مختار مسعود نے ’’آواز دوست‘‘ میں لکھا ہے کہ کسی قوم کو بڑی شخصیتیں انعام کے طور پر قدرت عطا کرتی ہے اور سزا کے طور پر روک لی جاتی ہیں۔ انیسویں صدی اور وسط بیسویں صدی میں کیسی کیسی نابغۂ روزگار ہستیاں مسلمانوں میں پیدا ہوئیں‘ ان کے ناموں کی فہرست ہی مرتب کی جائے تو سوچنا اور یاد کرنا پڑے گا۔ آج صورت یہ ہے کہ زندگی کے جس شعبے میں دیکھو قد آور شخصیات کا کال ملے گا۔ اسے مختار مسعود نے قط الرجال سے تعبیر کیا ہے۔ محمد علی جناح جنہیں ان کی قوم قائد اعظم کے خطاب سے یاد کرتی ہے‘ ایک ایسی ہی نادر روزگار شخصیت تھے۔ جیسی شخصیت نہ تاریخ میں پہلے پیدا ہوئی اور نہ آئندہ پیدا ہونے کا امکان و امید ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ قائد اعظم جس قوم کی محبوب ترین شخصیت ٹھہرے‘ اس قوم میں اپنے عظیم قائد کے اوصاف اور خوبیاں سرے سے ناپید تھیں۔ قائد کے کردار و گفتار میں جو استحکام و استواری تھی‘ قوم میں وہ وصف مفقود تھا۔ قائد اپنے قول و قرار میں جیسے سچے اور اپنی ہٹ میں جیسے پکے تھے‘ قوم ان سے ناآشنا تھی۔ قائد کی شخصیت میں جیسی نفاست اور مزاج میں جو کھرا پن‘ خلوص اور اعلیٰ مقاصد جیسی وابستگی تھی‘ انہیں وقت کا جیسا استعمال (Time managent)آتا تھا اور جس طرح وہ اپنے ایک ایک لمحے کا خیال رکھتے تھے‘ پابندی وقت کا جیسا اہتمام تھا۔ اصولوں سے قوانین سے جیسی ان کی اٹوٹ وابستگی تھی۔ جیسی بے باکی‘ جرات ‘ استقامت خدا نے انہیں بخشی تھی۔ جیسی مردم شناسی ان میں تھی‘ ان کی قوم سرے سے ان باتوں سے خالی تھی۔ گفتار میں جیسی حاضر جوابی‘ ذہانت‘ نکتہ سنجی اور اپنی شخصیت پر جیسا اعتماد انہیں تھا‘ ان کا ذہن مسائل حاضرہ پر جیسا واضح‘ الجھائو سے پاک اور صحیح سمت میں سوچتا تھا‘ ان کے قول و عمل جس طرح باہم جڑے ہوئے تھے اور اعلیٰ اخلاقی تصورات سے ان کی زندگی جیسی آراستہ تھی‘ کاش اس کا شمّہ برابر اثر ان کی قوم اور دوسرے رہنمائوں میں پایا جاتا تو قائد کی مملکت کو اس بحران کا ہرگز سامنا نہ ہوتا جو آج تک ہمیں درپیش ہے۔ قائد اعظم کی شخصیت پر جتنا پڑھو ‘ان پر جتنا غور کرو یہ معمہ حل ہی نہیں ہوتا کہ ایسی چنگاری یارب اپنے خاکستر میں آئی کہاں سے اور کیسے؟ ایک کاروباری خاندان میں جس خاندان کا سیاست سے کبھی کوئی لینا دینا نہیں رہا اور جیسے اوصاف ان میں تھے‘ ان کے خاندان میں اس کی چھینٹ کسی اور پر نہ پڑی تو یہ نابغہ روزگار بندہ اٹھا کیسے اور کس طرح افق ہندوستان پہ ایک سورج بن کر چمکا اور جس کی شخصیت کے سامنے سب گہنا گئے۔ قائد کی زندگی جن الجھنوں اور مشکلات سے گزری‘ ان کی تعلیم اور روزگار میں جن کٹھنائیوں کا انہیں سامنا کرنا پڑا اور جس اعتماد و سکون سے وہ ان سے نبرد آزما ہوئے اور تن تنہا انہوں نے کامیابی کی جو منزلیں طے کیں اور پھر جیسی تنہا اور مصروف زندگی انہوں نے گزاری‘ اس کا تجزیہ اسی نتیجے پر پہنچاتا ہے کہ قدرت نے انہیں ایک ہی مقصد کی تکمیل کے لئے خلق کیا تھا اور وہ تھا مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ وطن کی تخلیق۔ وہ دنیا کے بڑے بڑے لیڈروں سے اس طرح مختلف و منفرد تھے کہ انہوں نے ایک ملک بنایا‘ ایک قوم کو قوم بنا کر متحد و منظم کیا۔ دوسری قوموں کے لیڈر اپنے وطن کی خدمت کر کے لیڈر بنتے ہیں‘ ہمارے قائد نے اپنی قوم کو ایک وطن لے کر دیا۔ ایسی کوئی مثال دنیا میں کہیں اور نہیں ملتی۔ دوسرے ملکوں میں یہ تو ہوا ہے کہ لیڈر نے اپنی قوم و وطن کو اغیار کی غلامی سے آزاد کرایا ہو‘ مایوس اور مظلوم قوم میں اعتماد اور آزادی کے جذبے کی شمع روشن کی ہو‘ اسے زوال اور انحطاط سے نکالا ہو لیکن ایسا کب ہوا ہے کہ ایک نظریے کی بنیاد پر کسی لیڈر اور رہنما نے ایک ملک خلق کر دیا ہو‘ جغرافیے میں تبدیلی کر دی ہو۔ قائد نے بیک وقت تین کام کئے ایک غیر منظم‘ منتشر اور بکھرے ہوئے افراد کو متحد و منظم کر کے ایک قوم بنایا‘ انہیں ایک نظریہ وضع کر کے اس پر یکسو و یکجا کیا اور پھر ایک نئی مملکت کے قیام کو ممکن بنا دیا اور یہ تینوں عظیم کام انہوں نے بقول خود ان کے انہوں نے ایک چھوٹے سے ٹائپ رائٹر اور یک چشمی عینک کی مدد سے انجام دیئے۔ ہندوئوں کی جماعت کانگرس میں گاندھی جی کے ساتھ جواہر لال نہرو‘ سردار ولبھ بھائی پٹیل اور مولانا ابوالکلام آزاد جیسی قائدانہ صلاحتیں رکھنے والی شخصیات تھیں۔ گاندھی جی اور ان شخصیات میں علم‘ تجربے اور قدوقامت میں ایسا بڑا فرق نہ تھا‘ جیسا بڑا فرق قائد اعظم اور لیگ کے دیگر رہنمائوں کے مابین تھا۔ اگر کانگرس میں سے گاندھی جی کی شخصیت کو منہا کر دیا جائے تو بھی نہرو اور آزاد اور کانگرس کی دوسری رہنما شخصیات کی مدد سے ہندوستان کی آزادی ممکن تھی لیکن مسلم لیگ سے آپ قائد اعظم کو نکال دیں تو کسی دوسرے مسلم لیڈر میں ایسی اور اتنی صلاحیت نہ تھی کہ مطالعہ پاکستان کو وہ انگریزوں اور ہندوئوں سے منوا لیتا۔ اس لئے ہم نہایت آسانی سے قیام پاکستان کے کارنامے کو قائد اعظم سے منسوب کر سکتے ہیں۔ یہ کارنامہ اس لحاظ سے بھی عجوبہ تھا کہ قائد اعظم جس قوم کی قیادت کر رہے تھے وہ اپنی قوم میں اپنے اوصاف و کردار کے اعتبار سے اجنبی نہ تھے‘ اپنی زبان اور ذاتی تہذیب کے لحاظ سے بھی اپنی قوم سے کوئی مناسبت نہ رکھتے تھے۔ قائد کو اپنی قوم کی زبان اردو سے معمولی شدبد تھی۔وہ ان سے انگریزی میں خطاب کرتے تھے اور قوم انگریزی سے ناواقف تھی لیکن تقریر نہ سمجھنے کے باوجود قوم اپنے لیڈر کی آواز سے اپنی آواز ملاتی تھی اور بہ قول کسے مجھے نہیں معلوم کہ قائد کیا کہہ رہے ہیں لیکن وہ جو کہہ رہے ہیں ٹھیک ہی کہہ رہے ہیں۔ ایسا اندھا اعتماد کس لیڈر پر اس کی قوم نے کیا ہو گا؟ یہ اعتماد اس کردار پر تھا جس کے حامل قائد تھے۔ اس لئے یہ کہنا کچھ غلط نہ ہو گا کہ مسلمانوں کی اجتماعی زندگی میں قائد اعظم کی شخصیت کا ظہور ایک معجزہ تھا۔ چنانچہ یہ مملکت عزیز غیروں اور اپنوں کی تمام تر سازشوں اور کوششوں کے باوجود آج بھی دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت ہے اور تجزیہ نگاروں اور مصنفوں اور محققوں کی حیرت کا تماشا بنا ہوا ہے جو ان کی تمام تر پیش گوئیوں کو غلط ثابت کر کے اپنے وجود کو قائم رکھے ہوئے ہے۔ میرا یقین ہے کہ ہماری مملکت عزیز سے قدرت وہ کام لینا چاہتی ہے جس کے لئے اسے خلق کیا گیا ہے اور اس کا یہی مقصود وجود اس کے زندہ و سلامت رہنے کا جواز ہے ۔ جب یہ ملک بنا تھا تب بھی کانگرس اور مسٹر جواہر لال نہرو کو یقین نہ تھا کہ اپنے گھمبیرمسائل اور سوختہ اقتصادی حالت کی وجہ سے یہ قائم رہ سکے گا اور 65ء کی پاک بھارت جنگ کے وقت بھی بھارتی جرنیلوں کا دعویٰ یہی تھا کہ وہ رات کی شراب لاہور جم خانے میں پئیں گے اور 1971ء میں بھی یہی اندیشہ تھا کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد اس کا مغربی حصہ بھی اپنے وجود کو سلامت نہ رکھ سکے گا لیکن تینوں مواقع کی تمام تر نزاکتوں اور گھمبیرتا کے باوجود آج بھی یہ ملک قائم ہے اور ایک نئے سفر کی جانب رواں دواں ہے۔ قائد کو قدرت کی طرف سے وہی اوصاف اور غیر معمولی صلاحتیں عطا کی گئی تھیں۔ جن کے بغیر وہ یہ مہتمم بالشان کارنامہ انجام دے ہی نہ سکتے تھے۔ خداوند تعالیٰ اب ہماری قوم میں وہ اوصاف اور خوبیاں پیدا کر دے جن کے بغیر وہ کام لینا ممکن ہی نہیں جس کے لئے یہ ملک خلق ہوا ہے!