شریف خاندان نے احتساب عدالت میں کوئی گواہ‘ دستاویزی ثبوت اور معقول دلیل پیش نہ کر کے اس یادگار فیصلے کی راہ ہموار کی جو قابل احترام جج محمد بشیر نے جمعہ کے روز سنایا۔ فیصلے میں فاضل جج نے ایون فیلڈ فلیٹس کی ملکیت ‘ شریف خاندان کی غلط بیانیوں اور جائز وسائل سے بڑھ کر اثاثوں کی تفصیل بیان کی اور یہ بھی بتایا کہ کس طرح ایک قطری خط اور جعلی ٹرسٹ ڈیڈ کے ذریعے احتساب عدالت سے لے کر سپریم کورٹ تک کو گمراہ کیا گیا۔ حسین نواز اور حسن نواز سیانے نکلے قبل از وقت عدالتی کارروائی سے الگ ‘ملک سے فرار ہو گئے‘ شائد والد گرامی اور ہمشیرہ محترمہ کی طرح خوش فہمی میں مبتلا نہ تھے کہ عدالتوں اور قومی اداروں کو مزیدگمراہ و مرعوب کیا جا سکتا ہے۔ حقیقت حال معلوم ہونے کی بنا پر اپنے آپ کو کسی مشکل میں ڈالنا گوارا کیا نہ محض باپ اور بہن کی سیاست کا ایندھن بننے کو جی چاہا۔ یہ بھی پاکستان کا المیہ ہے کہ تیس سال تک اقتدار و اختیار اور قومی وسائل کے مزے لوٹنے والے ہمارے بعض دوستوں کی رائے میںعصر حاضر کے ارسطو‘ افلاطون ‘ قائد اعظم ‘ مولانا محمد علی جوہر اور ابوالکلام آزاد کے دونوں صاحبزادگان برطانوی شہریت کی آڑ میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین و قانون اور عدالتی نظام کو درخور اعتنا نہیں سمجھتے‘ ان کے نزدیک پاکستان صرف ان کے خاندان کی چراگاہ ہے جہاں اقتدار ملے تو ملک اور عوام اچھے اور اس کے وسائل لوٹنے کی آزادی ہو تو جمہوریت محفوظ اور سیاسی و عدالتی نظام معتبر‘ لیکن اگر کوئی رکاوٹ ڈالے تو یہ شہریت اور قیام کے قابل نہیں۔ ارسطوئے زماں کو تو مطالعہ کا شوق ہے نہ عظیم لوگوں کے حالات زندگی جاننے کا ذوق‘مگر انہیں بانس پر چڑھانے اور اس انجام تک پہچانے والے دوستوں کو علم ہو گا کہ جب ارسطو کو جیل میں بعض پیروکاروں نے راہ فرار دکھائی تو اس کا جواب تھا کہ میں تاریخ میں اپنا نام قانون شکنوں کی صف میں کبھی نہیں لکھوائوں گا۔ قائد اعظم کی قانون پسندی ضرب المثل ہے اور مولانا محمد علی جوہر ہوں یا مولانا ابوالکلام دونوں پر قومی دولت لوٹ کر لندن میں فلیٹس خریدنے کا الزام تھا نہ ناجائز کمائی سے خریدی گئی جائیدادں کے لیے جعلی دستاویزات تیار کرنے کا شبہ اور نہ ان کے پرستاروں کو یہ یقین کہ ہمیں اپنے اقتدار اور لوٹ مار کا ایندھن بنا کر خود سرکار سے ڈیل کر لیں گے‘ جس طرح 2000ء میں شریف برادران نے کی اور اب کوششیں جاری ہیں۔ گزشتہ روز فیصلہ آیا تو مسلم لیگ کا کوئی کارکن اور لیڈر سڑکوں پر نہ نکلا۔ سڑکوں پر نکلنا تو درکنار بڑبولے لیڈروں کی زبان پر چھالے پڑ گئے۔ میاں شہباز شریف کے ایک پھسپھسے بیان کے سوا کسی کو لب کشائی کی توفیق نہ ہوئی‘ جب لیڈروں اور کارکنوں کو علم ہے کہ میاں نواز شریف اپنے صاحبزادگان اور دیگر عزیز و اقارب کو لندن کے محفوظ قلعہ نما گھروں میں عیش و عشرت کا سامان فراہم کر کے ہمیں اور ہمارے غریب بچوں کو لاٹھی گولی کھانے کی دعوت دے رہے ہیں تو کوئی اپنے آپ کو آزمائش میں کیوں ڈالے۔ جدہ جلاوطنی کے دوران آزمائشوں سے گزرنے والے خواجہ عامر رضا‘ ناصر اقبال اور دیگر کارکنوں کا انجام بھی وہ جانتے ہیں۔ جو لوگ اب بھی خوش فہمی کا شکار ہیں کہ میاں نواز شریف کشتیاں جلا کر پاکستانی سیاست کے گہرے پانیوں میں اتریں اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کریں گے انہیں جدہ میں میاں نواز شریف اور مجید نظامی مرحوم کے مابین تاریخی مکالمہ یاد کرنا چاہیے جب نظامی صاحب نے پوچھا کہ آپ اپنے کارکنوں اور پاکستانی عوام کو ایک فوجی ڈکٹیٹر کے رحم و کرم پر چھوڑ کر سرور پیلس کیوں چلے آئے تو میاں صاحب نے کہا نظامی صاحب!’’جیل میں رہنا بہت مشکل ہے‘‘ اس وقت میاں صاحب کی عمر اٹھارہ سال کم تھی اور مریم بی بی نے جیل کا منہ نہ دیکھا تھا۔ میں نے اڈیالہ جیل میں مخدوم جاوید ہاشمی اور یوسف رضا گیلانی کو دیکھا ہے اور کوٹ لکھپت جیل میں جاوید ہاشمی صاحب سے ملتا رہا ہوں اگر جولائی‘ اگست یعنی گرمی اور حبس کے موسم میں میاں صاحب اور مریم بی بی کو ان میں سے کسی ایک جیل میں قید بامشقت کاٹنی پڑی تو ہلّہ شیری دینے والوں کا کچھ نہ بگڑے گا مگر قیدی عمر بھر پچھتائیں گے۔ فعال عدلیہ اور سوشل میڈیا کے اس دور میں غیر قانونی سہولتوں اور شاہانہ مراعات و مدارات کی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔ میاں صاحب اگر 25جولائی سے قبل وطن واپس نہیں آتے تو مسلم لیگ ن کی بچی کھچی سیاست کا بھی بولو رام ہو گا اور مایوس‘ دل شکستہ کارکن و ووٹر اپنا قبلہ تبدیل کرنے پر مجبور ہو گا۔ آنے میں بھی اندیشے بے شمار ہیں اور ہمدردی کی لہر اٹھنے کے وہم میں مبتلا تجزیہ کاروں کوہرگز علم نہیں کہ اگر بے نظیر بھٹو کی ناگہانی موت سے ہمدردی کی لہر نہیں اٹھی اور ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد پیپلز پارٹی پنجاب میں اپنے ووٹ بنک سے محروم ہو گئی اور آج تک سنبھل نہ سکی تو نواز شریف کی سزا اور کلثوم نواز کی بیماری سے یہ توقع وابستہ کرنا خود فریبی ہے۔ جب کارکن اور ووٹر کو علم ہو چکا کہ نواز شریف اور مریم نواز انتخابی سیاست سے آئوٹ ہیں ‘اگلے دو مقدمات کا دفاع ممکن نہیں‘ سزائیںمقدّر ہیں‘ بیرون ملک جائیدوں کی ضبطگی متوقع اور میاں شہباز شریف پر مقدمات کی تلوار لٹک رہی ہے تو وہ اتنا احمق نہیں کہ اپنا ووٹ اور توانائی ضائع کرے۔ نئی چراگاہوں کا رخ کرنے کے لیے انتخابی موسم بہترین ہوتا ہے۔