سانحہ ساہیوال کرسٹل کلیئر یعنی شیشے کی طرح شفاف ہے ۔ ظلم ہوا، انتہائی درجے کا ظلم ۔قوم پر یہ بات آشکار ہوچکی۔ کسی جے آئی ٹی رپورٹ کا انتظار نہیں۔ چینلز پرخبروں کی پٹی چلتی ہے کہ جے آئی ٹی میں دو ارکان کا اضافہ ہوگیا، فلاں اس کو لیڈکرے گا، وغیرہ وغیرہ،اس پر حیرت ہوتی ہے کہ ارباب اقتدار عوامی جذبات اور احساسات سے اس قدر لاعلم ہیں۔حکمرانوں کو کیوں خبر نہیں کہ عوام کو اس جے ٹی آئی کی ذرا برابر پروا نہیں۔جے آئی ٹی کیا معلوم کرے گی اور اس کی رپورٹ میں کون سے انکشافات ہوں گے… اس میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا۔لوگ جان ، سمجھ ، فیصلہ کر چکے کہ اس کیس میں کون ظالم ہے اورمظلوم کے ساتھ کیا ہوا؟ہر گزرتے لمحے کے ساتھ عوامی طیش اور فرسٹریشن بڑھ رہی ہے ۔ عوام درست اندازہ لگا چکے ہیں کہ اس بھیانک واردات کرنے والے قاتلوں کو بچانے کی کوشش ہورہی ہیں۔ سی ٹی ڈی کی جانب سے جو موقف پیش کیا گیا، اس میں بار بار یوٹرن اور تبدیلیاں آئیں۔ شائد ہی کوئی متاثر یا قائل ہوا ہو۔یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ سی ٹی ڈی نے سراسر جھوٹ اور دروغ گوئی پر مبنی پریس ریلیز جاری کی۔ اگر خلیل کامعصوم بچہ چینلز پر اصل حقیقت نہ بتادیتا تو اس کے قوی امکانات ہیں کہ ملک بھر میں سی ٹی ڈی کا گمراہ کن پروپیگنڈہ کارگر رہتا ۔ رب تعالیٰ نے ان ظالموں کا پردہ چاک کرنا ، رسوائی کی سیاہی ان پر مسلط کرنا تھی کہ معصوم بچے نے بے باکی سے سب کچھ سچ بتا دیا۔مجھے تو یقین ہے کہ اگر قاتلوں کو ذرا برابر بھی شک ہوتا کہ یہ بچہ سچ اگل دے گا تو اسے بھی قتل کر دیا جاتا۔ چند سوالات ہیں، جن کے جواب سی ٹی ڈی پر دینے فرض ہیں۔ کیا واقعی پاکستان میں داعش کا نیٹ ورک مضبوط ہے اوروہ عوامی حلقوں میں سرائیت کر چکی ہے؟ اس سے پہلے قانون نافذ کرنے والے ادارے زور دے کر کہتے آئے ہیں کہ پاکستان میں داعش کا کوئی وجود نہیں۔ سی ٹی ڈی کی مہربانی سے دنیا بھرکے میڈیا کو یہ خبر ملی ہے کہ داعش لاہور جیسے اہم شہر میں اپنا مضبوط نیٹ ورک بنا چکی ہے۔عالمی سطح پر اس کے جو مضمرات ملک کو بھگتنا ہوں گے، اس کا اندازہ ان پولیس افسروں کو ہرگز نہیں جو اپنے پیٹی بھائیوں کو ہر قیمت بچانا چاہتے ہیں۔پولیس کے نزدیک مبینہ ملزم زیشان خلیل کے محلے میں عرصے سے رہائشی، اس کا پورا خاندان یہیں کاہے۔ ایک بھائی ڈولفن پولیس میں ملازم ہے، جس کی بھرتی سے پہلے باقاعدہ انٹیلی جنس سروے ہوتا ہے۔اگر کوئی مشکوک تاثر ہوتا تو اسی وقت سامنے آ جاتا۔یہ افغانستان سے آیا کوئی گمنام شخص نہیں جوایک شہر سے دوسرے کو جا رہا تھا اور خدشہ لاحق ہوا کہ اگر فوری پکڑا نہ گیا تو فرار ہوجائے گا۔زیشان پانچوں وقت مسجد میں نماز پڑھنے والا شخص تھا،اسے تو کسی بھی وقت پکڑا جا سکتا تھا۔دہشت گرد تنظیم کے ایجنٹ کو ہمیشہ زندہ پکڑنے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ اس سے معلومات حاصل کی جا سکیں۔ میرا اندازہ ہے کہ زیشان کے بارے میں سی ٹی ڈی والوں کوواردات کے بعد میں علم ہوا کہ اس کا تعلق اہل حدیث جماعت سے ہے ، انہوں نے اسے فوراًداعش کے کھاتے میں ڈال دیا کہ یہ دہشت گرد تنظیم بھی سلفی سمجھی جاتی ہے۔ جاہل اہلکاروں کو یہ علم نہیں کہ اگرچہ ہمارے ہاں اہل حدیثوں کو سلفی کہہ دیا جاتا ہے، لیکن عربوں میں سلفی فکر پاکستانی سلفیوں سے مختلف ہے، داعش تو ویسے ہی شدت پسند سلفی تنظیم ہے۔داعش سعودیوں کے سخت مخالف ہے ،جبکہ پاکستانی سلفی سعودی علما کی سوچ کے قریب اور سعودی حکومت کو تکریم کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔کسی پاکستانی اہل حدیث کا داعش میں شامل ہونا بعید ازقیاس ہے ۔ گاڑی کے ساتھ موٹرسائیکل سواروں کا چلنا اور سی ٹی ڈی کے سکواڈ پر ان کی فائرنگ تو خیر ایک گھٹیا افسانہ اور جھوٹی بات ہے۔ عینی شاہدین کی ویڈیوز سے یہ ثابت ہوگیا کہ ایسی کوئی بات نہیں۔ ویسے بھی اس گاڑی کے ساتھ مسلح موٹرسائیکل سوار کیوں چلتے؟اس کی کیا تک تھی؟یہ سٹوری اگر مان لی جائے تو پھرسی ٹی ڈی کے لوگوں نے موٹرسائیکل سواروں کو فائرنگ کا نشانہ کیوں نہیں بنایا، جو کھلی جگہ پر ہونے کی وجہ سے زیادہ آسان ٹارگٹ تھے۔ موٹر سائیکل ویسے بھی گاڑی کی رفتار کا کہاں مقابلہ کر سکتا ہے؟ ہائی وے پر موٹرسائیکل سوار کہاں اور کیسے فرار ہوسکتے ہیں؟ پولیس کے پاس اچھے خاصے فاصلے تک مار کرنے والی گنیں ہوتی ہیں، نہایت آسانی سے کسی بھی بائیک والے کو دور سے ہٹ کیا جا سکتا ہے۔ چلیں ایک لمحے کے لئے فرض کریں کہ اس بدنصیب گاڑی کا ڈرائیور داعش کا ایک ہینڈلر تھا۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہہ لیتے ہیں کہ وہ پاکستانی ابوبکرالبغدادی تھا۔اگر ایسا ہوتا تب بھی سی ٹی ڈی یا کسی بھی دوسری ایجنسی کے اہلکار کو حق حاصل نہیں کہ وہ یوں اندھادھند فائرنگ کر کے اسے قتل کر دے۔سپاہی دہشت گردوں کو گرفتار کرنے، انکی کارروائیاں ناکام بنانے کے لئے بھرتی ہوتے ہیں۔ ان کا تقرر بطور جلاد یا ٹارگٹ کلرز کے نہیں کیا جاتا۔ قانون سے بالاتر کوئی نہیں۔ماورائے عدالت قتل درحقیقت قتل عمد (ارادی قتل)ہے، قانون کے مطابق جس کی سزا پھانسی ہے۔تمام شوائد، ثبوت یہ بتا رہے ہیں کہ سی ٹی ڈی کے مبینہ ملزم کو گرفتار کرنے کی قطعی کوشش نہیںکی۔ ان کا مقتولوں سے مکالمہ ہوا۔ معصوم بچے نے بتایا کہ اس کے والد نے گاڑی کی تلاشی لینے کی پیش کش کی، یعنی وہ سرنڈر کر رہے تھے ، اس غریب نے یہ بھی کہا کہ ہم سے پیسے لے لو ، مگر گولی نہ چلانا۔ وہ سمجھا تھا کہ وردی کی آڑ میں لٹیرے آ پہنچے ہیں، اسے علم نہیں تھا کہ یہ وردی پہنے درندے ان سب کو قتل کرنے آئے ہیں۔ یہ قاتلوں کا ایسا بدبخت ٹولا ہے جس کی پیاس ان کا خون لئے بغیر نہیں بجھے گی۔ حکومت کا کردار اس حوالے سے نہایت مایوس کن رہا۔ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ وہ تحریک انصاف کی حکومت پر بوجھ اور عمران خان کی سلیکشن غلط ہے۔پنجاب میںشروع سے یوں لگ رہا ہے جیسے صوبہ بغیر کسی وزیراعلیٰ کے چل رہا ہو۔ عثمان بزدار نے بتلا دیا کہ ان میںصورتحال ہینڈل کرنے کی کوئی صلاحیت نہیں۔ پہلے وہ گلدستہ ہاتھ میں تھامے بچوں کو ملنے چلے گئے۔ انہوں نے شائدٹی وی میں دیکھا ہوگا کہ وزرا اعلیٰ جب زخمیوں کی عیادت کرتے ہیں تو پھول ساتھ لے جاتے ہیں۔ یہ نہ سوچا کہ یہ کسی حادثے میں ہونے والے زخمی نہیں بلکہ مقتولین کے ورثا ہیں اورہماری مشرقی روایات میں کوئی غبی شخص بھی پھول لے کر مرحوم کے ورثا کے پاس نہیں جاتا۔ پھر بلا سوچے سمجھے یہ کہہ ڈالا کہ اگر مقتول ملزم ثابت نہ ہوئے تو مناسب معاوضہ دیں گے۔ یعنی پیسوں سے اس ظلم، قتل کی تلافی ہوجائے گی۔ لگتا ہے کہ صوبائی حکومت میں ایسا کوئی سمجھدار شخص موجود نہیں جو سلیقے سے گفتگو کرنے کی استعداد رکھتا ہو۔ صوبائی وزیرقانون کی پریس کانفرنس نے بے شمار دل دکھی کئے، انہوںنے زخموں پر جی بھر کر نمک چھڑکا اوربدلے میںشدید بیزاری اور نفرت آمیز جملے سمیٹے۔ صورتحال واضح ہے، کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں۔ سی ٹی ڈی کے اہلکاروں نے بدترین ظلم کیا، انہیں اس کی شدید سزا ملنی چاہیے۔ گرفتار کر کے انسداد دہشت گردی کی عدالت میں سپیڈی ٹرائل چلایا جائے اور زینب کیس کی طرح چند ماہ میں قاتلوں کو سولی سے لٹکانا ہی انصاف ہوگا۔ اس کے سوا کوئی اور آپشن قابل قبول نہیں۔سی ٹی ڈی کے سربراہ نے جس طرح کوراپ کرنے کی کوشش کی، اس پر انہیں ہٹا دینا چاہیے۔ آئی جی پنجاب پولیس کا تبادلہ بھی موزوں فیصلہ ہوگا۔ وزیراعلیٰ ہائوس میں چہرہ کی تبدیلی بھی اب ضروری ہوگئی۔عمران خان اگر پنجاب میں اپنی سیاسی بیس برقرار رکھنا چاہتے ہیں تو یہاں کپتان تبدیل کریں۔بزدار صاحب سرائیکیوں یاجنوبی پنجاب کے نمائندہ نہیں۔ اگر واقعتاً سرائیکی خطے سے وزیراعلیٰ لانا ہے تو کسی مرد معقول کا انتخاب کریں۔کوئی بھی سیاسی طور پر سمارٹ، متحرک ، ذہین شخص جسے دیکھ کر سرائیکیوں کو ندامت اور شرمساری نہ ہو۔ یاد رکھا جائے کہ یہ صرف ایک سانحہ نہیں، بلکہ سی ٹی ڈی کے لاتعداد آپریشن، دہشت گردی کے خلاف کئی برسوں سے جاری جدوجہد سب کچھ دائو پر لگ چکا ہے۔ ہر آپریشن پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ ہمیں اعتراف ہے کہ فورسز نے دہشت گردوں کے خلاف بے پناہ قربانیاں دی ہیں، ان کے بہت سے نوجوان، افسر شہید ہوئے، خود سی ٹی ڈی کے کئی اہلکاروں نے اپنے لہو سے وطن کی محبت کی شمع روشن کی۔ یہ سب کچھ درست ہے، لیکن حالیہ کیس میں غلط اور ظلم ہوا۔ جو اہلکاراس کارروائی میں شامل تھے، انہوں نے جنون ، وحشت اور بے رحمی کا مظاہرہ کیا۔ انہیں سزا دینا ضروری ہے ۔ سول اور ملٹری قیادت کو اس معاملے میں تیز رفتاری سے فیصلہ کرنا ہوگا۔ جنرل باجوہ کی دہشت گردی کے خلاف بڑی خدمات ہیں۔ جنرل صاحب سے استدعا ہے کہ وہ اپنے اثروسوخ کو استعمال کر کے سانحہ ساہیوال کے ملزموں کو کیفرکردار تک پہنچائیں۔ رائو انوار اور اس طرح کی دیگر کارروائیو ں کے مرتکب افراد کو بھی اپنے منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔سب کچھ سامنے آ چکا، فیصلہ اب ریاست کو کرنا ہے کہ پاکستان کو بے قابو جنگلی درندوں کا جنگل بنانا ہے یا پھر قانون پر عمل پیرا مہذب جمہوری ملک؟