سیاست سے اب اکتاہٹ سی ہونے لگی ہے۔آج نسیم حجازی کی بات کرتے ہیں۔نسیم حجازی مرحوم کو لوگ ان کے تاریخی ناولوں سے جانتے ہیں جن میں انہوں نے مسلمانوں کے ماضی کو رومانوی انداز سے پیش کیا لیکن ’ سفید جزیرہ ‘ نسیم حجازی کا ایک ایسا ناول ہے جس کے بارے میںخود ان کا دعوی ہے ’’ میں نے ماضی کی بجائے مستقبل میں جھانکنے کی کوشش ہے ‘‘۔ ابتدائیے میں وہ اپنے قارئین کو مشورہ دیتے ہیں ’’الجھن دور کرنے لیے انہیں فرض کر لینا چاہیے کہ وہ آدھ صدی آ گے جا چکے ہیں، جب سفید جزیرے میں کنگ سائمن قہر اللہ کی حکومت ہے‘‘۔یاد رہے یہ ناول نصف صدی قبل لکھا گیا تھا۔ نسیم حجازی کا کہنا ہے سفید جزیرہ انہوں نے دو کہانیوں سے متاثر ہو کر لکھا۔پہلی کہانی ایک دروویش اور اس کے کمسن چیلے کی ہے۔ درویش اللہ کا نیک بندہ تھا ،روز دعا مانگتا، اے اللہ !مجھے حکومت عطا فرما دے ، میں تیری مخلوق کی خدمت کر وں گا، ناداروں کو کھانا دوں گا، فحاشی اور بے حیائی ختم کر دوں گا ۔ برسوں دعا کے باوجود جب یہ قبول نہ ہوئیں تو چیلے کی عقیدت میں فرق آنا شروع ہو گیا۔ جب درویش دعا مانگنے لگتا تو ساتھ ہی چیلا بھی اونچی آواز میں دعا مانگنے لگتا کہ اے اللہ یہ درویش اب بڈھا ہو گیا ہے، تو ایسا کر میری دعا قبول فرما لے۔ میں تجھ سے وعدہ کرتا ہوں میں حکمران بن گیا تو میرا ہر کام مرشد کے الٹ ہو گا ۔میں سب کو ذلیل کر دوں گا، میں ان کے منہ سے نوالا تک چھین لوں گا ،میں کسی کو نہیں چھوڑوں گا۔اسی دوران ایک ریاست کا بادشاہ مر گیا اور طے ہوا کل جو بھی شہر میں سب سے پہلے آئے گا اسے بادشاہ بنا دیا جائے گا۔ چیلا بھیک مانگنے اگلے روز شہر میں داخل ہوا تو عمائدین نے اسے پکڑ کر بادشاہ بنا دیا۔چیلے نے وعدے کے عین مطابق لوگوں کی زندگی عذاب کر دی۔ریاست میں ایسی تبدیلی آئی کہ نسیم حجازی لکھتے ہیں’’اب ان دانشمندوں کو سر چھپانے کے لیے جگہ نہیں ملتی تھی جنہوں نے ملک کی بھلائی کے لیے ایک گداگر کو تخت پر بٹھا دیا تھا‘‘۔ دوسری کہانی اس سے بھی دلچسپ ہے۔ نسیم حجازی لکھتے ہیں ایک بادشاہ کا شکار پر جانے کو جی چاہا۔ بادشاہ نے اپنے نجومی وزیر اعظم سے پوچھا موسم کیسا رہے گا۔ وزیر اعظم نے کہا میرا علم کہتا ہے موسم شاندار رہے گا۔بادشاہ چل پڑا۔ راستے میں ایک کسان ملا، اس نے کہا بادشاہ سلامت لوٹ جائیے موسم کے تیور بگڑنے والے ہیں۔ بادشاہ نے اس کی بات سنی ان سنی کر دی لیکن تھوڑا آگے گیا تو بارش اور طوفان نے آلیا۔بادشاہ نے کہا اس کسان کو ڈھونڈواس عقلمند آدمی کو میرا وزیر اعظم ہونا چاہیے۔ کسان کو لایا گیا تو اس نے عرض کی بادشاہ سلامت میں نجومی نہیں ہوں۔ یہ میرا نہیں میرے گدھے کا کمال ہے جب یہ کان ڈھیلے چھوڑ دیتا ہے تو بارش اور آندھی آتی ہے اور آج اس نے کان ڈھیلے چھوڑ ے ہوئے تھے تو مجھے علم ہو گیا آج بارش اور آندھی آئے گی۔ بادشاہ نے کہا : ’’بہت اچھا ! آج سے تمہارا گدھا ہمارا وزیر اعظم ہو گا‘‘۔ ان دو کہانیوں کے بعد نسیم حجازی سفید جزیرے کی طرف آتے ہیں۔ بر طانیہ سے ایک طشتری مریخ جاتی ہے اور اس میں لاٹری جیتنے والے سر سائمن سوار ہوتے ہیں۔ طشتری خراب ہو کر ایک محل میں گرتی ہے ۔ محل میں وزرائے کرام بادشاہ کے مرنے کے بعد سوچ رہے ہوتے ہیںکہ اب نیا بادشاہ کسے بنایا جائے۔ طشتری سے جب سر سائمن نکلتے ہیں تو انہیں مریخ سے آیا قدرت کا انعام سمجھ کر بادشاہ بنا لیا جاتاہے۔ ہز میجسٹی قوم سے اپنے پہلے خطاب میں فرماتے ہیں:میرا دور حکومت نہ صرف آپ کے ملک کی تاریخ میں بلکہ دنیا کی تاریخ میں یاد گار رہے گا، آپ کی قوت برداشت آگے چل کر جواب نہ دے گئی تو میری ہر بات آپ کی سمجھ سے بالاتر ہو گی‘‘۔ سر سائمن ماضی میں بیمار ہوئے اور جان بچنے کی کوئی صورت نہ رہی تو ان کے دماغ میں بندر کے دماغ کے چند غدود ڈالے گئے جس کے اثرات ان میں کبھی کبھار نمودار ہو جاتے چنانچہ ان کی تخت پوشی کی تقریب میں جب آتش بازی ہوئی تو وہ ڈر کر درخت پر چڑھ گئے۔ایک وزیر انہیں اتارنے گیا تو چیخ پڑا۔لوگوں نے پوچھا کیا ہوا۔ اس نے سراپا فریاد بن کر کہا ’’ ہز میجسٹی کاٹتے بھی ہیں‘‘۔کابینہ نے کہا طلباء کے لیے بھی اب درخت پر چڑھنا لازم قرار دیا جائے۔ ایک مقامی صحافی نے کہا ہز میجسٹی صحت کا بہت خیال رکھتے ہیں اس لیے درخت پر چڑھ گئے لیکن ایک غیر ملکی صحافی کا خیال تھا کہ ہز میجسٹی کا دماغی توازن ٹھیک نہیں۔اپنے ملک واپس جا کر اس صحافی نے لکھا ’’مجھے یقین ہے کہ اگر کنگ سائمن کچھ اور عرصہ اس جزیرے پر حکمران رہا تو س جزیرے کے عوام غربت جہالت اور ذہنی انتشار کے وہ تمام ریکارڈ توڑ ڈالیں گے جو گزشتہ صدیوں میں فرزندان آدم نے کسی انتہائی پسماندہ ملک میں قائم کیے ہوں ۔میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ میں ایک وسیع پاگل خانے سے بھاگ آیا ہوں‘‘۔ ہز میجسٹی جو بھی کام کرتے ان کی کابینہ کا دعوی ہوتا ہے کہ یہ کام سفید جزیرہ کی تاریخ میںپہلی بار ہو رہا ہے ۔کنگ سائمن قہر اللہ کے طرز حکومت کا جائزہ لینے کے بعد نسیم حجازی لکھتے ہیں’’عوام نے سوچا کہ جن لوگوں کو وزیر نامزد کر دیا گیا ہے ان کا حدود اربعہ کیا ہے تو یہ معلوم ہوا کہ اعلی حضرت نے قوم کا بد ترین عنصر عوام پر مسلط کر دیا ہے۔لیکن اب کنگ سائمن کی گیارہ ماہ کی حکومت کے بعد لوگوں کو اپنے اندرونی مسائل اور بیرونی خطرات سے کوئی دل چسپی نہیں رہی۔ان کے لیے اب ہز میجسٹی کنگ سائمن قہر اللہ ہی ملک کا سب سے بڑا مسئلہ بن چکے ہیںاور وہ سمجھتے ہیں اتنی بڑی لعنت مریخ کے سوا کسی جگہ سے نازل نہیں ہو سکتی۔زندگی انہیں اب ایک مذاق معلوم ہوتی ہے کیونکہ کنگ سائمن قہر اللہ کے وزیروں نے ان کے دروازوں پر موت کا پہرہ بٹھا رکھا ہے لیکن ان سب باتوں کے باوجود وہ زندہ ہیں اور ان کے دلوں میں زندہ رہنے کی خواہش کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ وہ صبح و شام یہ دعا مانگا کرتے ہیں: ’’زمین و آسمان کے مالک !ہماری حالت پر رحم کر،ہمیں اس بلائے عظیم سے نجات دلا جو چھت پھاڑ کر ہم پر نازل ہوئی ہے۔‘‘