وہ ابھی سے یہ آپشن استعمال کیوں نہ کرے‘اور میرے اندازوں کے مطابق وہ کر چکا ہے ۔اسی بنا پر مسلم لیگ کا کوئی لیڈر ابھی تک ڈھنگ کا اجتماع کر سکا ہے نہ یکسوئی سے اپنی انتخابی مہم شروع۔ ایون فیلڈ فلیٹس کی ضبطی کے حکم پر قانونی ماہرین اور وظیفہ خوار تجزیہ کار یہ کہہ کر شریف خاندان کو تسلی دے رہے ہیں کہ برطانیہ و پاکستان میں معاہدہ نہ ہونے اور صاحبزادگان کی برطانوی شہریت کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں ۔انہیں شاید اندازہ نہیں کہ جب برطانوی پارلیمنٹ میں یہ سوال بار بار اٹھا‘ پاکستانی حکومت نے سنجیدگی سے زور دیا اور افغانستان میں پاکستان کے موثر کردار کے خواہش مند امریکہ و برطانیہ کو یہ باور کرایا گیا کہ آپ کی سرزمین ہمارے مجرموں اور لٹیروں کے لیے محفوظ پناہ گاہ کیوں ہے؟ تو کب تک مزاحمت ہو گی اور قانون پسند برطانوی معاشرہ اس لاقانونیت کوکیسے برداشت کریگا۔ پاکستان کا ہر قانون اور انصاف پسند شہری احتساب عدالت کے اس فیصلے کو بڑے مگرمچھوں کو گرفت میں لانے کی قوی خواہش اور تدبیر کے طور پر دیکھتا اور توقع کرتا ہے کہ دیگر قومی مجرموں اور لٹیروں سے بھی یہی سلوک ہو۔ بعض حلقوں کی طرف سے کرپشن کنگ آصف علی زرداری کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ کی درپردہ مفاہمت اور ممکنہ طور پر بطور صدر انتخاب کی اطلاعات منظر عام پر آئیں ‘میری ذاتی رائے میں یہ باتیں عمران خان اور تحریک انصاف کے علاوہ اسٹیبلشمنٹ کی ساکھ کو مجروح کرنے کے لیے مسلم لیگی کیمپ سے پھیلائی جا رہی ہیں یا پیپلز پارٹی اپنا ٹہور ٹپہ بنانے کے لیے آگے بڑھا رہی ہے لیکن اگر ان میں ذرہ بھر صداقت ہے تو یہ احتساب کے جاری عمل کے لیے تباہ کن اور پاکستان میں ایک نئے سیاسی بحران کو جنم دینے کے مترادف ہے۔1993ء میں غلام اسحق خان اور 2007ء میں پرویز مشرف نے آصف علی زردارزی سے ہاتھ ملا کر رسوائی سمیٹی اور اقتدار سے محروم ہوئے‘ آج بھی یہ اپنے آپ کو رسوا کرنے‘میاں نواز شریف کے بیانیے کو تقویت پہنچانے کی تدبیر ہے۔ احتساب کا عمل فطری رفتار سے آگے نہ بڑھا ‘ اس نے پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے کرپٹ عناصر کو گرفت میں نہ لیا تو اس سے نہ صرف نواز شریف کو فائدہ ہو گا بلکہ اسٹیبلشمنٹ‘ نیب‘ عدلیہ اور تحریک انصاف بھی بدنام ہو گی اور احتساب کا موجودہ عمل انتقام قرار پائے گا۔ حالات کا جبر شائد کسی ایسی خواہش کو پایہ تکمیل تک نہ پہنچنے دے کہ پاکستان کو سدھرنے کا جو تاریخی موقع ملا ہے وہ کوئی ضائع نہیں کرنا چاہتا۔اتنا کچھ گنوانے کے بعد بھی ہم سیاسی مصلحتوں کا شکار ہوئے یا احتساب پر انتقام کا لیبل لگا بیٹھے تو قدرت ہمیں کیسے معاف کرے گی۔ حذر اے چیرہ دستاں‘ سخت ہیں فطرت کی تعزیریں۔