نافذ العمل ہے۔ یہ بات بھی برطانوی اخبارات میں چھپ چکی کہ تیس فیصد لوگ بادشاہت نہیں چاہتے۔لیکن وہ بات نہیں کر سکتے۔ انہیں معلوم ہے اس کی سزا عمر قید ہے۔ ملکہ کے خلاف بات کی سزا عمر قید ہے لیکن ہم سے مطالبہ ہے ہم آزادی رائے کے نام پر مقدس ہستیوں کی توہین گوارا کر لیں۔ این جی اوز کے ذریعے وطن عزیز میں دانشوروں کی جو تیسری جنس متعارف کرائی گئی ہے ، یہ اس کی واردات ہے کہ شہریوں کو فکری طور پر اپاہج کر دو۔ یہ اپنی تاریخ کے کسی باب پر فخر نہ کر سکیں ، یہ اسے ندامت کا ایک بوجھ سمجھ کر ہمیشہ معذرت خواہانہ رویے کا شکار رہیں۔ انہیں باور کرایا جائے کہ افضل تہذیب تو مغرب کی تہذیب ہے۔ تم تو بس دھرتی کا بوجھ ہو۔ اس فکری واردات کا ابطال لازم ہے۔ ( سکینہ وقار)