حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کے احوال و آثارسے یہ امر، بالاہتمام مترشح ہوتا ہے کہ ایک صوفیٔ باکمال کا متبحر عالم ہونا اور پھر اُس عالم کا، اپنے اس علم پر متبع ہونا از حد ضروری ہے ۔ حضرت علی بن عثمان الہجویریؒ ،جو بلاشبہ بلند پایہ "عالمِ ربّانی" اور عالی مرتبت "شیخِ کامل"تھے، کے اسلوبِ حیات اور طرزِ زیست سے یہ بات بھی نمایاں ہے کہ آپؒ نے دین اسلام کے ایک عظیم مبلّغ کے طور پر، ابتداً "عالمِ شریعت"اور ثانیاً "شیخ طریقت"ہونا پسند فرمایا، بایں وجہ لاہور میں آپؒ نے اپنے قیام کے معاً بعد، مسجد کی تعمیر کا اہتمام فرمایا،مسندِ تدریس کو رونق بخشی، تخلیقی فکر کی بِنا ڈالی اور اس کے ساتھ ازخود مُصلّیٔ امامت سنبھالا ۔ داتا دربارؒ میں ، اس اوّلین محراب کی جگہ کا نشان اب تک محفوظ ہے، جہاں آپؒ کی اقتداء میں دورانِ نماز ، حجاب اُٹھ گئے، اور آپؒ کے معترضین جو ا س وقت آپؒ کے مقتدی بھی تھے ، لاہور ہی سے کعبۃ اللہ کی زیارت سے بہرہ یاب ہوئے، یوں آپؒ کی خصوصی توجہات سے ظاہری یا مادی فاصلے سمٹے، پردے اُٹھے، اشکال اور ابہام رفع ہوئے اور اس خطے کے لوگوں کا "قبلہ"درست ہو گیا، بقولِ اقبالؒ: افلاک سے آتا ہے ، نالوں کا جواب آخر کرتے ہیں خطاب آخر ، اُٹھتے ہیں حجاب آخر خلوت کی گھڑی گزری ، جلوت کی گھڑی آئی چھَٹنے کو ہے بجلی سے ، آغوش سحاب آخر برصغیر یا جنوبی ایشیا کی دینی، فکری اور تہذیبی تاریخ پہ حضرت داتا گنج بخشؒ کے نقوش، بلاشبہ اَن مٹ اور غیر متبدّل ہیں، صدیوں سے لوگ ان کے معتقد اور معترف ہیں، شاہانِ وقت سے لے کر عام زائرین و عقیدتمند ان کے دَر کی حاضری کو اپنے لیے ہمیشہ اعزاز اور افتخار جانتے ہیں۔ ہمارے علمی و دینی حلقوں اور سماجی طبقوں نے ان کو بطورِ صاحبِ کرامت بزرگ از حد اہمیت دی، دینِ اسلام کے اوّلین مبلّغ اور شریعت و طریقت کے، قافلہ کے سالار کے طور پر ان کی حیثیت بھی ہمیشہ معتبر اورمسلمہ رہی ، لیکن تصوف و طریقت اور علمی ودینی طبقوں پر ان کے فکری اور ذہنی اثرات اور حاصلات کو،ہماری علمی اور فکری بے بضاعتی کے سبب، اس درجے پذیرائی اور عوامی رسوخ میسر نہ آ سکا، جس قدر آنا چاہیے تھا۔۔۔ کہ جس کا عظیم ، ضخیم اور گراں قدر مجموعہ"کشف المحجوب"کی صورت میں دنیا کو میسر ہے، اس کا سبب شاید یہ بھی ہو کہ "کشف المحجوب" تصوّف کی ایک "ٹیکسٹ بک "ہے، اور نصابی کتب تو سبقاً سبقاً پڑھنے ہی سے فائدہ دیتی ہیں۔ جس کی تصریح از خود صاحبِ کشف المحجوب نے کتاب کے ابتداء ہی میں فرما دی، کہ اس کا یہ عنوان اس لیے چنا کہ اس کے مندرجات کی ترجمانی ہو، اور مضامین تک رسائی وہی پائے گا ، جس کو چشمِ باطن میسر ہوگی۔ایک ہزار سال گذر گئے ، آپؒ کے احوال و آثار اور حیات و تعلیمات کا، ہمارے پاس واحد منبع(Source)، اور سب سے معتبر حوالہ، کشف المحجوب ہی ہے،جس کی موجودگی کے سبب، آپ ؒ کے تفصیلی حالات کی کمیابی کا احساس زیادہ شدید نہیں ہو پاتا، اور پھر ایک صاحبِ حال ہستی کی سوانح زیست کا نقطہ کمال تو وہ مشاہدات، مکاشفات، روحانی مقامات اور علمی مکالمات ہی ہوتے ہیں، جو راہ سلوک کی مختلف منازل میں اس پہ وارد ہوئے ، جن کا حصہ وافر اس عظیم کتاب میں بدرجہ کمال موجود ہے ۔ اورجس کے آئینے میں آپؒ کی شخصیت کا جو عکس نمایاں ہوتا ہے، وہ ایک نابغہ، عبقری، جینیئس اور سب سے بڑھ کر "معلم اخلاق"کا بھی ہے۔ بلاشبہ معلم ہونے کے لیے عالم ہونا ابتدائی اور بنیادی شرط ہے، جس کی طرف نکلسن نے بھی اشارہ کیا تھا: "The Auther's attitude throughout is that of a teacher instructing a pupil". یعنی صاحبِ کتاب (کشف المحجوب) کا اسلوبِ بیان۔۔۔ از اوّل تا آخر ، ایک معلم جیسا ہے، جو اپنے شاگرد کو ہدایت و راہنمائی سے آراستہ کر رہا ہے، بدقسمتی سے ہمارے ہاں یہ علمی اور خانقاہی روایت فراموش ہو گئی، ہمارے مدارس ومقابر، اس ذمہ داری سے عہدہ برآ نہ ہو سکے۔ سلطان المشائخ حضرت خواجہ نظام الدین اولیائؒ اس کتاب کے بڑے معترف اور اپنی خانقاہ میں اس کے درس کا باقاعدہ اہتمام فرماتے۔ سبحان اللہ! کیا لذت اور حلاوت ہو گی، اس نور پرور ماحول میں ، جہاں حضرت سلطانِ الاولیائؒ داتا گنج بخشؒ کی کتاب کا مطالعہ، حضرت سلطان المشائخ نظام الدین اولیاؒکی زبان فیض ترجمان سے دنیا کو میسر آ رہا ہو گا، اور سُننے والوں میں حضرت نصیر الدین چراغ دہلوی ؒ، حضرت امیر خسروؒ، حضرت محی الدین کاشانی ؒ، مولانا فخر الدین زرادی، حسام الدین ملتانی اور کیا کیا اصحابِ طریقت و محبت ہوں گے۔اور اس فیضان سے آنے والی نسلوں کو بھی آگاہ کردیا کہ اسے محض ایک کتاب نہ سمجھنا بلکہ یہ مُصحف تو شیخ کامل اور مرشد حق کے درجے پہ فائز ہے ، اب یہ مرید صادق پر منحصر ہے کہ وہ اس سے کس طرح اور کتنا اکتسابِ فیض کرتے ہیں۔ ایک اور اہم بات۔۔۔کہ ہمارے ماحول، خطے اور معاشرے میں شاعری بھی رسوخ اور پذیرائی کا ایک اہم ذریعہ ہے، جیسے،ہمارے صوفی شعرأ میں حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکرؒ۔۔۔جن کے اشلوک بابا گرونانک نے گرنتھ صاحب میں شامل کیے، سلطان العارفین حضرت سلطان باہوؒ،حضرت شاہ حسینؒ ، حضرت خواجہ غلام فریدؒ اور حضرت بابا بلھے شاہؒ اس روایت کی مضبوط شخصیات ہیں، اور پھر حضرت اقبالؒ۔۔۔ جن کی "تشکیل جدید الٰہیات اسلام"کا مطالعہ از حد دشوار، جبکہ بالِ جبریل اور بانگِ درا کا قدرے آسان بلکہ ۔۔۔ کئی اشعارتو زبانِ زدِ عام ۔ویسے بھی انسانی فطرت نثر کی بجائے نظم اور تحت اللفظ کی بجائے ترنم کی طرف زیادہ مائل ہوتی ہے۔ اس بابت جو حادثہ ہوا، وہ از خودحضرت داتا صاحبؒ نے بیان فرما دیا کہ میرا دیوان کسی جعل ساز نے چُراکر اپنے نام سے مشہور کردیا ، آپؒ فرماتے ہیں اس کو وقتی طور یہ شہرت تو میسر آگئی، مگر اس سرقے کے سبب، اس کی زندگی سے برکت معدوم ہوگئی، کہ جو کچھ لوگ اس کی زبان سے سنتے، اُن میں تاثیر کو مفقود پاتے۔ بہر حال آپ کے شعری دیوان کی دستیابی ایک تخلیقی اور ادبی شاہکار کے طور، سوسائٹی میں تحسین اور پذیرائی کا باعث اور آپؒ کے افکار کی ترویج کا ذریعہ بنتی۔ بہرحال امر واقعہ تو یہی ہے کہ حضرت داتا گنج بخشؒ کے احوال و افکار تک رسائی کا ہم تک جو سب سے مستند و معتبر ذریعہ "کشف المحجوب"ہی ہے ، اور بلاشبہ وہ اُمہات کتب ِتصوف میں سے نمایاں ترین ہے، اور بعض محققین کے مطابق "رسالہ القشیریہ" کو بلاشبہ اوّلیت میسر ہے، مگر مسلم تصوّف کی اوّلین فکری کتاب ہونے کا اعزاز بالاتفاق "کشف المحجوب "ہی کو حاصل ہے ،اس لیے کہ آپؒ کے عہد کے دینی حلقوں اور صوفیانہ زاویوں میں فلسفیانہ موشگافیوں اور نظریاتی بحثوں کا آغاز ہو چکا تھا، مسلم سوسائٹی میں نِت نئے افکار و خیالات دَر آنے لگے تھے، آزاد رَوی اور تجدّد پسندی زور پکڑنے لگی ، حضرت داتا گنج بخشؒ نے اپنے عہد کے ان تقاضوں کو جانا ، سمجھا اور پھران منفی عوامل کا خوب تدارک کیا ، جس کے نقشے اور نمونے کشف المحجوب میں جا بجا میسر ہیں۔