فیصل آباد میں مبینہ پولیس مقابلے میں شوارما کھانے کے لیے جانیوالے 2طلبا کے قتل پر لواحقین نے بھرپور احتجاج کیا ہے۔ دوسری طرف سٹی پولیس آفیسر فیصل آباد نے تحقیقات کے لیے دو رکنی کمیٹی تشکیل دیدی ہے۔ مسلم لیگ(ن) کے دور اقتدار میں بے گناہ افراد کو پولیس مقابلوں میں قتل کرنا عام معمول کی بات تھی۔ طاقتور افراد کی جس آدمی کے ساتھ مخاصمت ہوتی تھی اسے راتوں رات گھر سے اٹھا کر پولیس مقابلہ میں پار کرا دیتے تھے جس کا عابد باکسر نے میڈیا پر آ کر اعتراف بھی کیا ہے۔ ن لیگ کی پنجاب پر 10سالہ اجارہ داری کا اختتام ہو گیا ہے لیکن محکمہ پولیس اسی پرانی ڈگر پر کاربند ہے۔ پی ٹی آئی نے خیبر پی کے میں پولیس کا قبلہ درست کیا، رشوت، جعلی مقابلے اور ناجائز ایف آئی آر کا خاتمہ کر کے وہاں کے عوام کو احساس دلوایا کہ پولیس آپ کی محافظ ہے۔ دشمن نہیں، پنجاب پولیس کو بھی اب اپنے آپ کو درست کر لینا چاہیے کیونکہ نئے پاکستان میں ماورا قانون کسی چیز کی گنجائش نہیں ہے۔ گو نگران وزیر اعلیٰ نے فیصل آباد کے واقعہ کا نوٹس لیکر رپورٹ طلب کی ہے لیکن تحریک انصاف کے پنجاب میں آنے والے وزیر اعلیٰ اگر حقیقت میں پنجاب میں تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو انہیں فیصل آباد کے 2طلبا کے جعلی پولیس مقابلے میں قتل کیس کو ٹیسٹ کیس کے طور پر لیکر اس واقعہ میں ملوث پولیس اہلکاروں کو قرار واقعی سزا دلوانی چاہیے۔ پنجاب کی پولیس 70سال سے ایک ہی ڈگر پر چل رہی ہے۔ اس کی عادات کو درست کرنا کسی چیلنج سے کم نہیں، عمران خان بطور وزیر اعظم اگر پنجاب کے باسیوں کو پولیس کلچر سے نجات دلواتے ہیں تو یہ کسی انقلابی تبدیلی سے کم نہیں ہے۔ پولیس کی سفارشی تعیناتیاں کو ختم، راشی اور کام چور اہلکاروں کا قبلہ درست کرنے کی ضرورت ہے تا کہ اہل پنجاب کو بھی سیاسی پولیس سے نجات مل سکے۔