آپ متفکر کیوں ہیں؟کورونا وائرس کی تباہ کاریوں اور حکومت کو درپیش بے پناہ چیلنجز کے باوجود اصلاحات اور احتساب کا عمل تیز ی سے مکمل کرنے کی ہدایت کردی گئی ہے۔ کپتان نے جو اقدامات آئندہ دوبرس میں کرنے تھے‘اب یہ سب آپ کو آئندہ تین ماہ میں عملی طور پر ہوتے نظر آئیں گے۔ احتساب کا فیصلہ کن مرحلہ شرو ع ہونے کو ہے۔حکومتی وزراء ہوں یا ماضی میں اقتدار پر فائز رہنے والی سیاسی شخصیات‘بیوروکریٹس یا کارپوریٹ کمپنیاں‘قومی خزانے کو نقصان پہنچانے والا کوئی نہیں بچ سکے گا۔ چینی اور آٹا سکینڈل کے بعد رواں ہفتے کے دوران وزیراعظم کو دوتحقیقاتی رپورٹس پیش کی جائیں گی۔ ان رپورٹس کا براہ راست تعلق عوام‘ملکی معیشت اور قومی خزانے سے ہے۔باخبر حکومتی شخصیت سے ملاقات ختم ہوتے ہی میں نے ان رپورٹس کی کھوج شروع کردی۔ دودن کی تگ ودو کے بعد بالآخران ہوشربا رپورٹس تک رسائی حاصل ہوگئی۔مذکورہ رپورٹس کے مندرجات پڑھنے کے بعد احساس ہوا کہ پانامہ اورجعلی بنک اکاؤنٹس سکینڈل کے نتیجے میں شروع ہونیوالے احتسابی عمل سے شاید زیاد ہ کڑااحتساب اب شروع ہونیوالا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے کورونا وائرس جس سے دنیا کا نظام اتھل پتھل ہوچکا ہے۔معاشی سرگرمیاں انتہائی محدود اور عوام روٹی کوترس رہے ہیں‘ایسے حالات میں وزیراعظم عمران خان نے ایسا بڑا فیصلہ کیوں کرلیا ہے۔حکومتی شخصیت کا دعویٰ تھا کہ عمران خان نے شوگر اورآٹا سکینڈل کی انکوائری تحریری حکم نامے کے ذریعے پبلک کرواکر واضح پیغام دیدیا ہے کہ حکومت کو درپیش تمام ممکنہ خطرات کے باوجود چند بڑے ایشوز کو فکس کرنا چاہتے جنہیں فکس کئے بغیر یہ ملک اپنے پاؤں پر کھڑا ہوسکتا ہے اور نہ ہی آگے چل سکتا ہے۔ عمران خان صاحب شاید اس بات کو بالائے طاق رکھے ہوئے ہیں کہ ایف آئی اے کی انکوائری رپورٹ سے اٹھی چنگاریاں صرف چند شخصیات اور افسران تک محدود رہیں ۔تاہم 25اپریل کے بعد انکوائری کمیشن کی حتمی رپورٹ کی تپش وزیراعظم ہاوس تک پہنچنے کا خدشہ ہے ۔اب ذراپہلی رپورٹ کا جائزہ پیش کرنا چاہتا ہوں جس کا عنوان ’ سورس‘ کیساتھ کئے گئے عہد کے مطابق تحریر نہیں کررہا۔ اس رپورٹ میں ایک شعبے میں موجود کمپنیوں کی جانب سے 400ارب روپے سے زائد رقم غیرمنصفانہ طور پر وصول کرنے کا انکشاف ہوا ہے۔ یہ سلسلہ بدستورجاری ہے کیونکہ ان کمپنیوں نے تمام متعلقہ اداروں کی آنکھوں میں دھول جھونک رکھا ہے۔ اس شعبے میںموجود کمپنیوں نے ملک اور عوام کو بے حال کررکھا ہے۔ حکومت نے اس رپورٹ کی سفارشات پر عمل کردیا توعوام اور ملکی معیشت عمران خان کا یہ احسان کبھی نہیں بھول پائے گی۔ دوسری تحقیقاتی رپورٹ قرضہ انکوائری کمیشن نے تیار کی ہے۔ اس رپورٹ کے مندرجات پڑھتے ہوئے دل دہل گیا۔