معرکے کی وہ گھڑی خدا خدا کر کے آہی گئی جب دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ جو جیتے اور فتحیاب ہو اسے عاجزی اور فروتنی اختیار کرنا اور جو ناکام ہو اسے اپنی ہارمان لینے میں کوئی مضائقہ نہ ہونا چاہیے۔ یہی جمہوریت ہے اور اسی میں جمہوریت کا حسن ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ ہار ماننا اور اپنی شکست کو تسلیم کرنا آسان نہیں ہوتا۔ اس کے لیے صبر، ہمت اور حوصلے کی ضرورت ہوتی ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ جو ایمانداری سے ہارمان لیتا ہے اور اپنی شکست کے اسباب کا تجزیہ کرنے کا حوصلہ رکھتا ہے، وہ ہار کر بھی نہیں ہارتا اور مستقبل میں اپنی فتح کے امکان کا دروازہ کھول دیتا ہے۔ پڑوسی ملک میں جمہوریت کا تجربہ بڑی حد تک اس لیے کامیاب ہے کہ الیکشن کمیشن کے جاری کردہ نتائج کو تمام پارٹیاں کھلے دل سے تسلیم کرتی ہیں اورہماری سیاسی جماعتیں شکست کھانے کی صورت میں انتخابی نتائج کو ماننے کے بجائے مشکوک ٹھہرا دیتی ہیں۔ اس غیر جمہوری رویے کے لیے لاکھ تاویلیں پیش کی جائیں اور چاہے جتنا کہا جائے کہ نتائج انجینئرڈ تھے، دھاندلی اور ٹھپے بازی سے نتائج کو تبدیل کیا گیا لیکن اصل وجہ اس کے سوا کچھ اور نہیں کہ ہمارا تصور جمہوریت ہی یہی ہے کہ اگر میں جیتوں، میری پارٹی کامیاب ہوتو انتخابات شفاف ہوئے بصورت دیگر مخالفین پر دھاندلی کا الزام لگانے میں جاتا کیا ہے، الفاظ ہی تو خرچ ہوتے ہیں۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ ابھی ہمارا جمہوری شعور پختہ نہیں ہوا اور زیادہ سچائی اور سفاکی سے کہا جائے تو یہ کہہ دینے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں کہ جمہوریت پر ہمارا اعتبار غیر مشروط نہیں، اپنی جیت اور اپنی فتح سے مشروط ہے۔ یہ جاگیرداری اور وڈیرہ شاہی سوچ ہے کہ پنچوں کا فیصلہ سر آنکھوں پر مگر پرنالہ وہیں رہے گا والی بات۔ سسٹم میں کوئی بڑی خرابی نہیں، عیب ہماری سوچ اور ہماری انانیت میں ہے۔ اس اخلاقی کمزوری میں ہے کہ ہم ہار کر بھی مشکل ہی سے ہار ماننے پر تیار ہوتے ہیں۔ اکثر سیاسی پارٹیوں کے اسی رویے کے سبب آبادی کے ایک اچھے بھلے طبقے کو ووٹ سے تبدیلی آتی نظر نہیں آتی۔ چنانچہ وہ پولنگ بوتھ پر قطار باندھ کر ووٹ ڈالنے میں دلچسپی نہیں لیتے۔ وہ سوچتے ہیں کہ یہ سارا عمل کسی خیروبرکت کا نتیجہ نہیں بنتا۔ سیاسی پارٹیاں اور ان کے امیدوار اپنا الو سیدھا کرکے چلتے بنتے ہیں اور ہمارے دگرگوں حالات اور زیادہ دگرگوں ہو جاتے ہیں تو ووٹ ڈالنے اور نہ ڈالنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اپنے حالات سے مایوس ہو کر بیٹھ جانے والے یہ نہیں سوچتے کہ جمہوری عمل خواہ سست رفتار ہی کیوں نہ ہو، وہ اپنا کوئی نہ کوئی مثبت نتیجہ ضرور پیدا کرتا ہے۔ دو بڑی پارٹیوں سے مایوسی اور ان کی مقبولیت میں واضح کمی اور ان کے مقابلے میں ایک تیسری پارٹی کا ابھر کر سامنے آنا دراصل اسی جمہوری عمل کے نتیجے میں ممکن ہوا۔ انتخابات میں دھاندلی، غنڈہ گردی، زور زبردستی اور ٹھپے بازی کے باوجود ایک فسطائی جماعت اگر ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتی ہے تو یہ بھی جمہوری عمل ہی کی بدولت ممکن ہوا اور آخری بات وہی کہ جمہوریت ہماری مجبوری بھی ہے اور ہماری تقدیر بھی کہ اپنی تمام خامیوں اور نقائص کے باوجود اس سے بہتر کوئی طریقہ انتقال اقتدار کا اور عوامی رائے اور فیصلے کو معلوم کرنے کا تاحال انسانی عقل نے دریافت نہیں کیا۔ اس لیے ملک میں جیسی کیسی بھی جمہوریت ہے، اسے قبول کرنا، اس پر اعتماد رکھنا اور اسے مستحکم کرنا از بس ضروری ہے۔ جمہوری طریقہ کار عالمی سیاسی شعور میں اس درجہ رچ بس گیا ہے کہ فوجی راج کو بھی معتبر نہیں سمجھا جاتا تاوقتیکہ آمر مطلق ریفرنڈم یا انتخابات کے ذریعے عوامی تائید حاصل نہ کرلے۔ نظریہ ضرورت کے تحت فوجی بغاوت اور سرکشی کو لاکھ جواز فراہم کیا جائے لیکن عدالت عظمیٰ بھی فوجی بغاوت کو اس ہدایت کے ساتھ پابند کرتی ہے کہ انتخابات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ مارشل کا قانون قطعی اور حتمی اسی صورت میں ہوتا ہے جب عوامی تائید حاصل ہو جائے۔ چنانچہ چاروں جرنیلوں ایوب، یحییٰ، ضیاء اور مشرف کو انتخابات کے لیے عوام سے رجوع کرنا پڑا اور ان جرنیلوں کے ناخوشگوار اور عبرت افزا انجام نے فوجی بغاوت اور سرکشی کا دروازہ ہی بند کردیا۔ بدلے ہوئے حالات نے جرنیلوں کو بھی سبق سکھا دیا کہ سیاست میں براہ راست مداخلت نہ ملک کے لیے بہتر ہے اور نہ خود فوج کے لیے۔ اس میں کیا شبہ ہے کہ ماضی میں مارشل لاء کے لیے حالات خود سیاست دان اپنی کجروی سے ہموار کرتے رہے ہیں اور اب بھی ایسی کوئی شکایت کہ صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں، کوئی ہے تو اس کی ذمہ داری بھی برسراقتدار جماعت یا جماعتوں ہی پر عائد ہوتی ہے۔ جب برسراقتدار طبقہ ملک کو ہری بھری چراگاہ سمجھ کر منہ مارنے سے باز نہ آئے اور بدعنوانی اور بدمعاملگی کے ذریعے اجارے کے درپے ہو جائے، خود کو ہر قانون اور ضابطے سے ماورا سمجھ بیٹھے تو اصلاح احوال اور پکڑ دھکڑ کا اور کیا طریقہ ہے جو اختیار کیا گیا۔ یہ ٹھیک ہے کہ یہ طریقہ کلیتاً شفاف نہیں ہے، اس انداز پر جائز طریقے سے سوالات اٹھائے اور اعتراضات کئے جا سکتے ہیں لیکن یہ بھی تو پوچھا جاسکتا ہے کہ جب ملک کا وزیراعظم اور اس کے وزیروں اور سفیروں کی فوج ظفر موج خود کو ہرقانون اور ضابطے سے بلند وبالا سمجھ بیٹھے اور جمہوریت کی قبا میں آمرانہ طور طریقوں کو رائج کردیا جائے تو پھر اصلاح احوال کاراستہ رہا ہی کہاں ہے۔ سپریم کورٹ اور نیب کے ذریعے جو کچھ ہورہا ہے یا کرایا جارہا ہے اگر یہ ملک و ملت کے لیے مفید اور سود مند ہے تو اس کا قانونی جواز بھی اسی طرح ڈھونڈا جا سکتا ہے اور اس کے لیے بھی ’’نظریہ ضرورت‘‘ کو استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔ عجیب بات یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں قوانین و عدل کے نفاذ میں بے ڈھنگا پن اختیار کیا جاتا ہے۔ ایک صحیح فیصلے میں بھی اتنی مینگنیاں ڈال دی جاتی ہیں کہ صحیح فیصلہ بھی غلط اور مشتبہ ہو جاتا ہے۔ وجہ شاید یہ ہو کہ جیسے فیصلے کئے جا رہے ہیں ان کی روایت ماضی میں ملتی نہیں۔ طاقتور اور بااثر پر قانون کا نفاذ ہوتا رہتا تو یہ بے ڈھنگا پن نہ ہوتا۔ اب درست فیصلے بھی ایسے کئے جاتے ہیں جیسے فیصلہ نہ کیا گیا ہو، سازش کی گئی ہو۔ صحیح فیصلوں کے لیے صحیح طریقہ اور صاف نیتی بھی ضروری ہے۔ جب ایک فریق کو رعایتوں سے محروم اور دوسرے فریق کے لیے رعایتیں ہی رعایتیں ہوں گی تو شبہات کا جنم لینا باعث تعجب نہ ہونا چاہیے۔ انتخابات کے نتائج چاہے کچھ بھی آئیں لیکن اتنا ضرور ہے کہ عوامی شعور اور سیاسی سوجھ بوجھ میں واضح تبدیلی آئی ہے۔ اس تبدیلی کا کریڈٹ اگر جاتا ہے تو وہ میڈیا اور عمران خان کو۔ ہمارے میڈیا میں سو برائیاں ہوں لیکن یہ پڑوسی ملک کے میڈیا سے ہزار گنا بہتر ہے۔ بھارتی میڈیا اپنی کوریج اور تجزیے دونوں اعتبار سے انتہائی متعصب، جانبدار اور معروضیت بیزار ہے۔ جمہوریت کے استحکام میں بلاشبہ میڈیا کا کردار اہمیت کا حامل ہوتا ہے اور ہمیں تعجب ہے کہ ساٹھ ستر برسوں میں جمہوریت کے تسلسل کے باوجود کیوں بھارتی میڈیا باشعور اور غیر جذباتی اور انصاف پسند نہ ہو سکا اور ہمارا میڈیا متواتر پابندیوں کا شکار رہنے کے باوجود کیوں بھارتی میڈیا کے مقابلے میں بالغ نظر اوربڑی حد تک معروضی ہے۔ اس لیے امید کی جاسکتی ہے کہ اب ہمارے ہاں جمہوریت کے تسلسل سے زیادہ اچھے نتائج سامنے آئیں گے۔ ہمارے ہاں عوامی شعور میں جو واضح تبدیلی آئی ہے، ہمیں یقین ہے کہ موجودہ انتخابات پر اس کے خوشگوار اور مثبت اثرات مرتب ہوں گے جنہیں بار بار آزمایا جا چکا ہے، انہیں مزید موقع دینے کا جواز نہیں۔ ہاں جو نئے دعوئوں کے ساتھ آئے ہیں، انہیں بھی آزمائش کے طور پر راج سنگھاسن سونپ کر دیکھنا چاہیے کہ وہ اپنے دعوئوں میں کتنے سچے ہیں۔ یہ ملک اب کسی طالع آزما کے تجربات کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ جو کچھ تبدیلی آنی ہے وہ جمہوریت ہی کے راستے آئے گی کہ جمہوریت ہمارے سر کا تاج بھی ہے اور پائوں کی بیڑی بھی۔ ایسی بیڑی کی وجہ سے صحیح سمت سفر متعین بھی ہو جائے تو منزل تک پہنچنے میں دیر تو لگ ہی جاتی ہے۔