بات صرف ایوان بالا کی نہیں کہ جس کے بارے میں تاثر عام ہے کہ یہاں سب بالا ہی بالاہوجاتا ہے، بس آپ کے پاس کراچی کے سیٹھوں کی زبان میں ’’کھوکے‘‘ ہونے چاہئیں اور وافر تعداد میں ہونے چاہئیں،تحریک انصاف کے رہنما سابق وزیر اعلیٰ سندھ لیاقت جتوئی کے سیف اللہ ابڑو اورپی ٹی آئی کارکنوںکے سینیٹ کے سابق پارٹی ٹکٹ ہولڈر عبدالقادر پر الزامات سنیں تو کانوں سے دھواں نکلنا شروع ہوجاتاہے۔ بلوچستان کے عبدالقادر کے کھوکوں کا تو کسی نے انکشاف نہیں کیالیکن انہیںجن ان دیکھی خدمات کے صلے میں سینیٹ کا ٹکٹ تھمایا گیا تھاوہ معنی خیز ہے۔ تحریک انصاف کے کارکنوں کے شدید احتجاج پر پارٹی ٹکٹ کی واپسی کے بعد عبدالقادر صاحب کوخاطر جمع رکھنی چاہئے تھی کہ اب انکے پلے کچھ نہیں رہا ،انہیں اطمینان سے اپنے کاروبار پر توجہ مرکوز رکھنی چاہئے تھی لیکن جناب کہاں ’’رہنے دو ابھی ساغر و مینا میرے آگے ‘‘ کے مصداق انہوں نے آزاد حیثیت سے کا غذات نامزدگی جمع کرا دیئے، اب سوچنے کی بات ہے کہ عبدالقادر صاحب نے وطن اور قوم کے لئے ایسی کون سی خدمات انجام دی ہیں کہ قوم کے چنے ہوئے لوگ انہیں چن کر ایوان بالا میں پہنچائیں، میں نے اپنے پچیس سالہ صحافتی کیرئیر میں انہیں کسی سیاسی جماعت کے جلسے کیا جلسی میں بھی نہیں دیکھا،وہ کسی دھرنے میں اسٹیج پر لگی کرسیوں کے پیچھے نیلی پیلی ٹوپی پہنے بھی دکھائی نہیں دیئے ،میں نے انہیں کسی تحریک میں گرفتار ہوتے تو کیاکسی کی ضمانت کراتے بھی نہیں دیکھا،جانے وہ اچانک کیسے اتنے اہم ہوگئے کہ انہوں نے تحریک انصاف کے ہزاروں کارکنوں اور سینکڑوں لیڈروں کا جم غفیر چیر کر سینیٹ کا ٹکٹ اچک لیا! نہ صرف وہ یہ کرشمہ کر دکھانے میں کامیاب رہے بلکہ ٹکٹ کی واپسی کے بعد بھی پرامید ہیں کہ بلوچستان سے وہ ہی منتخب ہوں گے وہ اب آزاد حیثیت سے امیدوار ہیں۔ عبدالقادر صاحب کے کیس کو ایک طرف رکھیں ،سندھ سے سیف اللہ ابڑو صاحب کو لے لیں ان پر پی ٹی آئی کے ناراض رہنما لیاقت جتوئی کی جانب سے سینیٹ کا پارٹی ٹکٹ خریدنے کا الزام خاصا سنگین اور جواب طلب ہے کپتان کو اس پر ضرور ایکشن لینا چاہئے لیکن ’’کہتی ہے تجھے خلق خدا غائبانہ کیا ‘‘ ۔۔۔ ذرا عوام سے پوچھیں تو سہی سینیٹ انتخابات کے حوالے سے وہ کیا کہتے ہیں بلکہ سینیٹ ہی کیا یونین کونسل کے انتخابات سے لے کر ایوان بالا کے انتخابات تک ،اب عمومی تاثر یہی ہے کہ یہ پیسے کا کھیل اور بھرے پیٹ کی مستی ہے ،گذشتہ دنوں اسلام آبا دمیں پی ڈی ایم کے ایک نوجوان رہنما گھر جانے کا اتفاق ہوا،اس اتفاق میں حسن اتفاق سے انتخابات کا ذکر چھڑ گیا وہ کہنے لگے احسان بھائی ! یہ الیکشن ولیکشن ہمارے بس کی بات نہیں رہی ،پچھلے دنوں کھانے پر کچھ دوستوں کے ساتھ اسی موضوع پر بات چل پڑی ساتھ ہی ایک ایم این اے صاحب براجمان تھے وہ اچھے خاصے جاگیردار ہیں زمینوں کا لمبا چوڑا کھاتہ رکھتے ہیں وہ بھی مہنگائی کا گلہ کرنے لگے کہ پہلے جو کام دس کا ہوتا تھا اب بیس کو ہورہا ہے میں نے کہا کہ آپ کو بھی مہنگائی سے مسئلہ ہے ؟ تو وہ بولے جی جناب ہم بھی متاثرین میں سے ہیں جو الیکشن دس کا پڑتا تھا اب بیس کا پڑتا ہے میں نے ویسے ہی پوچھ لیاکہ اس بار آپ کے الیکشن پر کتنے اخراجات آئے تھے؟احسان بھائی یقین کرو گے جب اس نے جواب دیا تو میرا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا ،اس بندے کے الفاظ تھے اس با ر خرچہ زیادہ ہواہے مجھے اٹھارہ کروڑ میں سیٹ پڑی ہے ۔ الیکشن سلیکشن کے اس کھیل میں ’’کھوکوں ‘‘ کا عمل دخل روکا جاسکتا ہے ، خفیہ رائے شماری کی جگہ کھلا حق رائے دہی یا ظاہری رائے شماری کافی حد تک موثر ثابت ہوسکتی تھی لیکن تحریک انصاف نے اسے غلط انداز سے آگے بڑھایا الیکشن کے حوالے سے آئین بہت واضح ہے اس کے بعد بھی جانے کس نے بنی گالہ کو صدارتی آرڈیننس جاری کرنے کا مشورہ دیا تھا ،میرے خیال میںظاہری طریقہ ء کار کے آرڈیننس پر عدالت عظمٰی کی رائے آنے کے بعدوزیر اعظم کو بنی گالہ کے لان میں ’’ورکنگ ریلیشن شپ ‘‘کی قدر آئی ہوگی، اس وقت ضداور انانے سیاست کو پیچیدہ کردیا ہے نوبت یہ ہے کہ قومی ایشوز کی بیل کو بھی منڈھے نہیں چڑھ رہی،اپوزیشن اور حکومت کے تعلقات اس حد تک خراب ہیں کہ وطن کی شہ رگ کشمیر پر بھی حزب اقتدار او ر حزب اختلاف یکساں موقف اپنانے میں کامیاب نہیں ہوسکے ۔صورتحال یہ ہے کہ قومی لیڈر کہلانے والے اسٹیج پر بچوں کی طرح مخالفین کی نقلیں اتارتے ملتے ہیں، مجھے سینیٹر حاصل بزنجومرحوم سے پارلیمنٹ لاجز میں ہونے والی ملاقات یاد ہے جس میں کینسر سے لڑتے ہوئے اس بزرگ بلوچ نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اپوزیشن کا تو کام ہی گورنمنٹ کی پوزیشن میں آناہوتا ہے، اسے اس کام سے روکنا الجھاکر رکھناہی تو وزیروں مشیروں کا کام ہے، یہاں یہ حال ہے کہ یہ سب اپوزیشن کو متحد کررہے ہیں کہ آؤ حکومت کے خلاف ایک ہوجاؤ،میرا نہیں خیال کہ حکومت کو کسی اپوزیشن کی ضرورت ہے۔ آج نہیں تو کل ،کل نہیں تو پرسوں ہمیں انتخابات میں وہ چھلنی تو لگانی ہی پڑے گی جو ’’شوق کا کوئی مول نہیں‘‘ والوں کوچھان کر پرے پھینک دے ،دولت مند ہونا صاحب ثروت ہونا، جاگیردار، وڈیرا،صنعتکار ہونے میں کوئی حرج نہیں لیکن جب یہ دولت الیکشن کے شفاف طریقے میں حرج ڈالنے لگے تو جان لینا چاہئے کہ پانی سر سے اونچاہورہاہے اور ہماری حالت تو بس سمجھیں کہ غوطہ لگانے والی ہے کیا ہم اب بھی حرکت نہیں کریں گے ،جیسے سسٹم چل رہا ہے چلنے دیں گے تو نتیجہ ڈوبنے کے سوا کیا ہوگاتو کیا ہم ڈوب جائیں!