قارئین کو یاد ہوگا کہ وزیراعظم عمران خان نے ڈپٹی چیئرمین نیب حسین اصغر کی سربراہی میں 21جون 2019کو 11رکنی کمیشن قائم کیا تھا جس میں ایف آئی اے‘ آئی بی‘ آئی ایس آئی‘ سٹیٹ بنک آف پاکستان‘ ایس ای سی پی اور ایف بی آر سمیت دیگر متعلقہ اداروں کے افسران کو شامل کیا گیا تھا۔ وزیراعظم عمران خان نے کمیشن کو 6ماہ میں انکوائری مکمل کرنے کا ٹاسک دیا تھا تاہم کمیشن نے یہ ٹاسک 9ماہ کی مدت میں مکمل کیا ہے۔رپورٹ میں 2400ارب روپے کے قرضوں میں سنگین بے ضابطگیوں کا انکشاف کیا گیا ہے۔21اداروں سے وابستہ 250افراد کے کردار کی نشاندہی کردی گئی ہے‘ جس سے مسلم لیگ( ن) اور پاکستان پیپلزپارٹی کی اعلیٰ شخصیات کیلئے نیا چیلنج تیارہوگیا ہے۔ترقیاتی منصوبوں میں اختیارات کا غلط استعمال اورکک بیکس کی نشاندہی کی گئی ہے۔مختلف ترقیاتی منصوبوں سے رقم نجی اکاؤنٹس میں منتقل ہوئی۔قرضہ انکوائری کمیشن نے 420غیرملکی قرضوں کے مکمل ریکارڈ کی جانچ پڑتال کی۔اورنج لائن ٹرین‘بی آر ٹی پشاور‘کول پاورپلانٹس‘نیلم جہلم پن بجلی منصوبہ‘منگلاڈیم اپ ریزنگ منصوبہ‘تربیلا چوتھا توسیعی منصوبہ ‘ موٹر ویز اورپن بجلی منصوبوں سمیت 2008ء سے 2018ء تک 120منصوبوں کی انکوائری کی گئی ہے جس میں پٹرولیم کے 25منصوبوں‘مواصلات کے85‘پورٹ اینڈ شپنگ اور ریلوے کے56‘ ایچ ای سی کے285‘ صحت کے78 ‘ آئی ٹی کے203 اور دیگر محکموںاوروزارتوں کے مختلف منصوبے شامل ہیں۔ 2008ء میں قرضوں کا حجم 6ہزار 600ارب روپے تھا جو 2018ء میں 30ہزار840ارب روپے تک جاپہنچا تھا۔ قرضہ کمیشن کی جانب سے قرضوں میں سنگین بے ضابطگیوں کی رپورٹ تو تیار کرلی گئی ہے جو آنے والے دنوں میں سیاسی افرا تفری اورگرما گرمی کا اشارہ د ے رہی ہے۔حیران کن معاملہ ہے کہ سٹیٹ بنک آف پاکستان نے 7اپریل کو ملکی قرضوں سے متعلق تازہ ترین رپورٹ جاری کی جس کے مطابق فروری 2019ء سے فروری 2020ء کے دوران 6ہزار ارب روپے کا نیا قرض لیا گیا ہے۔ قرضوں کی سخت مخالفت اورتحقیقات کرنے والی پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اپنے21ماہ کے دوران مجموعی طورپر9ہزار ارب روپے قرض لے چکی ہے۔قرض لینے کے اس تناسب کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کی حکومت 2023ء تک 23ہزار ارب روپے قرض لے چکی ہوگی ۔یوں ملکی قرضوں کا مجموعی حجم 47ہزار ارب روپے تک پہنچ جائے گا۔ 2018ء تک ملکی مجموعی قرضے 24ہزار ارب روپے تھے اورپانچ برس میں 23ہزار ارب روپے کا خوفناک اضافہ اور اسکے اثرات؟ الامان الحفیظ۔ ملکی مجموعی صورتحال‘کورونا وائرس کے تباہ کن اثرات اور احتسابی عمل پر دمِ تحریر 15شعبان المعظم کی مبارک ساعتیں ہیں‘ جس شب میں قبیلہ بنو کلب (کی بکریوں ) کے ریوڑ کے بالوں سے بھی زیادہ تعداد میں گناہ بخشے جانے کی نوید ہے۔امام شافعی سے مروی ہے کہ 5 راتوں میں خاص طور پر دعا قبول کی جاتی ہے جن میں نصف شعبان کی رات بھی ہے۔